مجید نظامی کا فیلڈ مارشل ایوب خان سے بھی اختلاف تھا، کہ فوج کا اولین فرض دفاع ہے ۔ حکومت جمہوری ہو۔ انتخابات ہوں۔ منتخب نمائندے ناکام ہوں تو عوام کی بھینٹ چڑھیں۔ انتخابات سے جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں۔ آئے دن حکومت کی تبدیلی اور اس کے ساتھ سیاسی، معاشی اور سماجی تبدیلیاں ملکی استحکام کو کمزور کرتی ہیں۔ کشمیر کا مسئلہ ان کے ہاں عظیم رہتا ہے۔ جس کا حل پاکستان کے دیگر کئی مسائل کا حل ہے۔
میں ایک دفعہ میاں محمد شریف صاحب سے ملنے جارہا تھا تو مجید نظامی نے کہا کہ بڑے میاں صاحب آج ہی مجھے مل کر گئے ہیں۔ آپ کو بتاتا ہوں کہ میں نے ان کو کہا کہ جب تک آپ کا بیٹا یعنی میاں نواز شریف اس ملک کا وزیرِاعظم ہے آپ کوئی نیا کام کاج شروع نہ کریں۔ تمہیں موقع ملے تو تم بھی یہی کہنا۔ میاں صاحب کو میرے اور مجید کے تعلقات کی خبر تھی۔ بعدازاں میں نے اسی قسم کے موضوع پر ایک مضمون بعنوان ’’ جناب وزیرِاعظم ، ایک نظر ادھر بھی!‘‘ تحریر کیا، جو نوائے وقت میں چھپا۔ اس مضمون میں ملکی معیشت پر ایک تبصرہ تھا اس مضمون میں ملکی سلامتی، معاشی بحالی اور سماجی استحکام پر انحصار تھا۔ ڈھکے چھپے انداز میں مجید کا پیغام بھی تھا کہ میاں محمد شریف نے اس کی ایک کاپی میاں محمد نواز شریف اور ایک کاپی میاں محمد شہباز شریف کو بھی روانہ کی۔ مجید نظامی اچھے دوست تھے۔ دوستوں کو صحیح بات کہنے میں انہیں عار نہیںہوتی۔ میں بھی ان کے اس خلوص کا شکار رہتا تھا۔
ادارہ نوائے وقت سے وابستگی کی بنا پر میں کبھی کبھار ادارہ نوائے وقت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا ہوں۔ ایک دفعہ ان کے ایک اخبار میں ایک دو مضامین کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مشورہ دیا کہ آپ کے اخبارات میں صرف وہی مضامین چھپیں جو معاوضے کے قابل ہوں ۔ انہیں دنوں ’ نیشن‘ میں میرا بھی ایک مضمون چھپا تھا ۔ تو مجھے معاوضے کا چیک آگیا۔
میں نے احتجاج کیا کہ مجھے معاوضہ کیوں؟ حالانکہ میں اصولاً معاوضے کے بغیر مضامین نویسی نہیں کرتا۔ اخبارات کو بھی کہتا ہوں کہ مضمون نگاروں کو معاوضہ دیا کریں۔ اس سے مضامین نگاری کا پیمانہ بہتر ہوگا۔ جو اخبار والوں، اخبار نویسوں اور قارئین سب کے لئے بہتر ہوگا۔ لیکن ادارہ نوائے وقت سے پرانی یادوں کے ناطے معاوضہ نہیں لیتا۔ مجھے جواب ملا کہ چیک پر دستخط مجید نظامی نے کئے ہیں۔ میں نے یہ کہہ کر کہ ’ حساب دوستاں دردل‘ چیک واپس کر دیا۔
مجید نظامی کا کارنامہ ہے کہ انہوں نے ادارہ نوائے وقت کو قومی ٹرسٹ بنا دیا ۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ ایک پندرھواڑہ میگزین ڈیلی بنا۔ اب اس میں دو قومی اخبار ’نوائے وقت اور نیشن کے علاوہ دیگر متعدد دمیگزین فیملی، پھول اور ندائے ملت شامل ہیں۔ انہوں نے ٹی وی نیوز چینل وقت بھی شروع کیا جو ان کی بیٹی رمیزہ نظامی چلا رہی ہیں۔ وہ لندن یونیورسٹی سے سیاسیات کی گریجویٹ اور سی پی این ایس میں ایک گروپ کی نمائندگی کرتی ہیں ۔ کچھ عرصہ سے جب وہ علیل ہوئے تو جب بھی ان سے ملاقات ہوتی وہ اس ادارے کو قائم و دائم بنانے کا ذکر کرتے۔ میں نے بھی انہیں اس سلسلے میں لبیک کہا۔ اس سلسلے میں میں نے کچھ مواد بھی پیش کیا یعنی واشنگٹن پوسٹ کے ٹرسٹ ڈیڈ کے بارے میں چند متعلقہ معلومات وغیرہ۔ وہ اس سلسلے میں کامیابی کے ساتھ سرخرو ہو گئے ہیں۔ یہ عظیم ڈیلی قومی سطح پر ایک عظیم ادارہ بن چکا ہے۔ جس کی اشاعت چار جگہوں سے ہوتی ہے اور ایک ٹرسٹ کی صورت میں جو قائم و دائم رہے گا اور جس کی مثال اس بر صغیر میں نہیں ملتی۔ متعدد اداریے اور مضامین کے علاوہ وہ ملک و قوم کے لئے یہ دو کتابیں:
اسلام نظریہ پاکستان اور جمہوریت کے لئے کوشاں رہوں گا
جب تک میں زندہ ہوں مجید نظامی کی کہانی ان کی زبانی!
اور
تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن آبروئے صحافت
سالارِ کاروانِ نظریہ پاکستان
مجید نظامی اعترافِ خدمت
تحفہ چھوڑ گئے ہیں!
شاہین کا جہاں اور
…………………(ختم شد)