ٹی وی ڈرامہ سیریل ”یس منسٹر“ کی پہلی قسط کے مشترکہ مصنف انطونی جے اورجوناتھن لینن تھے۔ اس قسط میں پال کلارک ایڈنگسٹن نامی اداکار ایک وزیر کی کوششوں کے بارے میں دکھاتا ہے کہ وہ کیسے محکمانہ تبدیلیاں لانے اور اس کیلئے قانون سازی کی جدوجہد کرتا ہے اور پھر کیسے اس کی کوششوں کو مقابلتاً ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے۔ میں اس ڈرامے کو حیرت انگیز طور پر اپنے حالات پر منطبق پاتا ہوں۔
مذکورہ ڈرامے کی یہ قسط ہمارے سیاسی اور انتظامی سسٹم کی مکمل عکاسی کرتی ہے۔نئے وزیراعظم کیلئے کاروبار مملکت چلانے کیلئے بیورو کریسی کو راضی رکھنا چیلنج ہو گا۔ پاک انتظامی سسٹم، معروضی بنیادوں پر چلنے کے بجائے موضوعی بنیادوں پراستوار ہے۔ حالانکہ آئین موجود ہے۔ اس میں انتظامیہ کے بارے میں مکمل ہدایات موجود ہیں‘ لیکن بدقسمتی سے اسے معروضی کی بجائے موضوعی بنا دیا گیا ہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نوکر شاہی فرد واحد چیف ایگزیکٹو کی باندی بن کررہ گئی، اب دیکھتے ہیں کہ نئے وزیراعظم، نوکر شاہی کی ماہیئت قلبی کیسے بدلتے ہیں۔ خصوصاً اس صورت میں کہ اُنکے تازہ پالیسی بیانات اور پارٹی منشور میں کئی تضادات پائے جاتے ہیں۔ یہ تو تاریخی حقیقت ہے کہ کوئی بھی ملک ہو، وزیراعظم اپنی ہی بیورو کریسی مثلاً پرنسپل سیکرٹری اور چندا یک وفاقی سیکرٹریوں کے ہاتھوں یرغمال بن کر رہ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ اپنے باس اور سسٹم سے بھی زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ نئے وزیراعظم کے ساتھ بھی یہی ہاتھ ہو گا۔ اُسے ابتدائی بریفنگز میں نام نہاد خدشات سے اتنا خوفزدہ کر دیا جائےگا کہ اسکے اپنے پروگرام دھرے رہے جائینگے۔ ہر وزیراعظم کے ساتھ ایسا ہی ہوتا آیا ہے۔ پھر جب باس (وزیر اعظم) پر بُرا وقت آتا ہے تو یہی پرنسپل سیکرٹری اس کے خلاف پہلا سلطانی (وعدہ معاف) گواہ بن جاتا ہے۔ فی الحال ہمیں یہ جاننے کیلئے انتظار کرنا پڑیگاکہ نیا وزیراعظم بیورو کریسی کا سٹیٹس کو توڑ بھی پاتے ہیں یا نہیں اور قانون کی حکمرانی قائم کرنے کیلئے کون سی مﺅثر اور صاف ستھری ٹیم لاتے ہیں۔ ملک کو پہلا اور سب سے بڑا چیلنج معیشت کی ابتری ہے۔ عمومی طور پر پہلی بریفنگ میں اس امر کی کئی وجوہات بتائی جائیں گی۔ وزیراعظم کو قائل کرنے کی کوشش کی جائےگی کہ آئی ایم ایف اور عالمی بنک سے مزید قرضے لئے بغیر گزارا نہیں‘ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُس کا اپنا ہی وزیر خزانہ مزید قرضوں کے حق میں دلائل دینے لگے گا۔ اب یہ اُن(وزیراعظم) پر منحصر ہے کہ وہ مزید غیر ملکی قرضے لینے کا فیصلہ کرتے ہیں یا ترکی کے صدر کی طرح معیشت کو مضبوط کرنے کیلئے متبادل ذرائع تلاش کرتے ہیں۔ جنہوںنے صفر بیرونی قرضوں کے بغیر ملکی معیشت کو خود کفالت کی راہ پر گامزن کر دیا۔ میری رائے میں وزیراعظم، ”یس پرائم منسٹر“ پر انحصار کرنے کی بجائے توقع ہے کہ وہ غیر ملکی قرضوں کے سرطان سے‘ جس نے ملک کی ترقی کو مفلوج کر رکھا ہے، نجات پانے کیلئے ترکی کی فنانشل ٹیم کے کسی رُکن سے مدد کی درخواست کرینگے۔ وزیر اعظم ہاﺅس پر کسی خصوصی چھوٹی کاٹیج میں رہنے کو ترجیح دینے سے پاکستان جدید اور خوشحال ملک میں نہیں تبدیل ہو جائیگا۔ عوام کو اس سے غرض نہیں کہ اُن کا وزیر اعظم کہاں رہتا ہے‘ البتہ وہ یہ ضرور دیکھ رہے ہیں کہ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے اُنکے وزیراعظم کا وژن کیا ہے۔ وزیر اعظم کو ضرورت ہے کہ ”یس منسٹر“ قسم کے بیورو کریٹس اور مشیروں سے جان چھڑائیں۔ قوم قرضوں سے پاک ملک چاہتی ہے۔ یہ اُسکی سر دردی نہیں کہ اُن کا وزیراعظم رات کو ایوان وزیراعظم میں سوتا ہے یا کسی جھگی میں۔ ایسی باتیں سستی شہرت حاصل کرنے کے زمرے میں آتی ہیں۔ نئے وزیراعظم کو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ چونکہ وہ اپنے منشور میں کئے گئے بہت سے وعدے پورے نہیں کر پائے گا اس لئے اسے وفاق اور پنجاب کی اسمبلیوں میں اپوزیشن آڑے ہاتھوں لے گی۔”یس منسٹر برانڈ“ نے جس سیکٹر کو بری طرح تباہ کیا ہے‘ وہ ہے توانائی کا شعبہ۔ وزیراعظم کے توانائی کے بحران کے خاتمے کے دعوﺅں کا کیا ہوا؟ توانائی کا بحران مزید گمبھیر ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔
قبل ازیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ آج کے دور میں جب دنیا گلوبل ویلیج کی صورت اختیار کر چکی ہے اور ملک کو آئے روز نئے نئے چیلنجز درپیش ہیں‘ پاکستان پانچ سال تک وزیرخارجہ اور خارجہ پالیسی سے محروم رہا۔ جارحانہ خارجہ پالیسی اختیار کرتے ہوئے اس میں ریڈیکل تبدیلیاں نئے وزیراعظم اور ان کی کابینہ کی کامیابی کا ثبوت ہوگا۔
بھارت اور پاکستان کے درمیان سفارتی‘ عسکری اور سیاسی محاذ پر باہمی تعلقات ہمیشہ کشیدہ رہے ہیں۔ حالانکہ دونوں ملکوں کے عوام باہم تعلقات کو مضبوط بنانے کے خواہاں ہیں‘ اس لئے کہ دونوں ملکوں کے عوام یکساں کلچر اور روایات کے حامل ہیں۔ اگر نئی حکومت نے مخلصانہ کوششوں سے دونوں کے درمیان تعلقات بہتر بنا لئے تو یہ اسکی خارجہ پالیسی کی بڑی کامیابی ہوگی۔ دونوں ملکوں میں پائیدار امن کیلئے کئی اقدامات کرنا ہونگے‘ مثلاً پاکستان میں جمہوریت مستحکم کی جائے‘ اقتصادی تعلقات بہتر بنائے جائیں‘ ہر قسم کی بشمول ریاستی دہشتگردی کو کچل دیا جائے۔ دونوں ملک جنگ بندی کی خلاف ورزیاں ختم کر دیں‘ ایٹمی اور میزائل دوڑ بند کر دی جائے کیونکہ یہ بہت مہنگی‘ خطرناک اور اقتصادی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ طویل‘ پائیدار دوستی کی راہ ہموار کرنے کی ابتدا سماجی‘ ثقافتی اور سیاسی مذاکرات عمل سے کی جائے۔ مسئلہ کشمیر اور انتہاپسند تنظیموں کے مسئلے‘ وزیراعظم سے بھرپور کوششوں کے متقاضی ہیں‘ اس ضمن میں اگر وزیراعظم نے اپنی کشمیر پالیسی بنانے کی بجائے بھارتی روڈ میپ کو اختیار کیا تو اس سے کشمیری کہیں کے نہیں رہیں گے۔ مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کیلئے سیاست سے بالا ہوکر اور بین الاقوامی سطح پر بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ صرف اسی طرح ہی حق خودارادیت کی قراداد کا نفاذ ممکن ہو سکتا ہے۔ کشمیری اب ”یس پرائم منسٹر پالیسی“ نہیں چاہتے‘ وہ ایسی پالیسی چاہتے ہیں جو جنگی مجرم وزیراعظم مودی کیلئے زبردست جھٹکا ثابت ہو۔
نئے وزیراعظم چین سے یقین دہانی حاصل کریں کہ وہ سی پیک کے ضمن میں 62 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کو یقینی بنائے گاکیونکہ یہ منصوبہ بیس کروڑ سے زائد آبادی کے ملک پاکستان کی ترقی کیلئے انتہائی ضروری بلکہ ناگزیر ہے۔ پاکستان دشمن بیرونی قوتوں نے ہمیں عالمی سطح پر سیاسی طورپر تنہا کر دیا ہے۔ پاکستان‘ بھارت کی سرکردگی میں چلائے جانے والے اس بین الاقوامی دشمنانہ پراپیگنڈا کا منہ توڑ جواب دینے سے قاصر رہا ہے۔ اس مذموم پراپیگنڈے نے ہی ہمیں ایف اے ایف ٹی کی فہرست میں ڈالا ہے۔ نئے وزیراعظم کے سامنے پاکستان کو ایف اے ایف ٹی کی گرے لسٹ سے جلد از جلد نکالنا ایک بہت بڑی مہم ہوگی۔ اسی طرح دہشت گردی کا مسئلہ ہے جس کا المناک مظاہرہ حالیہ انتخابات میں ہوا۔ 18 ویں ترمیم کے تحت لاءاینڈ آرڈر صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ 18 ویں ترمیم میں بعض سیاسی و انتظامی شعبوں کے حوالے سے بھاری تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
آبی قلت کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس بحران سے نمٹنے کیلئے بھی وزیراعظم کو جلد از جلد کچھ نہ کچھ کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر ایک عالمی رپورٹ کے مطابق 2025ءتک پاکستان ”خشک“ ہو جائےگا۔ سول حکومت اور مسلح افواج کے درمیان طاقت کا توازن‘ ایک اور بہت بڑا چیلنج ہوگا۔ اسی طرح پاکستان میں منشیات اور اس کی سمگلنگ بہت بڑا مسئلہ ہے۔ منشیات کے عادی افراد کی تعداد 76 لاکھ ہے‘ اس تعدداد کا 22% لڑکیاں اور خواتین ہیں۔ منشیات کی پیداوار اور اسکی پراسیسنگ کا سارا کام افغانستان میں ہوتا ہے‘ جہاں سے اسے پاکستان سمگل کیا جاتا ہے۔ پریشان کن امر یہ کہ نوجوان طبقہ( 24 سال سے کم عمر) تیزی سے اس لت میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے۔ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان پر منشیات کا عذاب افغانستان سے آیا۔ نئے وزیراعظم کے سامنے یہ بھی ایک چیلنج ہوگا کہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کو خراب بھی نہ ہونے دے اور منشیات کے سمگلروں اور گروپوں کے نیٹ ورک کو بھی توڑ دے۔( ترجمہ و تلخیص: حفیظ الرحمن قریشی)
”یس منسٹر“ مارکہ بیورو کریسی اور نیا وزیراعظم
Jul 31, 2018