افغانستان کی سیکورٹی سروس کے ترجمان نے کہا ہے کہ افغان طالبان کے امیر ملا محمدعمر دو برس قبل پاکستان میں انتقال کر گئے تھے۔ افغان صدر اشرف غنی کی جانب سے جاری ہونیوالے بیان میں بھی کہا گیا ہے کہ ملاعمر کی موت کی اطلاعات مستند ہیں۔ ماضی میں بھی ملاعمر کے انتقال کی متعدد بار خبریں آچکی ہیں تاہم پہلی بار انکے ہلاک ہونے کی خبروں کو زیادہ سنجیدگی سے لیا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں افغانستان کی سکیورٹی سروس کے ترجمان عبدالحسیب صدیقی نے بی بی سی افغان سروس کو بتایا کہ ملاعمر دو سال قبل پاکستان کے ایک ہسپتال میں علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے جبکہ افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ مستند اطلاعات کے مطابق ملاعمر کی موت اپریل 2013ء میں ہو چکی ہے اور افغان حکومت سمجھتی ہے کہ طالبان کے سربراہ کی موت کے بعد افغانستان میں قیام امن کیلئے جاری بات چیت کیلئے فضا مزید ہموار ہو گئی ہے۔ چنانچہ حکومت مخالف تمام مسلح گروہوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور امن عمل کا حصہ بنیں۔ صدارتی ترجمان کے بقول اب امن مذاکرات پہلے سے زیادہ مضبوط ہونگے۔ ملاعمر کے انتقال کی اطلاعات اس لئے بھی قابل یقین قرار دی جا رہی ہیں کہ امریکی وائٹ ہائوس نے بھی ان اطلاعات کو مستند قرار دیا ہے جبکہ عرب میڈیا کے مطابق بھی افغان حکام نے ملاعمر کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور افغان نائب صدر اس سلسلہ میں جلد ایک پریس کانفرنس میں ملاعمر کی ہلاکت کے حوالے سے حقائق سامنے لائیں گے۔ اسی تناظر میں پاکستان نے محتاط طرزعمل اختیار کیا ہے اور دفتر خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم ملاعمر کے انتقال کی خبروں کا جائزہ لے رہے ہیں جن کی افغان حکومت کی جانب سے باضابطہ تصدیق کے بعد ہی ردعمل دیا جائیگا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کے بقول ہمیں ملاعمر کی ہلاکت کے حوالے سے افغان حکام کے بیان کا انتظار ہے۔ اگرچہ افغان طالبان نے اپنے امیرالمومنین ملاعمر کے انتقال کی خبروں کی تردید کی ہے تاہم پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ملاعمر کے زندہ ہونے کی تصدیق کیلئے طالبان کی جانب سے ان کا کوئی ویڈیو پیغام جاری نہیں کیا گیا۔ ایک فارسی ویب سائٹ نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ طالبان میں بغاوت کے بعد ملاعمر کو مخالف دھڑے کے رہنمائوں ملااختر‘ محمد منصور اور گل آغا نے قتل کرایا ہے۔
ملاعمر اپنی زندگی میں جہاں ایک متنازعہ شخصیت بنے رہے ہیں‘ وہ طلسماتی شخصیت کے بھی حامل رہے جن کے سحر میں مبتلا افغان باشندوں نے گلبدین حکمت یار کے مقابل طالبان قائد کی حیثیت سے انکے اقتدار کی راہ ہموار کی اور اقتدار سے انکی معزولی کے بعد انہیں اپنے امیرالمومنین کی حیثیت سے بھی تسلیم کئے رکھا جبکہ امریکہ نے انہیں دہشت گرد قرار دیکر انکے سر کی قیمت ایک کروڑ ڈالر مقرر کردی تھی۔ 1959ء میں قندھار کے ایک پشتون گھرانے میں پیدا ہونیوالے ملاعمر نے دینی مدرسوں میں واجبی تعلیم پائی اور دیوبند مکتبہ فکر سے اپنا ناطہ جوڑا‘ پہلے وہ روسی فوجوں کیخلاف افغان مجاہدین کی سردجنگ کے دوران گوریلا کارروائیاں کرتے رہے اور ایک معرکے میں زخمی بھی ہوئے جس میں انکی ایک آنکھ بھی ضائع ہو گئی۔ 1989ء میں سوویت افواج کی افغانستان سے واپسی کے بعد ملاعمر اپنے گائوں آگئے اور 1994ء تک ایک دینی مدرسے میں تعلیم و تربیت اور امامت کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ اس دوران افغانستان خانہ جنگی کا شکار رہا‘ اسی دوران ملاعمر نے اپنے طالب علموں کو جمع کیا جو بعدازاں طالبان کہلائے۔ ابتداء میں ان طالبان کی سرگرمیاں اپنے علاقے میں امن کے قیام اور جرائم کے خاتمہ تک محدود رہیں پھر رفتہ رفتہ انکی اہمیت بڑھتی گئی اور انکی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ چنانچہ 1996ء میں ملاعمر کی قیادت میں طالبان نے کابل پر قبضہ کرلیا اور افغانستان کو اسلامی امارات قرار دے کر ملاعمر کو امیرالمومنین کے خطاب سے نوازا۔ جلد ہی طالبان نے افغانستان کے 90 فیصد حصے پر قبضہ کرلیا اور اس طرح افغانستان میں طالبان حکومت تشکیل پا گئی جسے پاکستان نے تسلیم بھی کرلیا۔ امریکی نائن الیون کے بعد امریکہ اور اسکے اتحادی نیٹو ممالک نے افغانستان پر دھاوا بول دیا جس کے نتیجہ میں ملاعمر کی حکومت ختم ہو گئی اور طالبان نیٹو افواج کیخلاف جدوجہد میں مصروف ہو گئے۔ اپنی حکومت ختم ہونے کے بعد ملاعمر کبھی منظر عام پر نہیں آئے البتہ انکی مہم جوئی کی داستانیں ضرور زیر گردش رہیں جبکہ ان سے منسوب بیانات اور ویڈیو پیغامات بھی سامنے آتے رہے۔ ان کا آخری پیغام عیدالفطر کے موقع پر سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی حمایت کی تھی تاہم اب انکے انتقال کی خبریں سامنے آنے پر بھی انکی پراسرار شخصیت مکمل طور پر اجاگر نہیں ہو سکی۔ پانچ فٹ گیارہ انچ لمبے ملاعمر کبھی کبھی چشمہ لگاتے تھے اور تفریح کیلئے اپنے دوست اسامہ بن لادن کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے جایا کرتے تھے۔ انکے قریبی ذرائع کے مطابق انکی دو بیویاں اور آٹھ یا 9 بچے ہیں۔ 1999ء میں انکے گھر پر بم حملہ ہوا جس میں ان کا گھر تباہ ہو گیا اور انکے دو بھائی اور پہلی بیوی سے تین بچے ہلاک ہو گئے۔
اگرچہ مغربی میڈیا اسامہ بن لادن اور ملاعمر میں زیادہ تفریق نہیں کرتا تاہم یہ بات اہم ہے کہ اسامہ بن لادن ذاتی طور پر مغربی ممالک کیخلاف لڑ رہے تھے جبکہ ملاعمر نے عالمی سیاست میں دلچسپی نہیں دکھائی۔ انہوں نے اپنا پہلا غیرملکی انٹرویو بی بی سی کی پشتو سروس کو 25 فروری 1998ء کو دیا تھا۔ افغانستان کی سیاست میں 1979ء کا سال کافی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس سال ایک جانب افغانستان کے پڑوسی ملک ایران میں خمینی انقلاب آیا اور مغربی ذرائع ابلاغ پر پہلی دفعہ ’’فنڈامینٹلزم‘‘ یعنی قدامت پرستی کا ڈھنڈورا ہوا جبکہ اسی سال افغانستان میں روسی افواج داخل ہوئیں جس سے امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں محمدعمر نام کا 19‘ 20 برس کا ایک نوجوان بھی شریک ہوا جو بعدازاں ملاعمر کے نام سے افغان طالبان کا قائد ٹھہرا اور انکی قیادت میں طالبان حکومت کو اس لئے بھی پذیرائی ملی کہ اس نے افغانستان میں امن قائم کیا اور منشیات کا خاتمہ کیا۔ یہ وہ کام ہیں جو ملاعمر کے سوا افغانستان میں کوئی اور نہ کر سکا۔ انکی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت کم لوگوں کو پتہ ہے۔ افغانستان پر گزشتہ 22 برسوں میں سے پانچ برس تک طالبان کا قبضہ رہا۔ تقریباً سات برس لاقانونیت کی نذر ہوئے جبکہ دس برس تک وہاں نیٹو افواج قابض رہیں۔
ملاعمر کے انتقال کے حوالے سے اگرچہ ابھی تک یقین اور غیریقینی کی فضا برقرار ہے تاہم برطانوی ذرائع ابلاغ کے مطابق افغان طالبان کی شوریٰ نے ملاعمر کی جگہ نیا امیر مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جس پر ایک طرح سے طالبان کی جانب سے بھی ملاعمر کی ہلاکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ یقیناً ایسی مصدقہ اطلاعات کی بنیاد پر ہی وائٹ ہائوس کی جانب سے بھی ملا عمر کی ہلاکت کی خبروں کو مستند قرار دیا گیا ہے۔ تاہم ملاعمر کے دو سال قبل انتقال کے حوالے سے افغان حکومت کی فراہم کردہ اطلاعات درست ہیں تو یہ سوال اٹھنا فطری امر ہو گا کہ ملاعمر کے انتقال کی خبر کو کس حکمت کے تحت دو سال تک چھپائے رکھا گیا۔ اس سے قبل القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے انتقال کی بھی متعدد بار خبریں اور افواہیں زیر گردش آئیں جسکے بارے میں یہ تاثر تھا کہ امریکی سی آئی اے کی جانب سے ایسی خبریں اسامہ بن لادن کو متحرک کرنے کیلئے خود چھوڑی جاتی تھیں تاکہ انکے متحرک ہونے پر انکے ٹھکانے کا علم ہو سکے۔ اسی تناظر میں جب اسامہ بن لادن کیخلاف ایبٹ آباد اپریشن ہوا تو اسکے بعد بھی یہ تاثر قائم رہا کہ اسامہ بن لادن اس اپریشن سے پہلے ہی ہلاک ہو چکے تھے مگر طالبان اور القاعدہ پر مکمل غلبہ پانے کی حکمت عملی کے تحت انکی ہلاکت کو چھپائے رکھا گیا۔ ملاعمر کے انتقال کی گاہے بگاہے سامنے آنیوالی خبروں میں بھی یہی حکمت عملی کارفرما رہی ہے تاہم اب انکے انتقال کی اطلاعات نے اس لئے زیادہ اہمیت حاصل کی ہے کہ اس وقت انکے نام پر افغان حکومت اور طالبان کے مابین مذاکرات جاری ہیں جس کیلئے پاکستان نے معاونت کی ہے اور افغان حکومت اور طالبان کے مابین رابطے کے پل کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی تناظر میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ طالبان کے علاوہ پاکستان اور افغان حکومت کو بھی ملاعمر کی ہلاکت کی مکمل معلومات حاصل ہیں اور طالبان اسی بنیاد پر افغان حکومت کیساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور ہوئے ہیں کہ وہ اپنی تنظیم کے اندر بھی تضادات‘ اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر تنظیمی طور پر کمزور ہوئے ہیں جبکہ ملاعمر کے انتقال کے باعث بھی طالبان کے پاس مضبوط قیادت نہیں رہی اس لئے جہاں طالبان نے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر اپنے لئے کابل حکومت میں اپنے عمل دخل کی کوئی راہ نکالنے کی حکمت عملی طے کی ہے‘ وہیں طالبان کی صفوں میں در آنیوالی کمزوری کے باعث افغانستان میں تعینات امریکی افواج اور خود افغان حکومت کو بھی قیام امن کی بحالی میں آسانیاں نظر آرہی ہیں۔ ملاعمر کے انتقال کرجانے یا زندہ ہونے کے بارے میں یقیناً آئندہ ایک دو روز تک اصل صورتحال واضح ہو جائیگی تاہم افغان جنگ میں ملاعمر کے سحر انگیز کردار کے باوصف اس وقت افغانستان میں امن کی بحالی کا کوئی امکان نظر آرہا ہے جو بے شک ملاعمر کی موت کے ساتھ منسوب ہے تو قیام امن کے اس موقع کو اب کسی صورت ضائع نہیں جانے دینا چاہیے۔ افغان حکومت خود بھی اس حوالے سے پرامید ہے اور مسلح گروپوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش بھی کررہی ہے جس میں پاکستان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اس لئے ملاعمر کے حوالے سے جو بھی حقیقت ہے‘ وہ مستند حوالے سے منظرعام پر لا کر اب قیام امن کے سفر کا آغاز کر دیا جائے تاکہ اس خطہ کو دہشت گردی سے مستقل نجات دلا کر علاقائی اور عالمی امن کی ضمانت بنایا جا سکے۔ آج ملاعمر کا باب بند ہورہا ہے تو اب افغانستان میں امن و آشتی کا باب ضرور کھل جانا چاہیے۔ ہمیں بھی اسی صورت دہشت گردی کے ناسور سے مستقل نجات مل سکتی ہے۔
افغان حکومت اور وائٹ ہائوس کا ملاعمر کی ہلاکت پر یقین اور طالبان شوریٰ کا نیا امیر منتخب کرنے کا اعلان----- اب علاقائی امن کی خاطر مذاکرات کا عمل ماند نہیں پڑنے دینا چاہیے
Jul 31, 2015