بائیکاٹ اور جنّوں کا بسیرا

ملک کے 12ویں صدر مملکت کے انتخاب کا مرحلہ مکمل ہوا ہے تو اس کے ساتھ ہی جمہوری عمل کے تسلسل سے سلطانی¿ جمہور کی پائیداری کی توقعات بھی مستحکم ہو گئی ہیں۔ ایوانِ صدر میں اپنے پانچ سالہ قیام کی مدت پوری کرنے والے صدر مملکت آصف علی زرداری بھی نئے صدر کے انتخاب کے لئے پولنگ سے ایک روز قبل دبئی سے کراچی پہنچ گئے تاہم ان کی واپسی کسی گھن گرج کے بجائے چپ چپیتے ہوئی اور میڈیا میں اُن کی واپسی کی ایک غیر نمایاں سنگل خبر کی صورت میں ان کا استقبال ممکن ہو پایا۔ شاید یہی مکافات عمل ہے مگر اسے سمجھنے کے متقاضی لوگ نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں نہ عبرت حاصل کرنے کی۔
پانچ سالہ کروفر کے بعد اب زرداری صاحب کو بھی اسی طرح اپنے سابقہ معاملات پر ریاستی قوانین، عدالتی عملداری اور حکومتی اتھارٹی کو بھگتنا پڑے گا جس طرح پھنکارتے جرنیلی آمر مشرف آج ریاستی قوانین و اتھارٹی کے آگے بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ زرداری صاحب ایسے سابقہ واقعات و معاملات سے کوئی سبق حاصل کر چکے ہوں گے تو پیپلز پارٹی کے نظریاتی جیالوں کو خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ انہیں اب اپنی شہید محترمہ کے اس سیاسی جانشین کا چہرہ ملک کے اندر دیکھنے کو کم ہی ملے گا۔ اگر توقیر صادق کی طرح کسی مکافات عمل میں ان کی پابہ زنجیر واپسی ممکن ہو گئی تو یہ الگ بات ہے۔ سو جمہوریت کے تسلسل والے اگلے پانچ سال کے عرصے کے دوران زرداری صاحب کے معاملے میں ”لُکّا چھُپی“ اور چھینا جھپٹی کے مناظر دلپذیر دیکھنے کو ملتے رہیں گے۔ مگر دیکھنا یہ ہے کہ ”اک زرداری سب پر بھاری“ سیاست کا اب کیا بنے گا۔ مجھے وہ منظر بخوبی یاد ہے جب سابق دور حکومت میں جرنیلی آمر مشرف کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے زرداری صاحب لاہور آئے اور گورنر ہاﺅس میں قیام پذیر ہوئے۔ اگلے روز ان کی سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ ملاقات کا اہتمام تھا۔ بات متوقع نئے صدر کی چلی تو زرداری صاحب نے آنکھوں کی بھویں نچاتے اور سنسنی خیز انداز میں تمسخرانہ قہقہہ لگاتے ہوئے فقرہ چست کیا کہ اب جیالا صدر آئے گا اور اگلی بار گورنر ہاﺅس میں آپ کی ملاقات اسی جیالے صدر سے ہو گی۔ میرے سمیت کئی اخبار نویسوں کے قیافے جہانگیر بدر کے نام تک جا پہنچے جنہیں شہید محترمہ نے ان کے جیالا ہونے کے ناطے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے منصب پر فائز کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ کسی کے ذہن رسا میں یہ خیال تک پیدا نہ ہوا کہ جناب زرداری خود جیالے بن کر ایوان صدر میں براجمان ہونے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں۔ شاید پیپلز پارٹی کے اہم لیڈران کو بھی اس اچھوتی منصوبہ بندی کا علم نہیں ہونے دیا گیا ہو گا۔ جب صدارتی انتخاب کے مرحلے پر اچانک زرداری صاحب کا نام سامنے آیا تو اس مرحلے میں ”اک زرداری سب پر بھاری“ سیاست کا بھی آغاز ہو گیا۔ اس سیاست نے سابقہ پانچ سالہ دور میں کیسے کیسے جلوے دکھائے ہیں۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کے المناک نہیں تو دلچسپ موضوعات میں ضرور شامل رہے گا۔ زرداری صاحب صدر مملکت کے منصب پر منتخب آئین کے تابع ہوئے مگر انہوں نے 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے اختیاراتی پَر کٹوانے کے باوجود سارے اختیارات جرنیلی آمر مشرف والے استعمال کئے اور پھر وفاق کی علامت ہونے کے آئینی تقاضے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پورے دھڑلے کے ساتھ پیپلز پارٹی کی قیادت بھی کرتے رہے اور ایوان صدر میں اپنی پارٹی کی سیاسی میٹنگیں طلب کر کے جیالا صدر ہونے کا عملی ثبوت بھی فراہم کرتے رہے۔ یہی ”اک زرداری، سب پر بھاری“ سیاست تھی۔ مگر اب اس سیاست کا کیا بنے گا کہ اب تو ایوان اقتدار کی کسی راہداری میں اس سیاست کے پنپنے، فروغ پانے کا کوئی امکان بھی نظر نہیں آ رہا۔ اس سیاست کے حوالے سے خیالات بھی گڈمڈ ہو رہے ہیں۔ ”کیا صدارتی انتخاب کا بائیکاٹ بھی اک زرداری سب پر بھاری سیاست کی کرشمہ سازی ہے۔ اگر اس سیاست کا پیپلز پارٹی کی شہید محترمہ کی سیاست سے موازنہ کیا جائے تو یہ سیاست نہیں، حماقت نظر آتی ہے۔ کیونکہ بے نظیر بھٹو صاحبہ نے تو ایم آر ڈی کی جانب سے جنرل ضیاءکے 1985ءوالے غیر جماعتی انتخابات کے بائیکاٹ سے ایسا سبق حاصل کیا تھا کہ وہ انتخابات کے بائیکاٹ کے لفظ سے ہی بدکتی تھیں چاہے یہ انتخابات جس بھی سطح کے ہوں۔
ایم آر ڈی نے جس وقت انتخابات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اس وقت مسلم لیگ (خیرالدین گروپ) کے صدر خواجہ خیرالدین ایم آر ڈی کے کنوینئر تھے اور انہی کے دباﺅ اور اصرار پر ایم آر ڈی کے طلب کردہ سربراہی اجلاس میں ایم آر ڈی کی جماعتیں بشمول پیپلز پارٹی انتخابات کے بائیکاٹ پر متفق ہوئی تھیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو تو اس وقت لندن میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہی تھیں اس لئے پیپلز پارٹی کی کمان غلام مصطفٰی جتوئی کے ہاتھ میں تھی۔ چنانچہ خواجہ خیرالدین اور غلام مصطفٰی جتوئی کے مابین ہی انتخابات کے بائیکاٹ کی گٹ مٹ ہوئی جس کا یکایک اعلان کر کے ایم آر ڈی نے انتخابی سیاسی میدان سے کنارہ کشی کر لی۔ اس وقت بھی یہ اطلاعات زیر گردش تھیں کہ خواجہ خیرالدین کے ایجنسیوں کے ساتھ گہرے روابط ہیں جنہوں نے جنرل ضیاءالحق کے لئے سیاسی میدان صاف کرنے کے لئے خواجہ خیرالدین کو انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ پر لگایا۔ جب محترمہ بینظیر بھٹو کو ایم آر ڈی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ کی اطلاع ملی تو ان کے پاس موجود لوگوں کے مطابق وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگیں اور پھر برافروختہ ہوتے ہوئے اس فیصلے پر ان الفاظ میں اپنا ردعمل ظاہر کیا کہ ایم آر ڈی نے اپنی سیاسی موت کے پروانے پر دستخط کئے ہیں۔ محترمہ بینظیر بھٹو کو اپنے سیاسی ویژن کی روشنی میں بائیکاٹ کے فیصلے کے جو ممکنہ مضر اثرات نظر آرہے تھے، ہماری قومی سیاست میں بعینہ سارے منفی نتائج سامنے آئے، انتخابات کے بائیکاٹ سے قومی سیاسی قیادتیں انتخابی عمل سے آﺅٹ ہوئیں تو ان کا پیدا کیا گیا سیاسی خلا سیاسی بالشتیوں نے پورا کیا جنہیں جنرل ضیاءنے اپنے آمرانہ شخصی اقتدار کی طوالت و استحکام کے لئے مہرہ بنا کر خوب استعمال کیا جبکہ بائیکاٹ کے پیدا کردہ خلا کے نتیجہ میں یہی بالشتئے قومی سیاسی قائدین کی شکل میں جلوہ گر ہونا شروع ہو گئے۔ چنانچہ سیاستدانوں نے بائیکاٹ کے فیصلہ کو اپنے راندہ¿ درگاہ ہونے کی صورت میں خوب بھگتا۔ اگر ایم آر ڈی 1985ءکے انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرتی تو آج کے سیاسی منظر نامے پر جلوہ گر اکثر چہرے کہیں موجود نہ ہوتے۔ چنانچہ محترمہ بینظیر بھٹو نے اسی حوالے سے انتخابات کے بائیکاٹ کے فیصلہ پر تاسف کا اظہار کیا تھا جبکہ دسمبر 2007ءکے انتخابات سے قبل محترمہ بینظیر بھٹو کے سانحہ قتل کے بعد میاں نواز شریف نے ان کے میثاق جمہوریت والے اتحادی ہونے کے ناطے جذباتی انداز میں انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تو محترمہ کی سوچ کے تابع آصف علی زرداری صاحب نے میاں نواز شریف کو بائیکاٹ کا فیصلہ واپس لینے پر قائل کیا حالانکہ میاں نواز شریف جماعت اسلامی اور تحریک انصاف سمیت اے پی ڈی ایم کی تمام رکن جماعتوں کو انتخابات کے بائیکاٹ کی راہ پر لگا چکے تھے جنہوں نے بائیکاٹ کے فیصلے پر عملدرآمد کا پچھتاوا ابھی تک پلے باندھا ہوا ہے۔
ذرا حالات کی ستم ظریفی دیکھئے کہ میاں نواز شریف کو بائیکاٹ کے فیصلہ سے رجوع کرانے والے جناب زرداری آج خود اس راستے پر چل چکے ہیں اور عمران خاں نے بائیکاٹ کے لئے زرداری صاحب کے فیصلے سے متفق ہونے کے باوجود صدارتی انتخاب کا میدان خالی نہیں چھوڑا۔ پیپلز پارٹی بائیکاٹ نہ کرتی تو بھی صدارتی انتخاب کا یہی نتیجہ سامنے آنا تھا جو آج پوری قوم کے سامنے ہے مگر اس سے ”اک زرداری سب پر بھاری“ سیاست تو رسوا ہونے سے بچ جاتی۔ اب تو نظریاتی میراث والی پیپلز پارٹی کو اس کے ناراض کئے گئے نظریاتی جیالے ہی بچا سکتے ہیں ورنہ سیاسی خلا میں جِنّوں کا ہی بسیرا ہوا کرتا۔

ای پیپر دی نیشن