اسلام آباد؍ لاہور (صلاح الدین خان+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ ) آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے سائفر کیس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید با مشقت کی سزا سنادی ہے۔ سائفر کیس میں عمران خان اور شاہ محمود کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت سزا سنائی گئی۔ بانی پی ٹی آئی پر مقدمہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے سیکشن 5 اور9 کی دفعات کے تحت درج تھا جب کہ سائفرکیس میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 بھی لگائی گئی تھی۔ سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 حساس معلومات کو جھوٹ بول کر آگے پہنچانے سے متعلق ہے، سیکرٹ ایکٹ 1923 کا سیکشن 9 جرم کرنے کی کوشش کرنے یا حوصلہ افزائی سے متعلق ہے۔ کسی کے پاس حساس دستاویز، پاس ورڈ یا خاکہ ہو اور اس کا غلط استعمال ہو تو سیکشن 5 لگتی ہے، حساس دستاویزات رکھنے کے حوالے سے قانونی تقاضے پورے نہ کرنے پر بھی سیکشن 5 لاگو ہوتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ سیکشن 34 کے تحت شریک ملزمان کا کردار بھی مرکزی ملزم کے برابر ہوگا، سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 سب سیکشن 3 اے کے تحت سزائے موت بھی ہوسکتی ہے جبکہ سیکرٹ ایکٹ 1923 سیکشن 5 سب سیکشن 3 اے کے تحت زیادہ سے زیادہ14 سال قیدکی سزا ہوسکتی ہے۔ اڈیالہ جیل راولپنڈی میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خصوصی عدالت میں جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے سائفر کیس کی سماعت کی۔ سابق وزیر اعظم اور سابق وزیر خارجہ کے خلاف سائفر کیس میں تمام 25 گواہان کے بیانات پر جرح مکمل کی گئی۔ جج عدالت نے ملزمان سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ کو دفعہ 342 کا سوالنامہ دیا۔ جس میں 36 سوال تھے، بانی پی ٹی آئی نے 342 کے تحت اپنا بیان عدالت میں ریکارڈ کروایا۔ بانی پی ٹی آئی کا بیان مکمل ہونے کے بعد جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے استفسار کیا کہ خان صاحب، آپ سے آسان سا سوال ہے، سائفر کہاں ہے؟۔ بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ میں نے جو بیان میں کہا ہے کہ مجھے نہیں معلوم، سائفر میرے دفتر میں تھا۔ اس موقع پر جج نے کہا کہ خان صاحب، شاہ محمود قریشی صاحب، میری طرف دیکھیں، میں آپ کو 10، 10 سال قید کی سزا سناتا ہوں۔ فیصلہ سنانے کے بعد جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین عدالت سے اٹھ کر چلے گئے جبکہ فیصلے کے بعد بانی پی ٹی آئی مسکراتے رہے۔ فیصلے کے بعد شاہ محمود قریشی نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ میرا تو ابھی بیان ہی ریکارڈ نہیں ہوا۔ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت بننے والی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے ملزمان کی موجودگی میں مختصر فیصلہ میں سزا سنائی۔ سائفر کیس ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس سٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت5 اکتوبر 2022 کو درج کیا گیا تھا۔ علاوہ ازیں پاکستان تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی، شاہ محمود قریشی کی سائفر کیس میں سزا چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔ تحریک انصاف کی جانب سے جاری بیان میں بانی چیئرمین اور وائس چیئرمین کی سزاؤں کو مسترد کرتے ہوئے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تحریک انصاف کے ترجمان رؤف حسن نے ایک بیان میں کہا کہ بانی چیئرمین اور وائس چیئرمین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ جج صاحب نے اپنی طرف سے سوالات کئے، ہم ان سے کیا توقعات رکھیں، آئین اور قانونی طریقہ کار سے ہٹ کر کیسز کو چلایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تمام کارکنان اورپی ٹی آئی سے لگاؤ رکھنے والے تحمل کا مظاہرہ کریں، ہمیں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ پر اعتماد ہے۔ بیرسٹر گوہر کا کہنا تھا کہ فیصلے پر کارکنان مشتعل نہ ہوں، کوئی قانون ہاتھ میں نہ لیں، ہماری توجہ الیکشن سے ہٹانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن 8 فروری کو سب کا محاسبہ ہوگا۔ بیرسٹر علی ظفرکا کہنا تھا کہ ٹرائل ہوا ہی نہیں تو سزا کیسے ہوسکتی ہے؟ یہ ٹرائل نہیں عدالتی نظام کے ساتھ فراڈ تھا، مس ٹرائل کیا گیا، شروعات ٹھیک تھیں لیکن چار پانچ دن سے جج صاحب نے سب کچھ بدل دیا۔ بیرسٹر علی ظفر کے مطابق جج نے اپنی مرضی سے کیس چلایا، جیسے گھر میں بیٹھ کر فیصلہ کردیا گیا ہو، آرٹیکل ٹین اے اور ٹرائل کے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی گئی اور انصاف کی دھجیاں اڑائی گئیں۔ کل ہائیکورٹ جائیں گے۔ بانی پی ٹی آئی نے توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیب کیس میں جیل ٹرائل چیلنج کیا۔ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف کے بانی کی توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیب کیسز میں جیل ٹرائل کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن بینچ نے محفوظ فیصلہ سنایا۔ بینچ میں چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری شامل تھے۔ عدالت عالیہ نے جیل ٹرائل کے خلاف بانی پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کردیں۔ خیال رہے کہ بانی پی ٹی آئی نے توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیب کیس میں جیل ٹرائل چیلنج کیا تھا۔ واضح رہے کہ توشہ خانہ اور 190 ملین پاؤنڈ نیب کیسز کا ٹرائل بھی اڈیالا جیل میں چل رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل پی ٹی آئی عمر ایوب نے سائفر کیس میں بانی چیئرمین اور وائس چیئرمین پی ٹی آئی کو سنائی جانے والی سزا پر جاری بیان میں کارکنان کو پرامن رہنے کی ہدایت کی ہے۔ تحریک انصاف نے ہمیشہ 'قانون کی حکمرانی' کے اصول کی پاسداری کی ہے، موجودہ فیصلہ ہمیں اس اصول کوآگے بڑھانے سے نہیں روک سکتا۔ اس فیصلے کے خلاف ہائیکورٹ میں اپیل کریں گے اور اپنی قانونی جنگ جاری رکھیں گے۔ علاوہ ازیں بانی پی ٹی آئی کے خلاف توشہ خانہ ریفرنس کیس کی سماعت آج تک ملتی کر دی گئی۔ دوران سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی طبیعت خراب ہو گئی۔ جج محمد بشیر کا جیل ہسپتال میں طبی معائینہ کیا گیا۔ دریں اثناء انسداد دہشتگردی عدالت کے جج ارشد جاوید نے 9 مئی کے 7 مقدمات میں سابق چیئرمین پی ٹی آئی عمران نیازی کی عبوری ضمانتوں پر سماعت 2 فروری تک ملتوی کر دی۔دریں اثناء احتساب عدالت آج بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کا 342 کا بیان ریکارڈ کرے گی۔ بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل کمرہ عدالت میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو مشکل میں کھڑا رہتا ہے وہی اصل وفادار ہوتا ہے، شاہ محمود قریشی جس طرح کھڑا رہا میں اس کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں، چوہدری پرویز الہی کو مان گیا ہوں، شیخ رشید کا سنا ہے وہ بستر سے باہر نہیں نکلتا۔ صحافی نے سوال کیا کہ وزیراعظم ہائوس سے سائفر کس طرح چوری ہوا، جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے ایک اے ڈی سی پر شک ہے جس نے سائفر چوری کیا۔ صحافی نے پوچھا اے ڈی سی کا نام بتانا پسند کریں گے۔ انہوں نے کہا اے ڈی سی سمیت تین لوگوں پر شک ہے نام اس لئے نہیں لوں گا کیونکہ صرف شک تھا، سائفر کیس کی انکوائری پر جب جنرل طارق پیچھے ہٹ گیا تو سب کو پتا چل گیا کہ اس کے پیچھے کون ہے، ڈونلڈ لو کہہ رہا ہے وزیر اعظم کو ہٹائو اس میں ثبوت کی کیا ضرورت ہے ، سائفر کی انکوائری ہوتی تو سب کچھ سامنے آجاتا۔ صحافی نے سوال کیا کہ آپ نے کہا آئی ایس آئی نے آپ کی حکومت کے خلاف پلاٹ تیار کیا، جنرل فیض آئی ایس آئی کا چیف تھا اس کا نام کیوں نہیں لیتے۔ انہوں نے کہا کہ جنرل فیض کو جب عہدے سے ہٹایا گیا تو ان سب نے مٹھائیاں بانٹیں مبارکبادیں دیں۔ علاوہ ازیں اڈیالہ جیل کمرہ عدالت میں شاہ محمود قریشی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں پہلے ہی پتا تھا میچ فکس ہے، جس بھونڈے طریقے سے فیصلہ دیا گیا اس کا اندازہ نہیں تھا، سوال یہ ہے کہ قانون کی دھجیاں اڑائی گئیں، ہمیں اپنے ڈیفنس کونسل کھڑے نہیں کرنے دیئے، میرا 342 کا بیان لینے سے پہلے ہی جج نے اپنا فیصلہ سنا دیا، سزا تو ہونی تھی یہ معلوم تھا، پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کا سیاسی کیس نہیں چلا، ذوالفقار علی بھٹو کا جو فیصلہ تھا یہ تو اس سے بھی دو قدم آگے چلے گئے، ہم اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے، فیصلہ سنانے کے بعد جج صاحب کمرہ عدالت سے بھاگ گئے، سزا کے باوجود میرا ضمیر مطمئن ہے، پاکستان کا ہمیشہ دفاع کیا ہے کرتے رہیں گے۔ زندہ یا مردہ ملتان کے قبرستان میں جائوں گا۔ بانی پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو پارلیمنٹ سے باہر رکھنے کا منصوبہ بن چکا تھا، تحریک انصاف کے ساتھ بے وفائی کرتا تو ڈارلنگ ہوتا، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں ایک اور تہلکہ خیز بیان دوں گا، سائفر کیس کی قانونی حیثیت ختم کردی گئی، سٹیٹ ڈیفنس کونسل نے مجھے بتایا ایسی زیادتی کبھی نہیں دیکھی، سائفر کے بعد موجودہ امریکن سفیر نے میرے ساتھ دو ملاقاتیں کیں، برطانیہ اور یورپی یونین کے سفارتکاروں سے ملاقات ہوتی رہی، اگر سائفر سے سفارتی تعلقات خراب ہوتے تو یہ لوگ میرے ساتھ کیوں ملاقاتیں کرتے، ہم اپنی وکلا ٹیم کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ دریں اثناء ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد طاہر عباس سپرا نے بانی پی ٹی آئی عمران خان اور انکی اہلیہ بشری بی بی کی عبوری ضمانتوں میں 15 فروری تک توسیع کر دی۔
لاہور (خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ) انسداد دہشت گردی عدالت نے لاہور کے جناح ہاؤس پر حملے اور جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پی ٹی آئی کے 7 اشتہاری ملزموں کی جائیدادیں قرق کرنے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے پولیس کی درخواست پر احکامات جاری کئے\ پولیس نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزموں نے خود کو روپوش کر رکھا ہے‘ ملزم اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں۔ پولیس نے عدالت سے ملزموں کی جائیدادوں کو قرق کرنے کی استدعا کی تھی۔ انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نوید اقبال نے جناح ہاؤس جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پی ٹی آئی کے 7 اشتہاری ملزمان میاں اسلم اقبال، حماد اظہر، مراد سعید، اعظم سواتی، حافظ فرحت، علی امین گنڈاپور، سعید احمد کی جائیدادیں قرق کرنے کا حکم دے دیا۔