سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کو آئین پر حلف اٹھاتے تمام اخبارات کے صفحات اول پر دکھایا گیا ہے ۔آخر ایک گورنر حلف لے رہا تھا اور ایک وزیر اعلیٰ حلف دے رہا تھا تو یہ کوئی معمولی خبر تو نہ تھی ۔ آئینی اور قانونی اعتبار سے ایک ” با اختیار “ وزیر اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر پاکستان سے وفاداری اور اپنی بہترین صلاحیتوں کو برو¿ے کار لاتے ہوئے پاکستان کی خود محتاری ، سلامتی ، یکجہتی ، فلاح اور خوشحالی کیلئے آئین اور قانون کے مطابق فرائض انجام دینے کی قسم اٹھا رہا تھا ۔مراد علی شاہ نے قسم اٹھائی کہ وہ پاکستان کی اساس نظریہ پاکستان کا تحفظ کرینگے ۔اپنے سرکاری فرائض اور فیصلوں میں ذاتی مفاد کو اثر انداز نہیں ہونے دینگے ۔
پاکستان کے آئین کا تحفظ ، اسکی حفاظت اور اس کا دفاع کرینگے ۔مراد علی شاہ نے یہ بھی حلف اٹھا یا کہ وہ تمام حالات میں تمام افراد کیساتھ بلاخوف ،لالچ اور ذاتی پسند نا پسند کے قانون کیمطابق برتاو¿ کرینگے۔ اسکے علاوہ سرکاری رازوں کو افشا نہ کرنے کا بھی حلف لیا گیا۔ آخر میں سندھ کے وزیر اعلیٰ نے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگی کہ اللہ تعالیٰ انکی مدد اور رہنمائی فرمائیں ۔اس پر گورنر عشرت العباد سمیت ہال میں موجود تمام مہمانوں نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے آمین کہتے ہوئے ایک ٹھنڈی آہ ضرور بھری ہو گی ۔ہم سب مسلمان ہر وقت اللہ کی مدد اور اسکی راہنمائی کے طلب گار ہوتے ہیں مگر پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے بہت سے حلف اٹھائے گئے کہ جن کے فورا بعد ہمارے قائدین نے مدد اور راہنمائی کیلئے فوج یا امریکہ کی جانب ہی دیکھا ۔ ایسے اٹھائے گئے حلفوں کے الفاظ اور متن تو اب اس قابل بھی نہیں رہے کہ انہیں حلف برداری کی تقاریب کی خبروں میں ہی شامل کر لیا جائے ۔
مراد علی شاہ نے بھی بطور وزیر اعلیٰ وہی حلف اٹھایا ہے جو قائم علی شاہ نے اٹھایا تھا اور قائم علی شاہ کے آٹھ سالہ دور پر ایک نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا کہ ایسے حلف اٹھائے ہی اس لیے جاتے ہیں کہ انہیں زمین پر پٹخ کر توڑ دیا جائے ۔ اس وقت فیلڈ مارشل ایوب خان ، جنرل یحییٰ ، جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف جیسے فوجی آمروں کے انکے اپنے بوٹوں تلے روندے ہوئے حلفوں کی بات نہیں کرتے یا ان سودے باز وزرا ءاعظم کے حلفوں کی بھی نہیں جنہوں نے عوامی منڈیٹ کو کیک پیس میں تقسیم کر کے غیر منتخب افراد کو بطور رشوت پیش کیا ۔ بات ہو رہی ہے اس صوبے سندھ کی جہاں ملک کے کاروباری دارلخلافے میں ایک نئی قسم کی جمہوریت اور عوامی منڈیٹ کی پولٹری فارم میں پرورش کی جارہی ہے ۔اس صوبے کا وزیر اعلیٰ جس اختیار کو آئین کے مطابق استعمال کرنے کی قسم اٹھاتا ہے ۔ ایک طرف تو اس کو قانون نافذ کرنیوالے ادارے مانتے ہی نہیں تو دوسری طرف اس نے عوامی اقتدار کی دلہن کو اپنی سیاسی جماعت کے وڈیرے کے ڈیرے پر چھوڑ رکھا ہے ۔ عوامی اقتدار کی دلہن کے ساتھ ویسے تو ہمیشہ سے دھوکہ ہوتا آیا ہے ۔ مگر سندھ کی صورتحال میں تو اب عوامی اقتدار کی دلہن چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ اس کا تعلق تو ایک وزیر اعلیٰ سے قائم ہوا تھا مگر سچ پر، اسکی بجائے سیاسی جماعت کے سربراہ پہلے سے منتظر تھے ۔ قبول ہے ، قبول ہے ، قبول ہے ۔ تو مراد علی شاہ نے صوبائی حکومت کے رجسٹرار گورنر عشرت العباد کے سامنے آئینی حلف کی صورت پکارا تھا مگر سب جانتے ہیں کہ یہ بارات چیف منسٹر ہاو¿س نہیں‘ دبئی جائےگی ۔
یہ تمام عمل اب ایک ایسا کھلا مذاق بن گیا ہے کہ اس پر ہنسی بھی نہیں آتی ۔آئین اور قانون کی پاس داری کا حلف مراد علی شاہ اٹھاتے ہیں اور رینجرز کے اختیارات سے متعلق پارٹی کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ فیصلہ آصف علی زرداری کرینگے ۔
جناب زرداری صوبے میں پارٹی کے سربراہ ہیں اور ووٹ بھی پارٹی کو ہی ملا ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں ۔مگر کیا ایک سیاسی جماعت کو حکومتی معاملات میں اور خاص کر امن امان اور تحفظ عامہ کے حوالے سے بھی مداخلت کا اختیار ہے ؟ ساری دنیا میں سیاسی جماعتیں حکومت میں آنے کے بعد خود کو حکومتی معاملات سے دور رکھتی ہیں ماسوائے کہ جب عوام سے کیے گئے انتخابی وعدوں پر ان کو وزیر اعظم کارکردگی نہ دیکھا رہا ہو یا پھر اہم قومی معاملے پر حکومتی پارٹی کے نظریات سے ہٹ کر ان کا وزیر اعظم کوئی اقدامات کرے چاہے امریکی صدر ہو یا برطانوی وزیر اعظم فیصلے وہی لوگ کرتے ہیں تو آئین اور قانون کی پاس داری کا حلف اٹھاتے ہیں کہ نہ انکی جماعتوں کے قائدین جو حکومت میں نہیں ہوتے ۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ایک تو پہلے ہی عام آدمی یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس ملک کو فوج چلاتی ہے یا حکومت اور اوپر سے حکومتی عہدیداران بھی جب اہم فیصلوں کیلئے دبئی اور لندن جاکر اپنے غیر منتخب قائدین کے چرنوں میں بیٹھ جاتے ہیں تو پھر عوام اپنے ووٹ کا حساب کس سے مانگیں ۔ سندھ حکومت کو پیپلز پارٹی کے قائدین نے ایسا ” ماسی دا ویہڑا “ بنا لیا ہے کہ حکومت کو کم اور کسی مزارعے کا چار دیواری کے بغیر والا مکان زیادہ لگتا ہے ۔سندھ کے اراکین پارلیمنٹ و صوبائی اسمبلی سے لے کر وفاقی وزراءاور حتی کہ اعلیٰ ترین سرکاری عہدےداران بھی اپنے وزیر اعلیٰ کی بجائے جناب زرداری سے ہدایت لیتے ہیں حتی کہ بہت سے صوبائی اداروں میں ترقی و تبادلے بھی جناب زرداری صاحب یا انکے فرنٹ مین افراد کے زریعے ہوتے ہیں ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ یہ فیصلے بھی بطور پارٹی نہیں کیے جاتے ۔ دوسری جماعتوں میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہیں ۔ فرق اتنا ہے کہ مثلا حکمران،جماعت مسلم لیگ نون کے قائدین خود ہی حکومت کے سربراہ بھی ہیں شاید اس لیے ان پر حکومتی معاملات میں انکی پارٹی کی بے جاہ مداخلت کا ثبوت تلاش کرنا ممکن نہ ہو۔مگر بطور پارٹی مسلم لیگ نون کی شناخت یا وجود صرف اور صرف اپوزیشن یا انتخابی معرکوں میں جھنڈوں یا تقریروں کی صورت میں نظر آتا ہے۔
دوسری پارٹیوں کی طرح اس جماعت کو بھی مدت ہوئی اپنی مرکزی مجلس عاملہ کا اجلاس بلائے ۔ ایسے میں معلوم کرنا مشکل ہے کہ ایسی حکومتی جماعتیں کب اپنی جماعت کے دفاترکو حکومتی فیصلوں کیلئے اور حکومتی دفاتر یا وسائل کو پارٹی فیصلوں کیلئے استعمال کرتی ہیں ۔ یہی وہ فرق ہے جو ہم بطور سیاستدان ،تمام شہری اور تجزیہ کار تیزی سے بھولتے جارہے ہیں ۔اور سیاسی جماعتوں کی قیادت اور حکومتی عہدیداران اتنے گڈ مڈ© ہوگئے ہیں کہ جب کوئی وزیراعلیٰ اپنے عہدے کا آئینی حلف اٹھاتا ہے تو اسکو ایک تقریب کی خبر یا رسمی تصویر کی حد تک دیکھا اور سمجھا جانے لگا ہے ۔ سب جان چکے ہیں اللہ کو حاضر ناظر جان کر جو جھوٹ بولا جاتا ہے ، حلف لینے والا اور حلف دینے والا دونوں اس حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں ۔ فیصلے کہاں ہونگے اور کون کریگا یہی تو وہ دھوکا ہے جو ہمارے سیاستدان محض وسائل کی بندر بانٹ میں اپنے حصے کی خاطرعوام کو دیتے رہتے ہیں ۔ان حکمرانوں میں سے کسی میں اتنی اخلاقی جر ا¿ت نہیں کہ وہ اٹھائے گے آئینی حلف کے مطابق پہلے تو تمام اداروں کو عوامی مینڈیٹ کے تابع کریں اور پھر اللہ کو حاضر ناظر جان کر ان اختیارات کے درست استعمال کی قسمیں کھائیں ۔ ایسی صورتحال میں جہاں مسئلے اور فریقین کی ہی درست نشاندھی نہ ہو پا رہی ہو اور ایک بااختیار وزیر اعلی کی بے اختیاری ، بے اختیار رینجرز کے حقیقی اختیارات کا سرعام مظاہرہ سب کے سامنے ہو تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ کوئی وزارت اعلی کے عہدے پر قائم نہ رہے یا اس عہدے کیلئے کسی کی مراد برآئے۔ ایک غیر آئینی سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے ایک بار اپنے سرکاری گھر کے مہمان خانے کی دیواروں پر ٹنگی تصاویر دکھاتے ہوئے کہا ” یہ میں مشرف سے حلف لے رہا ہوں،،یہاں میںجنرل مشرف کو حلف دے رہا ہوں©©“جب میں نے سوال کیا کہ انکے نزدیک حلف کی کیا اہمیت ہے تو جواب ملا یہ ایک "Formality" (رسم) ہے جس کے بغیر آپ اپنا دفتر نہیں سنبھال سکتے ۔
جب قومی ادارے اپنے ماضی پر شرمندگی کا اظہار کئے بغیر سیاسی جماعتوں اور سیاسی حکومتوں کو نیچا دکھانے کیلئے مختلف حربے استعمال کرینگے تو اپنے وجود اور سیاسی تحفظ کیلئے سیاست دان اور سیاسی جماعتیں ایسے ہی غیرا ٓئینی ، غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں کے زریعے اقتدار کی جنگ لڑتی رہیں گی اور ایسے میں حلف برداری کی تقریبات یقینا ایک اہم رسم ہیں جو بے شک ایک مذاق ہی نہیں بلکہ حلفیہ مذاق ہیں۔