بحران کے دوران ان کا مقدمہ لڑنے کے لئے دن رات ایک کرتے تھے۔ ان میں سے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ شریف الدین پیرزادہ کے جنرل صاحب سب سے زیادہ معترف تھے۔ ان کے قانونی دماغ نے ان کی آمریت کو سہارا بھی بہت پہنچایا۔ لیکن یہ سلوک تو جناب پیرزادہ نے ہر فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا ہے۔ مگر اس وقت تک جب تک وہ آمر سریر آرائے حکومت ہو۔ حکومت باقی نہ رہے تو آمر کس بات کا۔ اس کا دفاع کیوں کیا جائے۔ جناب قیوم ملک جنہوں نے عدلیہ کے بحران کے آغاز پر اصولی بنیادوں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا انہیں جنرل مشرف نے بحران کے عروج پر اپنے اٹارنی جنرل کے طور پر چن لیا۔ انہوں نے پینترا بدلا باس کا ساتھ دینے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ اب قیوم ملک صاحب اٹارنی جنرل ہیں نہ مصرف صاحب صدر اور آرمی چیف۔ اس کے بعد ملک صاحب ان کے مقدمے کی تیاری کے لئے اپنا وقت کاہے کو ضائع کریں اور صلاحیتیں کیوں صرف کریں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کا شمار ملک کے سینئر ترین وکیلوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نوٹس کے اجراء کے بعد لندن میں مشرف سے ملاقات بھی کی۔ کوئی مشورہ بھی یقیناً دیا ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں یہ مشورہ اس کے علاوہ کچھ نہ ہو گا نوٹس کا جواب نہ دیا جائے۔ اسی میں عافیت ہے سو اسی پر عمل ہوا ہے۔ جب جنرل مشرف ہمہ مقتدر تھے۔ ان کے مقدمات کی بھاری فیسیں قومی خزانے سے ادا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ ان کی قانونی جنگ لڑنے والوں کو قرب حاکم بھی حاصل ہوتا تھا اور جھولیاں بھی بھری جاتی تھیں۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔ مشرف اگرچہ خود نہیں آئے ان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔ لیکن عدالت عظمٰی نے اپنی ذمہ داری ہر حالت میں پوری کرنی ہے۔ اس نے غاصب کو اپنے دفاع کا موقع دیا اس نے راہ فرار اختیار کی۔ لیکن دو مرتبہ آئین کو توڑنے والے کے ساتھ آئین کے عین مطابق سلوک ہونا چاہئے۔ دفعہ 6 اسی لئے رکھی گئی تھی اب تک اس پر عمل نہیں ہوا تو ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ چیف جسٹس نے بجا طور پر کہا ہے برطانوی قوم نے کرامویل کی لاش کو قبر سے نکال کر سرعام لٹکا دیا۔ اس کے بعد کوئی برطانوی جمہوریت کو زک نہ پہنچا سکا۔ لازم ہے پاکستان میں بھی طاقت کے ذریعے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والوں کو نمونہ عبرت بنایا جائے۔ اس کے بغیر ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی عملداری کا تسلسل قائم نہیں ہو گا۔ ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکے گا۔
…نہائے گی کیا‘ نچوڑے گی کیا
Jul 31, 2009
بحران کے دوران ان کا مقدمہ لڑنے کے لئے دن رات ایک کرتے تھے۔ ان میں سے بھی کوئی سامنے نہیں آیا۔ شریف الدین پیرزادہ کے جنرل صاحب سب سے زیادہ معترف تھے۔ ان کے قانونی دماغ نے ان کی آمریت کو سہارا بھی بہت پہنچایا۔ لیکن یہ سلوک تو جناب پیرزادہ نے ہر فوجی ڈکٹیٹر کے ساتھ کیا ہے۔ مگر اس وقت تک جب تک وہ آمر سریر آرائے حکومت ہو۔ حکومت باقی نہ رہے تو آمر کس بات کا۔ اس کا دفاع کیوں کیا جائے۔ جناب قیوم ملک جنہوں نے عدلیہ کے بحران کے آغاز پر اصولی بنیادوں پر جسٹس افتخار محمد چودھری کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا تھا انہیں جنرل مشرف نے بحران کے عروج پر اپنے اٹارنی جنرل کے طور پر چن لیا۔ انہوں نے پینترا بدلا باس کا ساتھ دینے میں کوئی کسر روا نہ رکھی۔ اب قیوم ملک صاحب اٹارنی جنرل ہیں نہ مصرف صاحب صدر اور آرمی چیف۔ اس کے بعد ملک صاحب ان کے مقدمے کی تیاری کے لئے اپنا وقت کاہے کو ضائع کریں اور صلاحیتیں کیوں صرف کریں۔ عبدالحفیظ پیرزادہ کا شمار ملک کے سینئر ترین وکیلوں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے نوٹس کے اجراء کے بعد لندن میں مشرف سے ملاقات بھی کی۔ کوئی مشورہ بھی یقیناً دیا ہو گا۔ قرائن بتاتے ہیں یہ مشورہ اس کے علاوہ کچھ نہ ہو گا نوٹس کا جواب نہ دیا جائے۔ اسی میں عافیت ہے سو اسی پر عمل ہوا ہے۔ جب جنرل مشرف ہمہ مقتدر تھے۔ ان کے مقدمات کی بھاری فیسیں قومی خزانے سے ادا کی جاتی تھیں۔ چنانچہ ان کی قانونی جنگ لڑنے والوں کو قرب حاکم بھی حاصل ہوتا تھا اور جھولیاں بھی بھری جاتی تھیں۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے۔ مشرف اگرچہ خود نہیں آئے ان کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا۔ لیکن عدالت عظمٰی نے اپنی ذمہ داری ہر حالت میں پوری کرنی ہے۔ اس نے غاصب کو اپنے دفاع کا موقع دیا اس نے راہ فرار اختیار کی۔ لیکن دو مرتبہ آئین کو توڑنے والے کے ساتھ آئین کے عین مطابق سلوک ہونا چاہئے۔ دفعہ 6 اسی لئے رکھی گئی تھی اب تک اس پر عمل نہیں ہوا تو ہمیں یہ دن دیکھنا پڑے۔ چیف جسٹس نے بجا طور پر کہا ہے برطانوی قوم نے کرامویل کی لاش کو قبر سے نکال کر سرعام لٹکا دیا۔ اس کے بعد کوئی برطانوی جمہوریت کو زک نہ پہنچا سکا۔ لازم ہے پاکستان میں بھی طاقت کے ذریعے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والوں کو نمونہ عبرت بنایا جائے۔ اس کے بغیر ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہو گا۔ آئین کی بالادستی اور جمہوریت کی عملداری کا تسلسل قائم نہیں ہو گا۔ ملک کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن نہیں کیا جا سکے گا۔