پرندوں اور جانوروں کو زمین کا حسن قرار دیا جاتا ہے۔ جس جگہ پر یہ موجود ہوتے ہیں وہاں زندگی کے آثار نمایاں نظر آتے ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی جانوروں اور پرندوں کے شکار پر پابندی عائد ہے تاہم اس کے باوجود بھی لوگ جانوروں کا شکار کرنے سے نہیں ڈرتے ہیں۔ اپنی چھوٹی سی خواہش کی تکمیل کے لیے قیمتی جانوروں اور پرندوں کے بے دردی سے مار دیتے ہیں۔ پاکستان میں ایسا کیوں ہوتا ہے اس کی ایک وجہ قانون کی کمزوری ہے۔ دنیا بھر میں وائلڈ لائف کو محفوظ رکھنے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور اس سلسلہ میں لوگوں میں آگاہی بھی فراہم کی جاتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کوئی ضابطہ اخلاق نہیں ہے جس کے تحت لوگوں کو اس بات پر قائل کیا جا سکے کہ جانور اور پرندوں کے ناپید ہونے سے قدرتی حسن ختم ہو جائے گا۔ حکومت پاکستان نے بھی صوبائی سطح پر جنگلی حیات کو محفوظ رکھنے اور ان کی افزائش کے لیے محکمے بنا رکھے ہیں۔ جن کی اولین ذمہ داری جنگلی حیات کا تحفظ ہے۔ دوسرے نمبر پر ان کی ذمہ داری ہے کہ ہر علاقے کے مطابق جانور اور پرندے ہوتے ہیں ان کی نسل کو محفوظ کیا جائے۔ تسیرے نمبر پر اس محکمہ کی ذمہ داری ہے کہ وائلڈ لائف کی جو اقسام ہیں ان کی ضروریات کو مد نظر رکھ کر پورا کیا جائے۔ چوتھا یہ ایسا نظام قائم کیا جائے جو ان تمام کاموں کو ایک سسٹم کے تحت مکمل کیا جا سکے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے قانون کے تحت جانوروں کی 200 سے زائد اقسام ایسی ہیں جن کا شکار ممنوع ہے۔ اسی طرح پرندوں کی دو سے تین سو اقسام ایسی ہیں جن کے شکار پر پابندی عائد ہے جبکہ رینگنے والے جانوروں کی 20 سے 25 اقسام ایسی ہیں جن کا شکا بھی ممنوع ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات جہاں جانوروں اور پرندوں کی اقسام کو بچانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے ہیں پر غیر قانونی شکار کے ذریعے قیمتی جانور اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ محکمہ کی جانب سے یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک بعض پرندوں کے شکار کی اجازت بھی ہوتی ہے ان پرندوں میں مرغابی، تیتر وغیرہ شامل ہیں۔ ان پرندوں کے شکار کے لیے ایک ضابطہ اخلاق جاری کیا جاتا ہے جس میں شکاری کے پاس ہنٹنگ لائسنس کا موجود ہونا ضروری ہوتا ہے اس کے علاوہ اسے محدود وقت میں مقررہ تعداد سے زائد پرندوں کے شکار کی اجازت نہیں ہوتی ہے۔ اس کے باوجود بعض اوقات شکار اپنی حدود سے تجاوز کر جاتے ہیں جس پر محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی جانب سے ایسے افراد کے خلاف نہ صرف پابندی عائد ہوتی ہے بلکہ جرمانہ بھی کیا جاتا ہے۔ تاہم سزائیں زیادہ سخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر اوقات شکاری افراد معمولی جرمانہ ادا کرکے غیر قانونی شکار کو ترجیح دیتے ہیں۔
ہرن ایک خوبصورت جانور ہے جس کا شکار سختی سے منع ہے تاہم چولستان اور بہاولپور کے علاقے میں با اثر شخصیات ہرن کا غیر قانونی شکار کرنے سے باز نہیں آتیں ہیں۔ گذشتہ دنوں چولستان کے علاقے میں ہرنوں کا غیر قانونی شکار کیا گیا جس میں درجنوں ہرن شکاریوں کی دلی تسکین کی بھینٹ چڑھ گئے۔ چولستان میں غیر قانونی شکار کی وجہ سے پہلے ہی کالے ہرن کی نسل پنجاب سے ختم ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اب بڑی تعداد میں چنکارہ اور فیلوڈیئر کا شکار کیا جا رہا ہے۔ چولستان کے علاقے میں ہرن کے بڑی تعداد میں شکار کی تصاویر شوشل میڈا پر آنے پر وزیر اعلٰی پنجاب نے محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ایک افسر کے خلاف ایکشن لیتے ہوئے انہیں معطل کر کے او ایس ڈی بنا دیا۔ نوائے وقت کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بااثر شخصیات چولستان اور بہاولپور کے لاکھوں ایکٹر علاقے میں غیر قانونی شکار میں ملوث ہوتی ہیں جن کو روکنا نہ ممکنات میں ہوتا ہے۔ اگر کوئی سرکاری افسر ان کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لاتا ہے تو ان با اثر شخصیات کی ’’لمبی‘‘ پہنچ ہونے کی بنا پر سرکاری ملازم کی تو اس کرسی سے چھٹی ہو جاتی ہے لیکن قیمتی جانور کی جان کا ضیاع کرنے والے با اثر شخصیت کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آتی ہے۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات نے چولستان میں غیر قانونی شکار پر سابق رکن قومی اسمبلی، محکمہ کے سابق ڈپٹی سیکرٹری سمیت کئی جونیئر ملازمین کے اس مکروہ کام میں ملوث ہونے پر ان کے خلاف تحقیقات جاری ہیں۔ چولستان میں گذشتہ دنوں ہونے والے غیر قانونی شکار پر کسی شکاری کے خلاف بھی کوئی ایکشن ہو سکے گا یا نہیں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ایک افسر سے اس سلسلہ میں رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ چولستان میں غیر قانونی شکار ہوتا ہے جس کو روکنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ محکمہ نے چولستان اور بہاولپور کے علاقے میں جگہ جگہ پر چیک پوسٹیں بنا رکھی ہیں جبکہ اس سلسلہ میں مقامی این جی اوز کا بھی تعاون حاصل کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان علاقوں میں امارات سے تعلق رکھنے والے بادشاہوں اور شہزادے تلور کا شکار کرنے کے لیے آتے ہیں جو اس کے لیے اپنے باز خود ساتھ لیکر آتے ہیں۔ حکومت پاکستان ان کی مہمان نواز ہوتی ہے انہیں باقاعدہ علاقے اور ٹائم فریم دیا جاتا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ وہ لوگ غیر قانونی شکار میں بھی ملوث رہے ہوں۔ محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے افسر کا کہنا تھا کہ چولستان میں عرب ممالک سے آنے والے مہمانوں کی وجہ سے اتنا نقصان نہیں ہوتا جتنا ارد گرد میں رہنے والی بااثر شخصیات کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بہاولپور اور چولستان کے علاقوں میں بعض لوگوں نے ہرن پالنے کے فارم بنا رکھے ہیں جہاں سے شائقین قیمت پر ہرن خرید کر اپنے مہمانوں کو شکار کراتے ہیں جس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔ اس کے باوجود بھی جب کبھی ایسا واقعہ پیش آتا ہے تو اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔
چولستان میں اتنی بڑی تعداد میں ہرن کے ہونے والے شکار جس میں شکاری بھاری اسلحہ لیے ہوئے بھی موجود ہیں ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کے ساتھ محکمہ تحفظ جنگلی حیات پنجاب کے لیے سوالیہ نشان ہے۔ محکمہ کے ایک معطل افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس تمام کام میں محکمہ کے ہی لوگ ملوث ہیں اگر واقعی ایسا ہے تو اس کی انکوائری ضرور ہونی چاہیے تاہم کسی بے گناہ سرکاری ملازم کے خلاف کوئی کارروائی عمل نہیں آنی چاہیے۔ اس کے ساتھ ساتھ غیر قانونی شکار کے ملوث بااثر شخصیات کے خلاف بھی سخت ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔ محکمہ کے قانون میں سزائیں سخت نہ ہونے کی بنا پر اکثر لوگ چھوٹ جاتے ہیں محکمہ کو اس سلسلہ میں قوانین سخت سے سخت کرنے کی ضرورت ہے۔
چولستان کی زمین ہرنوں کے خون سے رنگین
Jul 31, 2015