سائفر کیس کی خصوصی عدالت نے کیس میں پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کی حکومت میں اس وقت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو 10،10 سال قید کی سزا سنا دی ہے۔ عمران خان اور شاہ محمود قریشی عدالت میں موجود تھے۔ مختلف سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنماؤں کے اس کیس اور گذشتہ روز سنائی جانے والی سزا کے حوالے سے مختلف رائے ہو گی۔ وہ سیاسی جماعتیں جو پاکستان تحریک انصاف کی مخالف ہیں ان کے لیے تو یہ صورت حال باعث اطمینان ہے لیکن ایک سیاسی جماعت کے قائد کا ایسے مقدمات میں جیل جانا، مجرم قرار پانا، دس سال کی سزا کا ہونا یہ پاکستان کی سیاست کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ گوکہ اس میں کچھ شک نہیں کہ سائفر کے معاملے میں قومی سلامتی کو داو پر لگایا گیا، ایک سیاسی جماعت کی سرکردہ قیادت نے اقتدار کی ہوس میں پاکستان کے مستقبل سے کھلواڑ کیا۔ کرسی پر جمے رہنے کی خاطر دنیا کیاہم ممالک سے پاکستان کے دیرینہ تعلقات کی پروا نہ کی، عوامی سطح پر بیک وقت خود کو مظلوم اور بہادر بنا کر، انقلابی بنا کر پیش کیا، عوام کو حقائق سے بیخبر رکھا، معصوم لوگوں کے جذبات سے کھیلا، نوجوانوں کو تشدد پر ابھارا، بار بار بیانات بدلے، اپنے ہی دفاعی اداروں پر چڑھائی کی، ملک میں انتشار پھیلایا، ہر طرف آگ لگانے کا ماحول پیدا کیا، قومی سلامتی کو داو پر لگایا، شہدا کی بیحرمتی کرتے رہے، شہدا کی یادگاروں کو نقصان پہنچایا، اپنے ووٹرز کو ریاستی املاک کو نقصان پہنچانے کے لیے تیار کیا، نجانے کیا کچھ نہیں کیا، ہر وہ کام جس سے ملک میں انتشار پھیلے، آگ اور خون کا کھیل کھیلا جائے، بھائی بھائی کا دشمن بن گیا، ہر گھر میں لڑائیاں ہونے لگیں، لوگ اپنے ہی ملک سے ناخوش نظر آنے لگے۔ یہ سارا فساد ایک طے شدہ منصوبے کے تحت ہوا۔ ملک میں یہ سارا فساد اس سیاسی جماعت نے پیدا کیا جسے ریاستی اداروں نے ملک کی معیشت، دیرینہ اور بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے ہر حد تک سپورٹ کیا، ہر وہ سہولت فراہم کی جس سے ملک کے مسائل حل ہو سکیں، بہتری آئے اور معیشت مضبوط ہو لیکن تمام تر تعاون کے باوجود بھی جب سیاسی حکومت ناکام ہوئی، کرپشن میں اضافہ ہوا، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں جائز کام کے ریٹ بھی بڑھ گئے، ایک آئینی و قانونی طریقے سے سیاسی جماعتوں نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کیا تو پھر اسی جماعت نے اس کی سرکردہ قیادت نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی، ناکامیوں کو قبول کرنے کے بجائے، ناکامیوں کو تسلیم کرنے کے بجائے، اپنی اصلاح کے بجائے قومی سلامتی کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیلا۔ ملک میں جمہوریت کی بات کرنے والوں نے اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے آمریت کو آوازیں دیں جب ہر طرف سے ناکامی ہوئی تو پھر سارا ملبہ دفاعی اداروں پر ڈال کر خود کو بیک وقت مظلوم اور انقلابی ثابت کرنے کے سفر پر چل نکلے، کبھی اسلامک ٹچ کا سہارا لیا تو کبھی بتایا کہ امریکہ میرا مخالف ہے اور کبھی کہا کہ بیرونی سازش والا باب بند ہو چکا، کرپشن ختم کرنے کا نعرہ لگا کر آئے لیکن گھڑیاں بیچنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ یہی ہمارے سیاسی رویے ہیں یہ اس جماعت نے کیا جس کے لیے لوگوں نے موسموں کی سختیاں برداشت کرتے ہوئے کام کیا، دیرینہ تعلقات کو قربان کیا لیکن وہ جماعت حکومت میں آ کر نہ کرپشن ختم کر سکی، نہ مہنگائی پر قابو پا سکی، نہ بیروزگاری میں کمی لا سکی، نہ تعلیم کو سستا کیا، نہ عام آدمی کی زندگی کو آسان کیا، نہ غریبوں کے زخموں پر مرہم رکھا، اس دور میں امیر امیر تر ہوا اور غریب تر لیکن پھر بھی ڈھٹائی سے کہتے ہیں کہ ملک و قوم کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ سیاست دانوں کا جیل جانا خوشی نہیں تکلیف کی بات ہے، حکمرانوں کو سزا ہونا خوشی نہیں تکلیف دہ ہے، لمحہ فکریہ ہے، کوئی وزیر اعظم اگر قومی سلامتی کو داو پر لگا دے تو یہ بہادری نہیں حماقت اور ملک دشمنی ہے۔ آج جو بغلیں بجا رہے ہیں کون جانتا ہے کل یہ لوگ بھی وہی کریں جو بانی پی ٹی آئی اور ان کے ساتھیوں نے کیا ہے، کیوں ہر وقت غیر ضروری بولتے رہتے ہیں، کیوں ہر وقت سیاسی مخالفین کو نشانہ بنانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، کیوں سیاسی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہیں۔ جب تک سیاسی قیادت سنجیدہ نہیں ہو گی، غلطیوں سے نہیں سیکھے گی آگے نہیں بڑھ سکتے۔ ہم ایک قدم آگے اور چار قدم پیچھے کو سفر کرتے ہیں۔ کاش یہ سلسلہ بند ہو جائے۔
آخر میں ابن انشاء کا کلام
اک بار کہو تم میری ہو"
ہم گھوم چکے بستی بن میں
اک آس کی پھانس لیے من میں
کوئی ساجن ہو کوئی پیارا ہو
کوئی دیپک ہو، کوئی تارا ہو
جب جیون رات اندھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
جب ساون بادل چھائے ہوں
جب پھاگن پھول کھلائے ہوں
جب چندا روپ لٹاتا ہو
جب سورج دھوپ نہاتا ہو
یا شام نے بستی گھیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
ہاں دل کا دامن پھیلا ہے
کیوں گوری کا دل میلا ہے
ہم کب تک پیت کے دھوکے میں
تم کب تک دور جھروکے میں
کب دید سے دل کو سیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو
کیا جھگڑا سود خسارے کا
یہ کاج نہیں بنجارے کا
سب سونا روپا لے جائے
سب دنیا، دنیا لے جائے
تم ایک مجھے بہتیری ہو
اک بار کہو تم میری ہو