اےوب خان کی آمرےت کے خلاف مادر ملت کا تارےخی قدم

فاطمہ نے اپنے بھائی کی معاونت اور سےاست کی عمےق گہرائےوں سے واقفےت حاصل کی۔ اےک عظےم رہبر کے ساتھ رہ کر ان مےں استقلال پےدا ہونا لازم تھا۔ آپ حقوق پاکستان کا احساس کرتے ہوئے فےلڈ مارشل محمد اےوب خان کے مقابلے مےں صدارت کی امےدوار بن گئےں۔ پاکستان کی سےاست مےں اےک نام پےدا کےا۔
محترمہ مےدان مےں اےک جابر حکمران کے سامنے آ گئےں۔ بزرگ سےاستدان خاموش بےٹھے رہے وہ اےک اےسا سےاسی ارتعاش تھا۔ بہت سی چےزےں ےاد نہےں تاہم لاہور چھاو¿نی‘ کوٹ رادھا کشن‘ پتوکی‘ رائے ونڈ‘ ساہےوال‘ ملتان‘ خانےوال‘ خانپور‘ رحیم یار خان اور سکھر تک ایسے مناظر آئے کہ بےان کرنا مشکل ہے۔
محترمہ کا اتنا شاندار استقبال ہر سٹےشن پر ہوا۔ گاڑی رکتی ےا روک لی جاتی۔ لوگ ٹڈی دل کی طرح اتر آتے۔ انجن سے لے کر گاڑی کے ہر ڈبے مےں لوگ ہی لوگ تھے۔ پلےٹ فارم پر تل رکھنے کی جگہ نہ ملتی۔ رےل کی پٹڑی انسانوں سے بھری ہوتی‘ درختوں پر انسان‘ کھمبوں پر انسان‘ ہر اےک کی خواہش ہوتی کہ وہ محترمہ کو دےکھ لے۔ اتنے مےں محترمہ کمرہ سے باہر آئےں اےک جھلک کی تمنا ہر غرےب‘ نوجوان‘ امےر بڑوں کی خواہش تھی۔ عقےدت اےسی کہ بےان کرنا مشکل ہے۔ جوں ہی گاڑی آہستہ ہوتی رکتی اور لوگ دوڑتے اور اظہار محبت کرتے۔ سٹےشن پر لاو¿ڈ سپےکر‘ بےٹری والا رکھا جاتا جو بےٹری سے چلتا تھا۔ حبےب جالب مرحوم نوجوان تھے‘ جوش تھا‘ جذبہ تھا‘ تڑپ تھی‘ آمرےت کے خلاف نقطہ نظر کی جنگ تھی۔ انہوں نے جرا¿ت کے پھول ےوں پھےنکے ”ےہ ماں ہے اس کے قدموں کے نےچے جنت ہے .... ادھر آو¿“
محترمہ کا لاہور سے ٹرےن کا سفر رابطہ عوام کی مہم تھی اور اےوب خان کی حکومت کو بڑا چےلنج تھا۔ بڑا جوش تھا اس ڈکٹےٹر کا لوگوں پر جو اثر تھا وہ توڑ دےا گےا اور فوجی حکومت کو خطرات لاحق ہو گئے۔ جوں ہی ٹرےن جمہورےت کسی سٹےشن پر پہنچتی قائداعظم کی بہن کے فدائےوں کا جم غفےر محترمہ فاطمہ جناح کی اےک جھلک دےکھنے کیلئے ان کے ڈبہ پر ٹوٹ پڑتا۔ لوگوں کا جوش و خروش فوجی جنرل کی مخالفت کیلئے ان کا عزم و حوصلہ دےدنی تھا۔
الیکشن براہ راست ووٹ سے نہیں تھا بلکہ بنیادی جمہوریت کے 80 ہزار ووٹر تھے۔ ایوب خان کو 52 ہزار ووٹ ملے۔ جبکہ محترمہ فاطمہ کو 28 ہزار ووٹ ملے۔ ایوب خان وقتی طور پر کامیاب ہو گئے۔ اندر سے وہ ہار چکے تھے۔ محترمہ کے ساتھ متحدہ اپوزیشن پارٹیز تھیں۔ 7-8 اکتوبر 1958ءکا مارشل لاءجب آیا تو ملک پر فوج کا قبضہ ہو گیا۔ تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی۔ مرکزی و صوبائی تمام سول ادارے میونسپل کمیٹی ڈسٹرکٹ بورڈ سب پر فوجی عوامی نمائندوں کی جگہ مقرر ہو گئے اور 1956ءکا آئین منسوخ کر دیا گیا۔
بنیادی جمہوریت کا قانون ایوب خان نے 1962ءمیں لوگوں کے سامنے پیش کیا۔ اس کا بڑا پروپیگنڈہ کیا گیا۔ پورے ملک میں تقریباً ایک ہزار آبادی کیلئے ایک بی ڈی ممبر مقرر ہوا۔ یہی لوگ صوبائی اسمبلی کا انتخاب کرتے اور یہی ممبر صدر مملکت کا انتخاب کرتے تھے۔ یہ نظام اسلئے رائج کیا گیا تاکہ ایوب خان کا راستہ ہموار کیا جائے تاکہ وہ طویل عرصہ تک صدر رہیں۔ حاکم وقت نے پولیس کے ذریعے ووٹروں پر دبا¶ ڈال کر ووٹ حاصل کئے۔ افسر شاہی نے بی ڈی کا نظام دریافت کیا۔ الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔ 1962ءکے آئین میں سیاسی پارٹیوں سے پابندی اٹھا لی گئی اور خود وہ مسلم لیگ کے صدر بن گئے اور ان کے گرد کافی مسلم لیگی اکٹھے ہو گئے۔ ان کی مسلم لیگ کنونشن مسلم لیگ تھی۔ انہوں نے صدارت کیلئے انتخاب کرائے۔ 1965ءمیں صدارتی انتخابات ہوئے۔ صدر ایوب خان کے مقابلے میں متحدہ اپوزیشن سی او پی نے جس میں مسلم لیگ‘ جماعت اسلامی‘ نظام اسلامی پارٹی‘ عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی شامل تھیں۔ محترمہ فاطمہ جناح صدارتی امیدوار تھیں۔

ای پیپر دی نیشن