…نہائے گی کیا‘ نچوڑے گی کیا

سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے استفسار کیا کوئی جنرل (ر) مشرف کی جانب سے پیش ہوا ہے۔ تو عدالت میں سناٹا چھا گیا۔ سابق مرد آہن خود موجود نہیں تھا۔ کوئی وکیل اس کی جانب سے پیش نہیں ہوا۔ اس کے دور کے آخری اٹارنی جنرل ملک قیوم‘ جنہوں نے 3 نومبر کی ایمرجنسی کا بھرپور دفاع کیا تھا‘ کمرہ عدالت میں موجود تھے۔ انہوں نے بھی اپنے سابق باس اور ممدوح کا موقف بیان کرنے سے گریز کیا۔ راقم نے عدالت عظمٰی کا نوٹس جاری ہونے کے اگلے روز ان کالموں میں لکھا تھا۔ جنرل مشرف خود پیش ہونگے نہ ان کا کوئی وکیل… اس لئے کہ ان کا موقف ہی سرے سے کوئی نہیں ان کے تمام دلائل کا منبع بطور آرمی چیف فوجی طاقت تھی۔ اسی کے بل بوتے پر اقتدار پر ناجائز قبضہ کیا۔ بعد میں غیر آئینی صدر بنے۔ پھر آخری دنوں میں صدارت خطرے میں پڑ گئی تو اعلیٰ عدالتوں سے جان چھڑانے کی خاطر 3 نومبر کی ایمرجنسی پلس نافذ کی۔ باردگر مارشل لا لگایا۔ آئین کو اٹھا پھینکا۔ اب فوجی طاقت نہیں رہی تو اتنی مطعون اور قوم دشمن حرکت کا دفاع کیا اور کیسے کریں گے۔ گنجی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا۔ وکیل کمزور سے کمزور موقف کو عمدہ دلائل سے مرصع کرنے کی پیشہ وارانہ صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہر مقدمہ لڑ سکتے ہیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے پیش ہو سکتے ہیں۔ انہیں یہ بھی استحقاق حاصل ہے کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے قاتل کو بھی قانون کا اگر کوئی سہارا مل سکتا ہو تو فراہم کریں اس لئے قاتلوں اور مجرموں کے بھی وکیل ہوتے ہیں اور جائز طور پر ہوتے ہیں لیکن جنرل مشرف کا المیہ ملاحظہ کیجئے گنتی کے وہ چند وکیل جو عدلیہ کے
بحران کے دوران ان کا مقدمہ لڑنے کے لئے دن رات ایک کرتے تھے۔ ان میں سے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ شریف الدین پیرزادہ کے جنرل صاحب سب سے زیادہ معترف تھے۔ ان کے قانونی دماغ نے ان کی آمریت کو سہارا بھی بہت پہنچایا۔ لیکن یہ سلوک تو جناب پیرزادہ نے ہر فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا ہے۔ مگر اس وقت تک جب تک وہ آمر سریر آرائے حکومت ہو۔ حکومت باقی نہ رہے تو آمر کس بات کا۔ اس کا دفاع کیوں کیا جائے۔ جناب قیوم ملک جنہوں نے عدلیہ کے بحران کے آغاز پر اصولی بنیادوں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا انہیں جنرل مشرف نے بحران کے عروج پر اپنے اٹارنی جنرل کے طور پر چن لیا۔ انہوں نے پینترا بدلا باس کا ساتھ دینے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ اب قیوم ملک صاحب اٹارنی جنرل ہیں نہ مصرف صاحب صدر اور آرمی چیف۔ اس کے بعد ملک صاحب ان کے مقدمے کی تیاری کے لئے اپنا وقت کاہے کو ضائع کریں اور صلاحیتیں کیوں صرف کریں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کا شمار ملک کے سینئر ترین وکیلوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نوٹس کے اجراء کے بعد لندن میں مشرف سے ملاقات بھی کی۔ کوئی مشورہ بھی یقیناً دیا ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں یہ مشورہ اس کے علاوہ کچھ نہ ہو گا نوٹس کا جواب نہ دیا جائے۔ اسی میں عافیت ہے سو اسی پر عمل ہوا ہے۔ جب جنرل مشرف ہمہ مقتدر تھے۔ ان کے مقدمات کی بھاری فیسیں قومی خزانے سے ادا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ ان کی قانونی جنگ لڑنے والوں کو قرب حاکم بھی حاصل ہوتا تھا اور جھولیاں بھی بھری جاتی تھیں۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔ مشرف اگرچہ خود نہیں آئے ان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔ لیکن عدالت عظمٰی نے اپنی ذمہ داری ہر حالت میں پوری کرنی ہے۔ اس نے غاصب کو اپنے دفاع کا موقع دیا اس نے راہ فرار اختیار کی۔ لیکن دو مرتبہ آئین کو توڑنے والے کے ساتھ آئین کے عین مطابق سلوک ہونا چاہئے۔ دفعہ 6 اسی لئے رکھی گئی تھی اب تک اس پر عمل نہیں ہوا تو ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ چیف جسٹس نے بجا طور پر کہا ہے برطانوی قوم نے کرامویل کی لاش کو قبر سے نکال کر سرعام لٹکا دیا۔ اس کے بعد کوئی برطانوی جمہوریت کو زک نہ پہنچا سکا۔ لازم ہے پاکستان میں بھی طاقت کے ذریعے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والوں کو نمونہ عبرت بنایا جائے۔ اس کے بغیر ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی عملداری کا تسلسل قائم نہیں ہو گا۔ ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکے گا۔

ای پیپر دی نیشن