لاہور (فرخ سعید خواجہ) مسلم لیگ (ن) کے صدارتی امیدوار ممنون حسین نے 432 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے سیاسی مبصرین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ پیپلز پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ (ق)، بلوچستان نیشنل پارٹی عوامی کا یہ موقف درست نہیں ہو سکتا کہ صدارتی امیدواروں کو انتخابی مہم چلانے کیلئے مناسب وقت نہیں ملا اور انکے موقف پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ سینٹ، قومی اسمبلی، بلوچستان اسمبلی، خیبر پی کے اور بلوچستان کے کل 706 الیکٹورل ووٹ تھے۔ اس طرح کامیاب ہونے کیلئے صدارتی امیدوار کو 354 ووٹ درکار تھے لیکن مسلم لیگ ن کے صدارتی امیدوار ممنون حسین نے 432 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔ مسلم لیگ (ن) اور ممنون حسین نے کامیاب انتخابی مہم چلا کر نہ صرف اپنے اتحادیوں مسلم لیگ فنکشنل، پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی کے ووٹ حاصل کئے بلکہ متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علماءاسلام (ف)، مسلم لیگ ضیاءالحق، مجلس وحدت المسلمین اور آزاد ارکان کی بھی حمایت حاصل کر لی۔ ممنون حسین کے مدمقابل پاکستان تحریک انصاف کے صدارتی امیدوار جسٹس ر وجیہہ الدین کو ملنے والے 77 الیکٹورل ووٹ بھی سیاسی مبصرین کے اندازوں سے زیادہ ہیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ جسٹس (ر) وجیہہ الدین احمد 74 ووٹ حاصل کر پائیں گے۔ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین صدارتی انتخاب کے بائیکاٹ کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے متفقہ امیدوار لا کر مسلم لیگ (ن) کے امیدوار کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کرتی تو ون ٹو ون مقابلے میں خاصا زوردار مقابلہ ہو سکتا تھا تاہم عدلیہ کو ٹارگٹ کرنے کی خواہش نے ان کو صدارتی الیکشن کے بائیکاٹ کی راہ پر لگا دیا۔
ممنون کے 432 ووٹ، بائیکاٹ کرنے والوں کے موقف پر سوالیہ نشان لگ گیا
Jul 31, 2013