نئے وزیر اعظم کا چناو¿ کیسے کیا جا رہا ہے؟ عبوری وزیر اعظم کے مضحکہ خیز عہدے کا دوبارہ احیا کیا جارہا ہے اس معاملے میں جناب نواز شریف اپنے حریف جنرل پرویز مشرف کے نقشِ قدم پر چل رہے ہیں کیسی جمہوریت اور کہاں کی جمہوریت جس کا دن رات الاپ کیا جاتا رہا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ! یہ جنرل مشرف تھے جنہوں نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر ظفر اللہ جمالی سے عجلت میں جان چھڑانے کےلئے چودھری شجاعت کو 45 دن کےلئے وزیر اعظم مقرر کیا تھاجمالی ایسے بلوچ نکلے کہ کوئی مزاحمت کئے بغیر کان لپیٹ کر گھر چلے گئے مرنجان مرنج چودھری صاحب نے شوکت عزیز کے منتخب ہونے تک یہ عہدہ سنبھالے رکھا عبوری وزیراعظم کا دستور میں کوئی ذکر نہیں ہے لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ چودھری شجاعت کو سابق وزیراعظم کی حیثیت سے کسی قسم کی کوئی مراعات نہیں دی گئیں غالبا ان کی تصویر بھی قومی اسمبلی یا ایوان صدر میں سابق وزرائے اعظم کے ساتھ آویزاں نہیں کی گئی یہ کیسی جمہوریت ہے جس کے گن جائے جاتے ہیں اور اب کچھ ذکر روحانی دنیا کے معاملات کا خاص طور علم الاعداد کے ماہرین نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی زندگی میں 99 سال کے دائروں کا پیٹرن دریافت کیا ہے جو ان کی سیاسی زندگی پر مسلسل اثر انداز ہورہا ہے۔ ہمارے گوشہ نشیں بابا جی سرکار مسلسل فرما رہے تھے کہ2017ءنواز شریف کےلئے بڑا اہم ہے کیونکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی زندگی 9 برس کے دائرے میں گھومتی ہے۔ 1981ءمیں نواز شریف وزیر خزانہ پنجاب کی حیثیت سے سیاست میں داخل ہوئے 9 سال بعد 1990ءمیں وزیر اعظم بن گئے۔ 1999ءمیں ٹھیک 9 سال بعد برطرف ہو کر جلا وطن ہوئے۔ 2008ءمیں ایک بار پھر 9 سال بعد پاکستان آکر پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئے۔ اسی دائرے کے زیر اثر وہ تیسری بار وزیراعظم بننے میں کامیاب ہو گئے۔ 2017ءنواز شریف کی سیاسی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ 2017ءسے 2026ءکے 9 سالہ دائرے میں کیا کچھ ظہور پذیر ہونےوالا ہے جب نواز شریف کے مقابل وقت ہو گا اور ان کے قویٰ تیزی سے مضحمل ہو رہے ہوں گے۔ میاں نواز شریف کی زندگی میں منصوبہ بندی سے زیادہ اتفاقات کا عمل دخل دکھائی دیتا ہے ان کے میدان سیاست میں آنے کے محرکات اتفاقات کی کرشمہ سازی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔
اتفاق فاﺅنڈریز کے مالک میاں شریف 1970ءکے عام انتخابات میں بھٹو کے مد مقابل شاعر مشرق علامہ اقبال کے صاحبزادے (جسٹس) جاوید اقبال کی انتخابی مہم کی فنڈنگ کرنے پر ریڈار میں آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے پوچھا کہ جاوید اقبال کی انتخابی مہم کے اخراجات کون برداشت کررہا ہے انہیں بتایا گیا کہ امرتسری کشمیریوں کا صنعت کار خاندان انتخابی مہم چلوا رہا ہے۔ بھٹو مرحوم نے یہ بات گرہ بنا کر باندھ لی پھر وقت بدلا بھٹو مرحوم برسراقتدار آئے تو انہوں نے ایک کروڑ روپے اور اس سے زائد مالیت کی تمام صنعتیں قومیانے کا حکم دیا اس وقت اتفاق فاﺅنڈری کی کل مالیت کا تخمینہ صرف 95 لاکھ روپے نکلا جس پر بابائے سوشلزم مرحوم رشید کو بلا کر اتفاق فاﺅنڈری کی مالیت ایک کروڑ دکھا کر قبضے کرنے کامنصوبہ بنایا گیا واہ کیا دور تھا کہ صرف 5 لاکھ روپے اضافے کےلئے بھٹو مرحوم اور بابائے سوشلزم شیخ رشید کو بڑی تگ و دو کرنا پڑی تھی۔ اتفاق فاﺅنڈری پر سرکاری قبضے کے بعدمیاں شریف (مرحوم میاں شریف کو ان کے بھائی پیار سے اسی نام سے بلاتے تھے) کی جیبی ڈائری نے اس خاندان کو دیوالیہ ہونے سے بچایا تھا۔ ہوا یوں کہ قومیانے کے بعد اتفاق فاﺅنڈری اور اس کے دفتر میں وزارت صنعت کا ایک جونیئر افسر از قسمِ ڈپٹی ڈائریکٹر قابض ہو گیا لیکن کسانوں سے لین دین کا سارا حساب کتاب باو¿ شریف کی اسی جیبی ڈائری میں درج تھا اور ان کا کسانوں سے لین دین اس قدر اچھا تھا کہ مقروض کسانوں اور زمین داروں نے ایک ایک پائی اتفاق فاﺅنڈری کی بجائے میاں شریف کو واپس کی تھی جس سے بعد ازاں خاندان نے اپنے کاروبار کو سنبھالا دیا تھا۔
خود ہمارے ہاں 70ءکی دہائی کے آخر میں پہلا تھریشر (گندم گاہنے کی مشین) ساختہ اتفاق آیا تھا جس کی رسید پر جناب نواز شریف کے دستخط تھے جو جنت مکانی ابا جی رانا محمد اشرف خاں کبھی کبھار اپنے کاغذات سے نکال کر دکھایا کرتے تھے اسی طرح بزرگ اخبار نویس جناب خالد کاشمیری نے اپنی آپ بیتی میں بڑی تفصیل سے نواز شریف کی پہلی سیاسی سر گرمی مولانا ظفر علی خان میموریل سوسائٹی کا صدر بننے اور اس کی خبر کی اشاعت پر مٹھائی کھلانے کا بڑے دلچسپ انداز میں ذکر کیا ہے کہ اخبار میں اپنا نام پڑھ کر جوان سال نواز شریف کا سرخ و سفید چہرہ کس طرح گل گ±وں ہو گیا تھا۔ یہ تو ماضی کی کہانیاں ہیں اب کچھ ذکر لمحہ موجود کا بھی ہو جائے۔ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ جس کا حال ٹھیک ہے اس کا مستقبل اور ماضی خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران جناب نواز شریف نے گلی کوچوں میں طاقت کے مظاہرے کرنے کی سر توڑ کوشش کی لیکن ان کے متوالے اور جانثار دائیں بائیں ہو گئے۔ عوامی طاقت کسی بھی منتخب سیاسی رہنما کےلئے سرمایہ حیات ہوتی ہے ۔ مریم نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر بابائے شہر سردار نسیم اور حنیف عباسی، ”قائد تیرا اک اشارہ حاضر حاضر لہو ہمارا“ کے خالی خولی نعرے لگاتے اور جناب نواز شریف کا دل پر چاتے رہے ان سب وعدوں اور بلند و بانگ دعوو¿ں کے باوجودجوڈیشل اکیڈمی کے باہر صرف چند درجن نفوس ہی اکٹھے کئے جا سکے تھے۔ اسی طرح سپریم کورٹ فیصلے والے دن لاہور میں قوتِ بازو کا مظاہرہ کرنے کےلئے کامل ایک ماہ سے تیاریاں جاری تھیں اعداد و شمار کے کھیل سے جناب نواز شریف کو بہلایا جاتا رہا کہ کس طرح 5 ہزار متوالے ناصر باغ سے نکلیں گے اور مال روڈ پر جلوے دکھا کر گورنر ہاو¿س تک رونق لگا دیں گے لاہور سے 17 ایم این اے، 34 ایم پی اے اپنے ہمراہ ایک ایک سو کارکن لائیں گے۔ ایک ماہ تک تیاری ہوتی رہی نتیجہ صفر نکلا۔ اس کالم نگار کو ”سرور پیلس“ جدہ میں جلاوطن نواز شریف سے ملاقات کے مناظر نگاہوں کے سامنے گھومنے لگے جب خوش خوراک اور خوش مزاج نواز شریف بتا رہے تھے کہ کچھ لوگ مجھے مشورے دیتے تھے ”میاں صاحب! کڑاکے کڈ دیو چھکا لگاو¿ “جب میں نے مشرف والا چھکا لگانے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھا تو سب غائب ہو چکے تھے۔ اس ملاقات کا اہتمام برادرم رو¿ف طاہر نے کرایا تھا جنہوں نے اپنے ممدوح سے دوستی میں ”توازن“.... اور اب مدلِل گفتگو کرنے والا یہ بلند پایہ تجزیہ نگار بات بات پر لوگوں سے الجھتا پایا جاتا ہے۔ رہے چودھری نثار تو بلند وبانگ دعوو¿ں والی پریس کانفرنس کے بعد انہیں اصولاً قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہو جانا چاہئے تھا لیکن چودھری نثار کام کرتے رہیں گے کہ حالات کا تقاضا یہی ہے لیکن وہ نواز شریف کے دل سے اتر چکے ہیں۔ اس لئے مشاورتی اجلاسوں کو بھول جائیں جس کے کبھی وہ روحِ رواں ہوا کرتے تھے۔ حرف آخر یہ کہ اس سارے ہنگامے میں جمہوریت بیچاری جمہوریت کہیں کھو گئی ہے جس کا چرچا چاروں اور جاری ہے۔ شاید اسی لئے گذشتہ ہفتے علم الکلام کے ماہر رانا قیصر بڑی بے بسی سے پوچھ رہے تھے کہ وہ جمہوریت ہے کہاں جس کے تحفظ کے بلند و بانگ دعوے کئے جا رہے ہیں ۔