نوازشریف کا پاکستان ،آئین اور جمہوریت کیلئے جان تک دینے کا عزم، شہبازشریف وزیراعظم نامزد
سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ قوم کو پتہ چل رہا ہے نااہلی کیوں ہوئی۔ عوام حکومت گرانے کے عمل کو پسند نہیں کرتے۔ آپ کو فخر ہونا چاہئے آپ کے قائد کی نااہلی کرپشن کے باعث نہیں ہوئی‘ میرا دامن صاف ہے‘ وہ کہتے ہیں کہ تنخواہ وصول نہیں کی جب وصول ہی نہیں کی تو اس کو ظاہر کیسے کرتے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں بہت بار مختلف طریقوں سے گرائی ہیں مگر عوام نے حکومتیں گرانے کے ان طریقوں کو مسترد کر دیا۔ ملک و قوم کی خاطر لڑتے رہیں گے‘ تین نسلوں کا احتساب ہوا مگر کچھ برآمد نہیں ہوا۔ ملک کے اندر آئین و قانون کی پاسداری ہونی چاہئے۔ ہر اثاثے پر ٹیکس دیتے ہیں۔ ہر اثاثے اور ذرائع آمدن کو ڈکلیئر کیا ہوا ہے۔ ایک اقامہ جو ذریعے آمدن ہی نہیں اس کو ڈکلیئر کیسے کرتا۔ یہاں جیبیں بھری گئیں اور ڈکار نہیں لیا جاتا یہ کیا ہو رہا ہے؟ 70 سالہ تاریخ میں وزیر اعظم کے ساتھ کیا ہوتا رہا، درست راستوں کا تعین کیا جائے تو قوموں کی تقدیر بدل جاتی ہے، وہ میرے بیٹے کی کمپنی تھی سرکاری کمپنی نہیں تھی۔ بیٹے کو کہا کمپنی میں مجھے کیا رکھو گے کیا ملازم رکھو گے؟ مجھے چیئرمین بنا دیا گیا۔ ہمارا احتساب 1972ء سے شروع ہوا میرا ضمیر صاف ہے سارے مرحلے سے گزرا ہوں۔ اقتدار کوئی پھولوں کی سیج نہیں، کانٹوں کا بستر ہے۔ تجویز تھی استعفیٰ دیکر الیکشن لڑیں، استعفیٰ نہیں دیا نکال دیا گیا یہ لمحہ فکریہ ہے۔ اگر مجھے سزائے موت سنا دی جاتی تو میں بھی سوچتا کہ سزا دیدی گئی۔ یہاں پہلے بھی وزیراعظم کو پھانسی پر لٹکایا گیا وہ وقت بھی دیکھ چکا ہوں جب کہتے تھے آپ کو سزائے موت ہو گی۔ اگر پیسہ ہی مطمع نظر ہوتا تو مجھے 5 ارب ڈالر کی پیشکش ہوئی تھی امریکی صدر کلنٹن نے ایٹمی دھماکے نہ کرنے پر معاوضے کی پیشکش کی تھی اس کے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہیں جس نے اقتصادی اور دفاعی طور پر ملک کو مضبوط کیا کبھی مارشل لاء لگتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پوری فوج اس میں ملوث ہے۔ چند لوگ ہی ملوث ہوتے ہیں۔ ہیلی کاپٹر کیس میں سات سال قید سنائی گئی۔ وزیر اعظم ایسے ہی جاتے رہے تو ملک نہیں چلے گا۔ کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے۔ قوم نے ہمیشہ بھرپور اعتماد کا اظہار کیا ہماری پارٹی پہلے سے زیادہ مضبوط ہوئی۔ اتنی بڑی تعداد میں ارکان کی اجلاس میں آمد پروپیگنڈہ کا جواب ہے۔ ملک کا سپاہی ہوں آخری وقت تک مورچے پر کھڑا رہونگا۔ میرا دامن صاف ہے۔ ہر آنے والا دن پہلے سے بہتر ہے۔ ملکی ترقی کیلئے پارٹی کردار ادا کرتی رہے گی۔ میں اپنے ملک کی خاطر ہر طرح سے لڑنے کو تیار ہوں۔ اس نظرئیے کو حاصل کرنے کیلئے پوری زندگی کی قربانی دینے کو تیار ہوں۔ قوم دیکھے کون کتنا صادق اور امین ہے۔ چند سیاستدانوں نے الزامات کی حد کر دی ہے۔مجھے اپنی ذات کی نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کی پرواہ ہے۔ احتساب سب کا ہونا چاہئے۔
دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ (ن) نے عبوری وزیراعظم کے طور پر سابق وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور مستقل وزیراعظم کے طور پر پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہبازشریف کو نامزد کر دیا۔ ان دونوں رہنمائوں کی نامزدگی کی توثیق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پنجاب ہائوس میں منعقدہ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کی گئی جبکہ اس سے قبل وزیراعظم ہائوس میں سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی صدارت میں مشاورتی اجلاس ہوا جس میں پارٹی رہنمائوں کے ساتھ موجودہ صورتحال کے پس منظر میں آئندہ کے سیٹ اپ کے بارے میں مشاورت ہوئی۔ اجلاس کے شرکاء نے آئندہ وزیراعظم کے لئے اپنی اپنی آراء سے آگاہ کیا۔ مختلف ناموں پر غور کے بعد شاہد خاقان عباسی کو عبوری وزیراعظم جس کی میعاد 45 روز ہو گی بنانے اور میاں شہبازشریف کو باقی ماندہ مدت کے لئے وزیراعظم بنانے پر اصولی اتفاق رائے پایا گیا۔ میاں نوازشریف کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ حتمی فیصلہ کریں اور اس کی منظوری پارلیمانی اجلاس میں لے لیں۔ بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس پنجاب ہائوس اسلام آباد میں ہوا۔ جس کے بعد میاں نوازشریف نے اتحادی جماعتوں کو عبوری سیٹ اپ کے بارے میں فون کر کے اعتماد میں لیا۔شہبازشریف این اے 120 سے الیکشن لڑیں گے اور قومی اسمبلی میں پہنچ کر وزارت عظمیٰ سنبھالیں گے۔دریں اثناء صدر نے قومی اسمبلی کا اجلاس پرسوں سہ پہر 3 بجے طلب کر لیا جس میں نئے قائد ایوان کا انتخاب کیا جائیگا، علاوہ ازیں قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے وزیراعظم کے انتخاب کیلئے شیڈول جاری کر دیا۔ قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق گزشتہ روز اتوار کو سیکرٹری قومی اسمبلی کے دفتر سے کاغذات نامزدگی حاصل کئے جاسکتے تھے۔ کاغذات نامزدگی کی وصولی آج 31 جولائی 2017ء دن 2 بجے تک ہوگی۔ 31 جولائی بروز پیر اورسہ پہر 3 بجے سپیکر قومی اسمبلی کاغذات نامزدگیوں کی جانچ پڑتال کریں گے۔
میاں نوازشریف کی نااہلی کے بعد سیاسی معاملات بڑی خوش اسلوبی سے طے پا رہے ہیں، مسلم لیگ ن میں نوازشریف کی نااہلی کے تناظر میں انتشار، خلفشار اور گروپ بندی کی افواہیں اڑائی جا رہی تھیں، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا اور اگلے 45دن میں جب شہبازشریف وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالیں گے، کچھ ہونے کا نہ صرف کوئی امکان نہیں بلکہ مسلم لیگ ن مزید مضبوط ہوتی نظر آ رہی ہے۔ مسلم لیگ ن اس فیصلے کے بعد بڑی سرعت سے ری آرگنائز ہوئی ہے۔ سابق وزیراعظم نے اپنے خطاب میںمسلم لیگ ن کے ورکرز اور عوام کیلئے ایک جاندار پیغام دیاگیا، جس اجلاس میں شہبازشریف کو میاں نوازشریف کا جاں نشین نامزد کیا گیا اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے میاں نوازشریف نے عوامی اذہان میں موجود کئی سوالات کے جواب دیئے، کئی انکشافات کئے آئندہ کی سیاسی حکمت عملی سے آگاہ بھی کیا۔ ان کا خطاب ’’لوگوں‘‘ اور اپوزیشن کیلئے لمحہ فکریہ بھی ہونا چاہیے جو نوازشریف کو سیاسی منظر نامے سے غائب ہونے کی امید لگائے بیٹھے اور پیشگوئیاں کر رہے تھے۔ پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں لوگ توقعات سے کہیں زیادہ آئے، دوسرے انہوں نے اپنے قائد کیلئے بے پایاں جذبات اور اٹوٹ وابستگی کا اظہار کیا، یہ ایسے لیڈر کے لئے تھا جو اقتدار میںنہیںاقتدار جا رہا تھا۔
عوامی سطح پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیئے جانیوالے فیصلے کی پذیرائی سے تو کیا ہونی تھی اسے قبولیت بھی حاصل نہیں ہو سکی، مزید براں میاں نوازشریف کے پارلیمانی پارٹی سے خطاب نے فیصلے پر شکوک کے سائے مزید گہرے کردیئے ہیں، فیصلے میں بادی النظر ایک منتخب وزیراعظم کو نااہل قرار دینے کی وجہ نکالی گئی ہے، کرپشن کا کوئی ثبوت سامنے نہیں لایا گیا، گرفت اس رقم پر کی گئی ہے جو اس فیصلے کی زد میں آنیوالے شخص نے کبھی وصول ہی نہیں کی۔
مسلم لیگ ن کو ڈی سٹیبل کرنے کیلئے کوشاں اور اس کی جگہ لینے کی خواہاں پی ٹی آئی کی خیبر پی کے میں حکومت لرز رہی ہے۔ پی ٹی آئی نے ایک بار پھر قومی وطن پارٹی کو حکومت سے الگ کر دیا ہے۔ قومی وطن پارٹی نے یقیناً پاناما لیکس کیس میں پی ٹی آئی کا مہر نہ بننے سے انکار کا فیصلہ سوچ سمجھ کر کیا ہو گا اسے اس کا نتائج کا بھی علم ہوگا۔ تحریک انصاف کس چیز کا جشن اور اظہار تشکر منا رہی ہے؟ یہ جلد بازی میں منایا جانے والا جشن ہے۔ مسلم لیگ ن اپنی جگہ پر موجود اور پہلے سے مضبوط و متحد ہے جو اگلے الیکشن میں سویپ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اپنی نااہلیت کے فیصلے کے بعد میاں نوازشریف کی طرف سے لیگی رہنمائوں اور ورکرز کو احتجاج سے روکنا ایک دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ تاہم ملک بھر میں جلسوں کا اعلان اپنی مقبولیت باور کرانے کا انہیں حق حاصل ہے جو وہ استعمال کر رہے ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کیلئے وہ لمحہNighmareسے کم نہیں ہوگا جب ایک طرف شہبازشریف وزارت عظمیٰ کے عہدے کے حلف کیلئے اسلام آباد جا رہے ہونگے اور میاں نوازشریف کا کانوائے لاہور کی طرف رواں دواں ہوگا یہ پاور شو اور کمپین ٹریل اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکالنے کیلئے کافی ہو سکتا ہے۔
بلاشبہ شہبازشریف بطور وزیراعظم، نوازشریف کے صحیح جاں نشین ثابت ہونگے۔ میاں نوازشریف کی ماضی میں رہنمائی اور تربیت شہبازشریف کا اثاثہ ثابت ہوگی۔ ان کا دنیا میں تعارف کرانے کی ضرورت نہیں ہے۔وہ عموماً غیر ملکی دوروں پر وزیراعظم کے ساتھ ہوتے تھے، جن میں سی پیک جیسے بڑے معاہدوں اور منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ پنجاب کو شہبازشریف نے رول ماڈل بنا دیا ہے، دوسرے صوبوں کے لوگ وزیراعلیٰ شہبازشریف کی کارکردگی کو رشک سے دیکھتے اور وزراء تک اپنے صوبے کیلئے ایسے وزیراعلیٰ کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ شہبازشریف جس طرح صوبے میں صحت، تعلیم اور انرجی سمیت دیگر شعبوں اور منصوبوں کو لے کر چل رہے ہیں وہ انقلابی اقدامات سے کم نہیں اور پھر وہ سی پیک کیلئے جس طرح کوشاں رہے اور اس منصوبے کو غیر متنازعہ اور تمام صوبوں کیلئے قابل قبول بنانے میں کردار ادا کیا وہ انہی کا خاصہ ہے۔ ان کے وزیراعظم بننے سے بلاشبہ سی پیک منصوبہ پہلے سے زیادہ محفوظ اورتیزی کے ساتھ پایۂ تکمیل کی طرف گامزن ہوگا بلکہ پنجاب میں سامنے آنیوالی ان کی کارکردگی سے دیگر صوبے بھی استفادہ کر سکیں گے، جس سے قومی تعمیر و ترقی کی مزید راہیں کھلیں گی۔
اپوزیشن کو قومی سیاست میں سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہئیے۔ شیخ رشید کوخاقان عباسی کے مقابل لانے کا عندیہ دیا گیا ہے، نتیجے کا عمران خان کی پارٹی کو علم ہے۔ امیدوار لانا بھی ان کا جمہوری حق ہے مگر مذاق بنوانے سے گریز کیا جائے تو بہتر ہے۔ عمران خان نے کہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو پانچ سال پورے کرنے چاہئیں یہ ان کی جمہوری سوچ کا عکاس ہے جس کا عملی مظاہرہ بھی ہونا چاہئے۔ایسا افراتفری اور شور شرابے کی سیاست سے گریز کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔
پارٹی یکدم ری آرگنائز ہو گئی، شہباز بہترین چوائس ثابت ہونگے
Jul 31, 2017