مولانا مجیب الرحمن انقلابی
خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کے فضائل و مناقب اور کردار و کارناموں سے تاریخ اسلام کے اوراق روشن ہیں جس سے قیامت تک آنے والے لوگ ہدایت و راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔حضرت سعد ابن ابی وقاصؓ سے روایت ہے کہ حضور نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ تم میری طرف سے اس مرتبہ پر ہو جس مرتبہ پر حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ کی طرف سے تھے مگر بات یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہو گا۔ (بخاری و مسلم)
آپ کا نام علی، لقب حیدر و مرتضٰیٰ، کنیت ابو الحسن اور ابو تراب آپ کا نسب حضور کے بہت قریب ہے، آپ کے والد ابو طالب اور حضور کے والد ماجد حضرت عبد اللہ دونوں حقیقی بھائی ہیں،۔آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد تھیں۔ ماں باپ دونوں طرف سے آپ ہاشمی ہیں۔ سیدنا حضرت علیؓ میں ہاشمی سرداروں کی تمام خصوصیات موجود تھیں۔ عبادت و ریاضت کے آثار بھی چہرے پر نمایاں تھے، بدن دوہرا، قدمیانہ، چہرہ روشن و منور، داڑھی گھنی اور حلقہ دار، ناک بلند، رخساروں پر گوشت، غلافی اور بڑی آنکھیں.... پیشانی کشادہ، کاندھے بھاری اور چوڑے، بازو اور کلائیاں گوشت سے بھری ہوئیں، سینہ چوڑا، چہرہ پر مسکراہٹ اور پیشانی پر سجدے کے نشان۔ معمولی لباس زیب بدن فرماتے، آپ کے عبا اور عمامہ بھی سادہ تھے، گفتگو علم و حکمت اور دانائی سے بھرپور ہوتی.... بچپن سے نہ صرف حضور کے ساتھ رہے بلکہ آپ ہی کی آغوشِ محبت میں پرورش پائی، آپ نے ان کے ساتھ بالکل فرزند کی طرح معاملہ کیا اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطا فرمایا۔ حضور کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی بیٹی خاتونِ جنت سیدہ حضرت فاطمة الزہراؓ کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا اور ان سے آپ کی اولاد ہوئی۔صحابہ کرامؓ میں جو لوگ اعلیٰ درجہ کے فصیح و بلیغ اور اعلیٰ درجہ کے خطیب اور شجاعت و بہاد ری میں سب سے فائق مانے جاتے تھے ان میں آپ کا مقام و مرتبہ بہت نمایاں تھا، خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ میدانِ جنگ میں تلوار کے دھنی اور مسجد میں زاہدِ شب بیدار تھے۔ مفتی و قاضی اور علم و عرفان کے سمندر تھے، عزم و حوصلہ میں ضرب المثل، خطابت و ذہانت میں بے مثل، حضور کے چچا زاد بھائی اور داماد، فضائل و فضیلتیں بے شمار، سخی و فیاض، دوسروں کا دکھ بٹانے والے، عابد و پرہیز گار، مجاہد و جانباز ایسے تھے کہ نہ دنیا کو ترک کیا نہ آخرت سے کنارہ کشی فرمائی، ان سب کے باوجود نہایت سادہ زندگی گزاری۔ نمک، کھجور، دودھ گوشت سے رغبت تھی، غلاموں کو آزاد کرتے، کھیتی کی دیکھ بھال کرتے، کنویں سے پانی نکالتے، اپنے دور خلافت میں بازاروں کا چکر لگا کر قیمتوں کی نگرانی فرماتے۔ گداگری سے لوگوں کو روکتے تھے، جب نماز کا وقت آتا تو آپ کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا اور چہرے پر زردی چھا جاتی۔ کسی نے اس کی وجہ پوچھی تو فرمایا کہ ”اس امانت کی ادائیگی کا وقت ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر اتارا تو وہ اس بوجھ کو اٹھانے سے عاجز ہو گئے“ آپ میں عجز و انکساری نمایاں تھی، اپنے عہدِ خلافت میں بازاروں میں تشریف لے جاتے وہاں جو لوگ راستہ بھولے ہوئے ہوتے انہیں راستہ بتاتے، بوجھ اٹھانے والوں کی مدد کرتے، تقویٰ اور خشیت الٰہی آپ میں بہت زیادہ تھی، ایک بار آپ ایک قبرستان میں بیٹھے تھے کہ کسی نے کہا کہ! اے ابو الحسن آپ یہاں کیوں بیٹھے ہوئے ہیں؟ فرمایا میں ان لوگوں کو بہت اچھا ہم نشین پاتا ہوں یہ کسی کی بدخوئی نہیں کرتے اور آخرت کی یاد دلاتے ہیں.... ایک مرتبہ آپ قبرستان میں تشریف لے گئے اور ہاں پہنچ کر قبر والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا!اے قبر والو! اے بوسیدگی والو! اے وحشت و تنہائی والو! کہو کیا خبر ہے کیا حال ہے، ہماری خبر تو یہ ہے کہ تمہارے جانے کے بعد مال تقسیم کر لیے گے اور اولادیں یتیم ہو گئیں بیویوں نے دوسرے شوہر کر لیے.... یہ تو ہماری خبر ہے، تم بھی اپنی خبر سناﺅ! اس وقت کمیل نامی شخص آپ کے ہمراہ تھے، وہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت علی نے فرمایا کہ! اے کمیل اگر ان (مردوں) کو بولنے کی اجازت ہوتی تو یہ جواب دیتے کہ بہترین سامانِ آخرت پرہیز گاری ہے، اس کے بعد حضرت علیؓ رونے لگے اور فرمایا اے کمیل قبر اعمال کا صندوق ہے اور موت کے وقت یہ بات معلوم ہوتی ہے، ایک مرتبہ جلیل القدر صحابی سیدنا حضرت امیر معاویہؓ کے اصرار پر ضرار اسدی نے خلیفہ چہارم سیدنا حضرت علی ؓ کے اوصاف و صفات بیان کرتے ہوئے کہا کہ! اللہ کی قسم حضرت علی المرتضٰیؓ بڑے طاقتور تھے، فیصلے کی بات کہتے تھے اور انصاف کے ساتھ حکم دیتے تھے، علم و حکمت ان کے اطراف سے بہتے، دنیا اور اس کی تازگی سے متوحش ہوتے تھے، رات کی تنہائیوں اور وحشتوں سے انس حاصل کرتے تھے، روتے بہت تھے اور فکر میں زیادہ رہتے تھے، لباس ان کو وہی پسند تھا جو کم قیمت ہو اور کھانا وہی مرغوب تھا جو ادنیٰ درجہ کا ہو، ہمارے درمیان بالکل مساویانہ زندگی بسر کرتے تھے اور جب ہم پوچھتے تو جواب دیتے تھے، باوجودیکہ ہم ان کے مقرب تھے مگر ان کی ھیبت کے سبب سے ان سے بات کرنے کی جرا¿ت نہیں ہوتی تھی وہ ہمیشہ اھلِ دین کی تعظیم کرتے تھے اور مساکین کواپنے پاس بٹھلاتے تھے کبھی کوئی طاقتور اپنی طاقت کی وجہ سے ان سے ناجائز فائدہ اٹھانے کی امید نہ کر سکتا تھا اور کوئی کمزور ان کے انصاف سے مایوس نہیں ہوتا تھا، خدا کی قسم میں نے بعض اوقات دیکھا کہ جب رات ختم ہونے کو ہوتی تو داڑھی پکڑ کر اس طرح بیقرار ہوتے تھے کہ جس طرح کو سانپ کے ڈسنے سے بے چین ہوتا ہے اور بہت دردناک آواز میں روتے تھے اور فرماتے! اے دنیا میرے سوا کسی اور کو فریب دے تو میرے سامنے کیوں آتی ہے مجھے شوق کیوں دلاتی ہے یہ بات بہت دور ہے میں نے تجھے تین طلاق بائینہ دی ہیں جن میں رجوع نہیں ہو سکتا، تیری عمر کم ہے اور تیری قدرومنزلت بہت حقیر ہے، آہ.... زادِ راہ کم ہے اور سفر لمبا ہے، راستہ وحشت ناک ہے.... یہ سن کر حضرت امیر معاویہ ؓ رونے لگے اور کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہو ابو الحسنؓ (علیؓ) پر اللہ کی قسم وہ ایسے ہی تھے۔
ایک موقع پر حضور نے فرمایا کہ! ”علیؓ سب سے اچھا فیصلہ کرنے والے ہیں“ سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ غزوہ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے، ہر معرکہ میں سیدنا حضرت علیؓ نے اپنی شجاعت و بہادری اور فداکاری کا لوہا منوایا بدر و احد، خندق و حنین اور خیبر میں اپنی جرا¿ت و بہادری کے خوب جوہر دکھائے....
ہجرت کی شب حضور کے بستر مبارک پر آرام فرما ہوئے، اور آپ نے آخری وقت میں حضور کی تیمارداری کے فرائض سرانجام دیئے اور دیگر صحابہ کرامؓ کے ہمراہ آپ کو ”غُسلِ نبوی“ کی سعادت بھی نصیب ہوئی.... آپ’عشرہ مبشرہ‘ جیسے خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں بھی شامل ہیں جن کو حضور نے دنیا میں ہی جنت کی بشارت و خوشخبری دی اور خلافتِ راشدہ کے اعلیٰ منصب پر فائز ہوئے، 9ھ میں جب حضور نے خلیفہ اول سیدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کو ”امیر حج“ بنا کر روانہ کیا اور ان کی روانگی کے بعد سورہ برا¿ت نازل ہوئی تو اس کی تبلیغ پر حضور نے سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ کو مامور کیا، آپ کو بچپن میں قبولِ اسلام کی سعادت نصیب ہوئی اور بچوں میں سے سب سے پہلے آپ ہی دولتِ ایمان سے منور ہوئے، آپ کو ”السابقون الاولون“ میں بھی خاص مقام اور درجہ حاصل ہے،
آپ ”بیعتِ رضوان“ میں شریک ہوئے اور ”اصحابُ الشجرہؓ“ کی جماعت میں شامل ہوئے جن کو اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں راضی ہونے اور جنت کی بشارت و خوشخبری دی، آپ”اصحابِ بدرؓ“ میں سے بھی ہیں جن کی تمام خطائیں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیں، مکی زندگی میں حضور کے ساتھ ہر قسم کے مصائب و مشکلات کو جھیلتے رہے.... حضور نے آپ کو اپنا ”مواخاتی بھائی“ بنایا اور چند سال بعد حضور نے ان کو اپنے ساتھ وہی نسبت دی جو حضرت موسیٰ ؑ کو حضرت ہارون ؑ سے تھی۔
حضور نے حضرت علی المرتضٰیؓ سے بغض رکھنے کو محرومی کا سبب قرار دیا۔ آپ بہت زیادہ عبادت گزار تھے، امام حاکم نے زبیر بن سعیدؓ سے روایت کی ہے کہ میں نے کسی ہاشمی کو نہیں دیکھا جو حضرت علیؓ سے زیادہ عبادت گزار ہو۔ اُمّ المو¿منین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضرت علیؓ بہت زیادہ روزہ دار اور عبادت گزار تھے۔ آپ بہت زیادہ سخاوت کرنے والے تھے کوئی سائل و حاجت مند آپ کے در سے خالی نہ جاتا تھا.... آپ قرآن مجید کے حافظ اور اس کی ایک ایک آیت کے معنیٰ اور شانِ نزول سے واقف تھے.... سیدنا حضرت علی المرتضٰیؓ ہی وہ خوش قسمت ترین انسان ہیں جن کو حضور نے جنگ خیبر کے موقع پر فتح کا جھنڈا عنایت فرمایا۔
حضرت سہیل بن سعدؓ سے روایت ہے کہ حضور نے جنگ خیبر کے دن فرمایا کہ کل یہ جھنڈا میں ایسے شخص کو دونگا جس کے ہاتھوں پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا، وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہو گا.... پھر جب صبح ہوئی تو لوگ حضور کے پاس گئے، سب لوگ اس بات کی امید (اور خواہش) رکھتے تھے کہ جھنڈا ان کو دیا جائے.... مگر آپ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالبؓ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا کہ ان کی آنکھیں آشوب کی ہوئی ہیں، آپ نے فرمایا کہ ان کو بلواﺅ.... وہ حضرت حضرت علیؓکو بلا لائے ، حضور نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ اچھے ہو گئے گویا کہ ان کی آنکھوں میں کوئی تکلیف تھی ہی نہیں، پھر آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا (صحیح بخاری و مسلم)
حضرت زر بن جیشؓ سے روایت ہے حضرت علیؓ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس نے دانہ کو پھاڑ کر درخت نکالا اور جان کو پیدا کیا کہ نبی کریم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھ سے وہی محبت کرے گا جو مو¿من ہو گا اور مجھے سے وہی بغض رکھے گا جو منافق ہو گا (صحیح مسلم) خلیفہ سوم سیدنا حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ نے تین ماہ کم پانچ سال تک تختِ خلافت پر متمکن رہنے کے بعد عبد الرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں زخمی ہونے کے بعد 21رمضان المبارک کو ان زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہادت پائی ،اور 22لاکھ مربع میل کے وسیع و عریض خطے پر نظام خلافت کو جاری کرنے کے بعد کوفہ کے نز دیک مقام نجف میں دفن ہوئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ