ایثارِ دائمی کا نشاں…مادرِملت فاطمہ جناح ؒ

مقصد کو ضرورت سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔جو یقین کی راہ پر چل پڑے انہیں،منزلوں نے پناہ دی۔یقین محکم اور عمل پیہم ہی مقصد کے حصول کا شفاف راستہ ہے اور منزل کا یقین فکرو عمل کا محتاج ہے جسے نظریہ کہتے ہیں،وہی نظریہ جو برصغیر کے لا کھوں مسلمانوں کو استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کا محرک بنا۔عظیم رہنما قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں ایمان کی طاقت اور اتحادکی یگانگت سے لبریز مسلم قوت نے ایک خود مختار تنظیم بنا ڈالی ۔یہ قائدؒ کی خداداد صلاحیتوں کا ہی ثمر ہے کہ آج ہم آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہیں ۔
قائد اعظم محمد علی جناح ؒ اور محترمہ فاطمہ جناح ؒ بہن بھائی کے مقدس رشتے میں الگ الگ وجود رکھتے ہیں،محترمہ فاطمہ جناح ؒ نے اپنے بھائی کے مشن سے زندگی بھر کے لئے وابستہ کرنے کا موجب بنا ۔محتر مہ فاطمہ جناحؒ۱۳ جولائی ۳۹۸۱ ء کو کراچی میں کھارادر کی نیو نہام روڈ پر پیدا ہوئیں ۔بہن بھائیوں میں چھٹے نمبر پر محترمہ فاطمہ جناحؒ تھیں۔سب سے بڑی اولاد محمد علی جناحؒ تھے۔جب فاطمہ جناح پیدا ہوئیں تو اُس وقت قائداعظم ؒ اپنی تعلیم کے سلسلے میں لندن گئے ہوئے تھے۔۶۹۸۱ ء میں جب محمد علی جناح ؒوطن واپس آئے تو انہوں نے کاروباری حالات دیکھ کر بمبئی میں وکالت کرنے کا فیصلہ کیا۔انہوں نے والدِ محترم کو خط لکھا کے وہ اہلِ خانہ سمیت بمبئی منتقل ہوجائیں ۔۱۰۹۱ میں جناح پونجا انتقال کرگئے تو گھر کی قیادت کی ذمہ داری محمد علی جناح ؒکے کندھوں پر براہ راست آگئی۔انہیں ننھی فاطمہ سے بہت پیار تھاجسے وہ پیار سے فاطی کہہ کر بلاتے تھے۔وہ بیرونِ ملک سے تعلیم حاصل کرکے آئے تھے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنی بہن کوکانونٹ سکول میں پڑھائیں گے۔چنانچہ انہوں نے نو سال کی عمر میں ۲۰۹۱باندرہ کانونٹ سکول بمبئی میں داخل کرادیا گیا۔۶۰۹۱میں انہیں پیٹرک سکول کھنڈالہ میں داخلہ دلوایا گیا،وہاں وہ بورڈنگ ہائوس میں رہیں ۔۰۱۹۱ میں انہوں نے میٹرک پاس کرلیا۔۹۱۹۱ میں انہوں نے قائداعظمؒ سے مشورے کے بعد کلکتہ میں احمد ڈینٹل کالج میں داخلہ لے لیا۔تین سال بعد سند لے کر واپس بمبئی آئیں اور بڑے بھائی سے مشورے کے بعد عبدالرحمٰن سٹریٹ بمبئی میں اپنا ڈینٹل کلینک قائم کیا جو سات سال تک چلتا رہا ۔مادرِملت نے اپنے بچپن کا زیادہ تر حصہ اپنے بڑے بھائی محمد علی جناح کے ساتھ گزارہ جن سے انہیں نہ صرف محبت ملی بلکہ خود اعتمادی جیسی قوت بھی حاصل ہوئی۔قائداعظم ؒکی آخری سانس تک محترمہ فاطمہ جناح ؒ اپنے بھائی کے ساتھ رہیں اور ان کے مشوروں اور بعض فیصلوں میں بھی شریک رہیں۔قائداعظم ؒ نے انہیں اپنی’’روشنی اور اُمید کی کرن ‘‘ قرار دیتے ہوئے فرمایا ! ’’میری بہن فاطمہ نے طویل مدت تک میری خدمت کرکے اور مسلم خواتین کو بیدار کرکے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے میں اس کا بدلہ نہیں دے سکتا‘‘۔
مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح نے اسلامیانِ برصغیر کے قاعد اعظم محمد علی جناح ؒ کونجی امور سے بے فکر کرکے نہ صرف ذہنی آسودگی عطا کی بلکہ بلکہ برصغیر ہند کی مسلم خواتین کو تحریک پاکستان کے لیے منظم کرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔انہوں نے اپنی زندگی قوم کے رہبر کے نام وقف کی اور خدمت کا دائرہ اس قدر وسیع کیا کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو ہر طرح کے فکر سے آزاد کرکے شب و روز اپنی قوم کے لیے وقف ہونے کی راہ ہموار کی۔اللہ تعالیٰ نے ان کی خدمت رائیگاںنہیں جانے دی اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں مسلمان آزاد ہوگئے اور دنیا کی تاریخ میں نظریے کی بنیاد پر ایک الگ ریاست کا وجود تسلیم کر لیا گیا۔
بڑی بد قسمتی ہے کہ حضرت قائداعظم ؒ قیام پاکستان کے تھوڑے عرصے بعد داغ مفارقت دے گئے ،ان کے انتقال کے بعد قاعد اعظم ؒکے جانشینوں نے اور سیاستدانوں نے قاعد اعظم ؒ کی ہمشیرہ اور ان کے افکاروخیالا ت کی امین محترمہ فاطمہ جناحؒکی صلاحیتوں سے کوئی فائدہ نہ اُٹھایا۔مختلف حیلے بہانوں اور رکا وٹوں کے ذریعے قوم کو قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی تعلیمات اور افکار کی روشنی سے محروم کرنے کی کوششیں کی گئیں ،ملک میں جمہوریت ،قومی اداروں اور اعوام کا ہوا وہ کسی سے مخفی نہیں،مگر عظیم قائداعظم کی عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ نے از خودمختلف مواقع پر اپنے خیالات و پیغامات سے عوام کی رہنمائی کرتی رہیں ۔آج ہم قائداعظم محمد علی جناح ؒ اورمحترمہ فاطمہ جناح ؒ کے افکار سے بہت دور ہیں،اس قدر بعید کہ نظریاتی تشخص اس قدر معدوم ہوتا نظر آرہا ہے کہ ماضی ، حال اور مستقبل کے آئینے میں ہی ،مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح ؒ کی دعوتِ فکر ،انفرادی اور اجتماعی سطح پر فکرو خیال پر مجبور کرتی ہے۔
۴۱اگست۷۵۹۱ ،یومِ آزادی کے موقع پر قوم کے نام پیغام میں مادرِملت محترمہ فاطمہ جناح نے فرمایا!۔
’’پاکستان کا قیام اس لیے قیام میں نہیں آیا تھا کہ کروڑوں انسان اسے زندہ رکھنے کے لیے نا قابلِ یقین مصائب برداشت کریں۔اپنا خون ،پسینہ اور اقتدارو دولت کے بھوکے افراد پلتے رہیں۔یہ تو سماجی انصاف، مساوات، اخوت بہبود، مسلسل اور ہم آہنگ ترقی، امن و سکون کے لیے قائم کیا گیا تھا،کیا ہم نے ان مقاصد کے حصول کے لیے پیش رفت کی ہے؟ہم تو اس سے بہت دور جا چکے ہیں۔اس افسوس ناک صورتحال کے پیچھے کون ہے؟آپ نے اس خفیہ ہاتھ کا سراغ لگانا ہے‘‘۔
جبکہ پھر ۴۱اگست ۴۶۹۱ کو یوم آزادی موقع پر دعوت ِ فکر دی،آپ نے اپنے پیغام میں کہا :
’’ہمیں چاہیے کہ ہم ایمانداری سے اپنے دِلوں کو ٹٹولیں اور سوچ کر بتائیں کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے اصول ،اقوال و افعال سب ہمیں درس دیتے ہیں کہ ہم ہر قسم کی خود غرضی ذہنی و جذباتی تنگ نظری سے چھٹکاراپائیں ۔اخلاقی قوت ،انسان میں ایمانداری کلیدی کردار اور سچے نصب العین کی خاطر مصائب برداشت کرنے اور قربانی دینے پر آمادگی کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔یہ قوت کی بھی دوسری قوت سے عظیم تر ہے اور آخری فتح ہمیشہ اس کی ہوتی ہے،یہ عظیم درس ہمیں تاریخ اور قائداعظم ؒ نے دیا آئیے اس درس کو عمل کا روپ دیں‘‘۔

ای پیپر دی نیشن

''درمیانے سیاسی راستے کی تلاش''

سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے وہ کسی دشمن کے زور کی وجہ سے برپا نہیں ہو ئے ہیں بلکہ یہ تمام حالات ...