تاریخ کے جھروکوں سے ! .... (3)

Jul 31, 2018

شکست کابدلہ لینے کےلئے 1192ءمیں ایک بار پھر حملہ آور ہوا۔ اب کے حالات خاصے سازگار تھے۔ اس عرصے میں رائے پتھورا ایک غلطی کر بیٹھا اس نے قریبی ریاست کے والی جے پال کی لڑکی سنجوگتا کو بھرے سوئمبر سے اٹھا لیا۔ ایک اعتبار سے اس کاجواز بھی بنتا تھا۔
سوئمبر میں جے پال نے اس کا بت بنا کر دربانوں کی جگہ کھڑا کر دیا۔ تمام راجوں مہاراجوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسکی سپتری نے مالا بت کے گلے میں ڈال دی۔ حاضرین دریائے حیرت میں ڈوب گئے۔ اسی لمحے پرتھوی راج سوسواروں کی معیت میں نمودار ہوا اور ایک نعرہ مستانہ کے ساتھ سنجوگتا کو گھوڑے پر بٹھا لیا۔ جس عزم و ہمت کا مظاہرہ رائے نے اس وقت کیا، اتنی ہی بہادری کے ساتھ وہ غوری کے ساتھ لڑا۔ اسکی موت کی خبر سنتے ہی سنجوگتا نے اپنا نرم و نازک جسم اگنی ماتا کے سپرد کر دیا۔ہندوستان میں بے شمار رومانوی داستانیں اور قصے کہانیاں لکھی گئی ہیں۔ ان میں کوئی قصہ بھی اتنارنگین نہیں ہے۔ مغلوںکی آمد سے قبل بھی ہندوستان پر کئی مسلمان بادشاہوں نے حکومت کی سلطان التمش، رضیہ سلطانہ، قطب الدین ایبک، اس نے چند ایسے اقدامات کئے جو مستقبل میں شاید ٹھیک ہوتے، اپنے وقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے تھے۔ اس وقت بھی ایک محمد تغلق پیدا ہوگیا ہے۔ لیکن اس کا ذکر ہم مناسب وقت پر کرینگے۔ اگر مرزا عظیم بیگ نہ لکھتے۔ گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں، تو بھی ہمیں علم تھاکہ قطب الدین ایبک گھوڑے سے گر کر مرا تھا۔ چوگان کھیلتے ہوئے وہ توازن قائم نہ رکھ سکا۔ رضیہ سلطانہ نے اپنے حبشی غلام یاقوت کے ساتھ شادی کرلی۔ اسی واقعہ سے ایک حقیقت کھل کر سامنے آ گئی۔ عشق کا جذبہ ذات پات، دین دھرم، نسل سے ماوراہے۔
فرغانہ کے حاکم بابر نے جب ہندوستان پر حملہ کیا تو اسے یقین تھا کہ وہ اور اس کا خاندان ایک طویل عرصہ تک ہندوستان پر حکومت کریگا۔ گو افیون کا رسیا تھا (جس کو وہ تزک بابری میں معجون کہتا ہے) مگر نڈر اور بیدار مغز حکمران تھا۔ قلعے کی دیوار پر دو آدمیوں کو بغل میں دبا کر دوڑتا تھا۔ بد قسمتی سے وارث تخت اکثر بیمار رہتا تھا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ سے اس نے جو دعائیں مانگیں ان میں اپنی عمر عزیز کا کچھ حصہ ہمایوں کے نام کر دیا۔ اسے زندگی میں جس بات کا اندیشہ رہا وہ بالآخر ہو کر رہی۔ کہتے ہیں کہ ایک دعوت میں اس نے ایک شخص کو دیکھا جو بکرے کا گوشت چھری کی بجائے خنجر سے کاٹ کر کھا رہا تھا۔ اس نے میزبان سے پوچھا۔ یہ شخص کون ہے میزبان بولا۔ یہ ایک چھوٹی سی جاگیر کا مالک ہے۔ اس پر بابر ترنت بولا یہ معمولی انسان نہیں ہے، نہایت خطرناک شخص ہے، اس کو گرفتار کر لیا جائے۔ شیر شاہ نے اُس کا لب و لہجہ بھانپ لیا اور چپکے سے کھسک گیا۔
بابر کی موت کے بعد ہمایوں کو شیر شاہ کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ وہ بھاگ کر ایران چلا گیا۔ شیر شاہ سوری ایک بیدار مغز حکمران تھا۔ جتنا تعمیری کام اس نے چند سالوں میں کیا اتنا تو مغل کئی سو سالوں میں بھی نہ کر سکے۔ پشاور سے کلکتہ تک شاہراہ ڈاک کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا مسافروں کیلئے سرائیں۔ امن عام کی بحالی، چور اور ڈاکو الامان و الحفیظ کہتے سنائی دیئے۔ سرکاری اہلکار رشوت کے تصور سے ہی کانپنے لگتے۔ ہمایاں کی قسمت اچھی تھی یا اہل ہند کی بدقسمتی، وہ زیادہ دیر زندہ نہ رہا۔ وگرنہ ہندوستان کی تاریخ کسی اور ڈھنگ سے لکھی جاتی۔ ہمایوں کی شخصیت کا جائزہ ایک انگریز مورخ نے چند جملوں میں کر ڈالا ہے۔ وہ رقم طراز ہے۔
if there was any opportunity of failing, humayoun was not the man to miss it. he tumbledinto life and he tumbled out of it.
-14 اکبر کو مغل اعظم کہا جاتا ہے۔ یہ اعزاز اسے ہندوو¿ں نے بخشا تھا۔ کیونکہ جودھا بائی مہابلی کی منکوحہ تھی۔ ان پڑھ تو تھا ہی ہندوو¿ں کی انگیخت پر ایک نئے مذہب ”دین الہیٰ“ کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی۔ تمام مورخین اس بات پر متفق ہیں، ہندوستان میں اسلام بادشاہوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اکابرین دین کی تعلیمات سے پھیلا۔
............................ (باقی آئندہ)

مجدد الف ثانی، نظام الدین اولیا، خواجہ اجمیرؒ، سید علی ہمدانی، سید علی ہجویری داتا گنج بخشؒ اور بے شمار علمائے دین۔ انہوں نے اپنے کردار سے عمل سے لوگوں کو دین مبین کی طرف راغب کیا۔ بادشاہوں بالخصوص مغلوں نے (اورنگ زیب کے استثنیٰ کے ساتھ) اسلام کو نقصان پہنچایا ایک تو یہ ہندوو¿ں کی خوشنودی چاہتے تھے پھر انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہ تھی کہ غریب آدمی جوق در جوق مسلمان ہوں۔ یہ لوگ لمحہ موجود پر یقین رکھتے تھے۔ انہیں اپنی شاہی سے غرض تھی۔ ”کیڑے مکوڑوں“ کو مسلمان کر کے انہیں کچھ مادی مفاد حاصل نہ ہو سکتا تھا۔ ان میں کچھ نے ہندو عورتوں سے شادی کر رکھی تھی اور بعض ان کے بطن سے پیدا ہوئے جودھا بائی اکبر کی بیوی تھی تو جہانگیر کی ماما تھی۔ ایک ہندو ماں کی گود میں پل کر کوئی شخص کتنا مذہبی ہو سکتا ہے؟ پھر یہ واحد خاندان ہے جس میں بیٹے باپ سے تخت کے حصول کے لئے برسر پیکار ہوئے۔ جہانگیر نے اکبر کے ساتھ یدھ کیا۔ شاہ جہان اپنے باپ جہانگیر کے خلاف صف آرا ہو ا، اورنگ زیب نے ۔ بھائیوں کو ختم کرکے۔ باپ کو قلعے میں قید کر دیا۔ شکی اس قدر تھا کہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو نظر بند کر دیا۔ اس کے خیال میں وہ بغاوت پر اُتر آئے تھے۔ مذہبی تھا، ساری عمر حج کرنے کی خواہش رہی مگر کر نہ سکا۔ اس کی بیٹی زیب النسا مخفی نے علم وادب میں بڑا نام پیدا کیا۔ خود شاعرہ تھی موزوں شعر بروقت اور برمحل کہتی۔ عاقل خان گورنر کابل سے اسے محبت تھی۔ وہ کسی وجہ سے استعفیٰ دیکر واپس آگیا۔ ایک دن وہ گھوڑے پر سوار محل کے پاس سے گزر رہا تھا کہ اچانک چھت پر کھڑی زیب النساءکی نظر اُس پر پڑی۔ تاسف بھرے لہجے میں بولی۔ شنیدم ترک خدمت کرد عاقل خاں زنادانی ۔اس پر وہ ترنت بولا چناں کارکُند عاقل کہ باز آئد پشیمانی۔ عاقل خان کا یہ جملہ ضرب المثل ہو گیا۔
اگر یہ کہا جائے مغلوں میں سب سے زیادہ نکما نکھد اور نکھٹو حکمران کون تھا تو بلا خوف تردید جہانگیر کا نام لیا جا سکتا ہے۔ امتیاز علی تاج نے ڈرامے انارکلی، میں اسے تیمور کی نامرد اولاد کہا تھا۔ انارکلی کا قصہ فرضی تھا یا حقیقی اس سے ایک بات ضرور عیاں ہو جاتی ہے۔ اکبر کا یہ لاڈلا بیٹا ہر گل رعناپہ نواسنج نظر آتا اور ہر نرگس شہید کا بیمار۔ مینا بازار اسی کے ذہن نے ایجاد کیا تھا۔ وہاں ہر قسم کی قمریاں، بلبلیں، عندلیبیں چہچہاتی رہتیں۔ کم سنی کے باوصف یہ وہاں مشروں کے بیل کی طرح دندناتا رہتا۔ نور جہان کے ہاتھ سے کبوتر کیا اڑا ساتھ کھلنڈرے شہزادے کے ہوش بھی اڑا کر لے گیا۔ بارایں ہمہ اس کے نام کے گرد ایک رومانوی ہالہ سا بُن دیا گیا ہے۔ ہمارے مورخین نے عدل جہانگیری کے قصے بڑے خشوع وضوع کے ساتھ بیان کئے ہیں۔ انہیں پڑھکر جی چاہتا ہے کہ انصاف کے معنی بدل دئے جائیں۔ جہانگیر کے عدل کا پہلا شکار نورجہان کا خاوند شیرافگن ہوا۔ ایک جنگ میں وہ مارا گیا یا مروا دیا گیا۔ دوسرا وہ دھوبی والا قصہ بھی بڑا ”دھوبہ“ قسم کا ہے ۔اس سے جہانگیر کا عدل کم اور دھوبن کی فراست زیادہ نظر آتی ہے گھاٹ پر کپڑے دھوتے ہوئے دھوبی کی نظر ملکہ عالیہ پر پڑجاتی ہے۔ محل کی منڈیر پر ملکہ کا بال خشک کرنا بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔ غصے میں وہ اصلی تیر چلاتی ہے جو دھوبی کے جگر کے پار ہو جاتا ہے۔ انصاف پسند بادشاہ ملکہ کے لئے سزائے موت تجویز کرتا ہے ۔اہل دربار پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے اور زیرک دھوبن ملکہ کو معاف کر دیتی ہے۔ دھوبن کو اس بات کا ادراک تھا کہ خاوند کے ساتھ سارا خاندان پر لوک سدھار سکتا ہے۔ اس قسم کے پیشہ ور مورخ ہر دربار سے منسلک ہوتے تھے۔ جو فرضی قصے گھڑ کے ظل سُبحانی کی شان بڑھاتے رہتے تھے۔
شاہ جہاں کو انجینئر بادشاہ بھی کہتے ہیں۔ اس کے دو ہی مشاغل تھے‘ محلات بنوانا اور بچے پیدا کرنا۔ غالباً 17ویں بچے کی پیدائش پر ملکہ ممتاز محل جانبر نہ ہو سکی۔ سوگوار خاوند نے اس کی یاد میں تاج محل بنوا دیا ،جو مرجع خلائق ہے۔ ایک مقبرہ وہ اپنے لئے بھی بنوانا چاہتا تھا مگر اس کے فرزند اورنگزیب نے مہلت نہ دی اور ابا حضور کو آگرے کے قلعے میں قید کر دیا۔ تنہائی سے تنگ آکر ایک دن اس نے درخواست کی کہ کچھ بچوں کو بھیج دیا جائے تاکہ انہیں پڑھا کر تنہائی کا کرب کم کر سکے۔ اس پر بیٹا بولا۔ ابھی تک ظلِ سبحانی میں خوئے حکمرانی نہیں گئی! وہ ممتاز محل کے مقبرے کی طرف منہ کرکے اکثر فریاد کرتا۔ نیک بخت! اپنی کوکھ سے ایسی ناخلف اولاد کو ہی جنم دینا تھا؟
اورنگزیب گو مذہبی شخص تھا‘ لیکن ساری زندگی شکوک و شبہات کا شکار رہا۔ وہ کبھی بھی ماضی سے پیچھا نہ چھڑا سکا۔ یہی وجہ تھی کہ اس نے اپنے جانشین کی تربیت نہ کی۔ اس کی سخت گیری اور جامد خیالات کی وجہ سے چار سو بغاوتوں نے سر اٹھایا۔ بیجا پور‘ گولکنڈہ اور مرہٹوں نے علم بغاوت بلند کر دیا۔ اس کی وفات کے بعد بتدریج خاندان کا زوال شروع ہو گیا۔ جانشین نہ صرف نااہل تھے بلکہ عیش کی زندگی گزارنے لگے۔ دراصل جب سلاطین ”ایں دفتر بے معنی غُرق مے ناب اولیٰ“ کا ورد کرنے لگیں اور غینم کی یلغار پر بھی ”ہنوز دلی دور است“ کہہ کر اپنے آپ کو طفل تسلیاں دیں تو پھر ذلت اور رسوائی اس خاندان کا مقدر بن جاتی ہے۔ بہادر شاہ ظفر آخری حکمران تھا۔ جس طرح مٹھی بھر انگریز مچھیروں نے ہندوستان جیسے بڑے ملک پر قبضہ کیا‘ وہ تاریخ کا عبرت کا المناک باب ہے۔ اگر ہندوستانی متحد ہوکر ایک پھونک ہی مار دیتے تو غاصب برطانوی فوجیں بحرہند میں جاگرتیں مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اہل ہند کی باہمی مناقشوں‘ نفرتوں اور خودغرضی نے سارے ملک کو محکوم بنا ڈالا۔ بہادر شاہ ظفر شعر و شاعری کا رسیا تھا۔ ذوق اور غالب اس کے مصاحب تھے۔ ذوق کو تو استاد شاہ ہونے کا شرف حاصل تھا۔ مرزا شاہ کا مصاحب ہونے پر ہی اترائے رہتے تھے۔ اگر وہ سہرا نہ لکھتے تو بھی دونوں شعراءمیں چشمک قدرتی امر تھی۔ ایک اقلیم میں دو بادشاہ تو شاید رہ جائیں مگر تنگ نائے غزل میں دو شاعر نہیں سما سکتے۔ ان میں کون بڑا شاعر تھا؟ اس میں تو اب دو آراءنہیں تھیں۔ وہ بارہ خوار جو ولایت کے مقام تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا تھا‘ اس کا مقابلہ ذوق کے بس کی بات نہ تھی۔ غالب نے معذرت نامہ ذوق کی شعری برتری کی وجہ سے نہ لکھا‘ اس کی وجہ مجبوری حالات تھی۔ استاد شاہ سے پرخاش مہنگی پڑ سکتی تھی۔ باایں ہمہ معافی مانگتے مانگتے بھی ڈنڈی مار گیا۔ روئے سخن کسی کی طرف ہو تو روسیاہ۔ ذوق نے شاہ کے حضور دست بستہ عرض کی۔ حضور مرزا نے معافی نہیں مانگی۔ میری ٹانگ کھینچی ہے۔ بہادر شاہ کچھ سمجھتے ہوئے کچھ نہ سمجھتے ہوئے مسکرا دیا۔ 1857ءکی جنگ نہ تو Mutiny تھی نہ جنگ آزادی، اسے Upheavel کہا کہا جا سکتا ہے۔ شاہ کو معزول کرکے رنگون بھیج دیا گیا۔ غالب کو بھی سزا ہو جانی تھی۔ وہ محض اپنی حس مزاح کی وجہ سے بری ہو گیا۔ جب کلکتہ میں انگریز مجسٹریٹ نے اس کا مذہب پوچھا تو بولا ”آدھا مسلمان اور آدھا کافر ہوں۔“ وہ کیسے؟ منصف نے حیران ہوکر پوچھا؟ حضور شراب پیتا ہوں‘ خنزیر کا گوشت نہیں کھاتا۔ عدالت کشت زعفران بن گئی۔
انگریز نے سو برس تک حکومت کی۔ اس میں کمپنی کا دور شامل نہیں ہے۔ نظام حکومت ٹھیک چل رہا تھا۔ دو عالمی جنگوں نے اہل ہند کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور آزادی کی تحریک شروع ہو گئی۔ جیسے جیسے تحریک نے زور پکڑا اور انگریز کی گرفت کمزور پڑنے لگی تو ایک نئے قضیے نے سر اٹھایا۔ مسلمان ہندوﺅں کے ساتھ مل کر رہتے ہیں۔ خطرہ محسوس کرنے لگے۔ انہیں اس امر کا بخوبی علم تھا کہ اکثریت کے بل بوتے پر ہندو انہیں بنیادی حقوق سے بھی محروم کردیں گے۔ انہوں نے متناسب نمائندگی کا مطالبہ کرکے بقائے باہمی کا بہترین فارمولا پیش کیا۔ ہندوﺅں نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا۔ بالآخر ہندو ذہن کو پڑھتے ہوئے انہوں نے 1940ءمیں ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کر دیا۔ شروع میں ہندوﺅں نے اس تجویز کا بڑا تمسخر اڑایا۔ اسے مجذوب کی بڑ اور دیوانے کا خواب کہا۔ انہوں نے چند مسلمان علماءکو بھی اپنا ہم خیال بنا دیا۔ ان میں مولانا ابوالکلام آزاد اورمولانا حسین احمد مدنی پیش پیش تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی نے وطنیت پر ایک ضخیم کتاب لکھی جس کا جواب علامہ اقبال نے ایک شعر میں دیدیا
قلندر جز دو حرف لا الہ کچھ بھی نہیں رکھتا
فقیہ شہر قاروں ہے لغت ہائے حجازی کا
مولانا آزاد کو قائداعظم ”شو بوائے آف کانگریس“ کہتے تھے۔
پاکستان نے بالآخر بننا تھا‘ سو بن گیا۔ 14 اگست 1947ءکو ایک اسلامی مملکت معرض وجود میں آ گئی۔ آزادی چاندی کی طشتری میں رکھ کر پیش نہ کی گئی بلکہ ایک دریائے خوں تھا جسے عبور کرکے ہم آزادی کی منزل تک پہنچے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس عطیہ خداوندی پر ہم شکر ادا کرتے۔ ان مقاصد کے حصول کیلے کوشاں ہوتے جن کی وجہ سے یہ ملک بنا تھا۔
مگر ویسا نہ ہو سکا۔ کچھ یوں گمان ہوا کہ آسمان سے من و سلویٰ گرا ہے جس پر چیلیں‘ کو ئے اور کتے جھپٹ رہے ہیں۔ نفسانفسی کا عالم ہو گیا۔ جب لوٹ مار کا بازار گرم ہوا تو ہر کسی نے حسب استطاعت اس میں حصہ لیا۔
بدقسمتی سے قائداعظم جلد رحلت فرما گئے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہی اقتدار کی میوزیکل چیئرز کا کھیل شروع ہو گیا۔ وزیراعظم لیاقت علی خان کو گولی مار دی گئی۔ یہ ”کارنامہ“ نوکر شاہی اور پنجاب کے وڈیروں کی ملی بھگت سے سرانجام پایا۔ غلام محمد گورنر جنرل تھے ان کی کنپٹی پر پستول رکھ کر استعفیٰ لیا گیا۔ سکندر مرزا کو جرنیلوں نے لاتوں اور گھونسوں کی تواضع کے ساتھ لندن روانہ کیا۔ ایوب خان نے دس برس تک اقتدار کے مزے لوٹے۔ اسے بھی بالآخر کتا کتا کہہ کر نکالا گیا۔ یحیٰ خان نے تو حد ہی کر دی۔ اس کے مختصر دور میں ملک دولخت ہوا۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے تین کردار شیخ مجیب‘ اندرا گاندھی اور بھٹو بالآخر قتل ہوئے۔ وزیراعظم بینظیر بھی دست قاتل سے نہ بچ سکیں۔
مشرقی پنجاب کے دور افتادہ قصبہ جاتی امرا کے خاندان کے ایک فرد کا بائیس کروڑ کے ملک اور چھٹی جوہری طاقت پاکستان کا تین مرتبہ وزیر اعظم بننا (FREAK OF HISTORY) ہے۔ جو شخص گوالمنڈی کی یونین کونسل کا الیکشن ہار گیا تھا، اس کا ملک کی سب سے بڑی پارٹی کا سربراہ ہونا یقیناً بہت بڑا کارنامہ ہے۔ اس نے ذروں کو آفتاب بنا دیا ہے۔ پتھروں کو آب دیکر جوہر بنا ڈالا ہے۔ کانٹوں کو نزاکت میں گلوں کا ہم مرتبہ کر دیا ۔ اس کے دربانوں کی شان امرا سے زیادہ ہے۔ اس کے منشیوں ، مالیشیوں اور مینجروں کی سج دھج دیکھ کر انگشت حیرت دہن کی طرف لپکتی ہے۔ اس کے محض لب ہلتے ہیں تو جاہ وحشم کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ اس کی چشمِ ابرو کے اشارے سے گدائے بے نوا شاہ بن جاتے ہیں۔ وزیراعظم ہاﺅس محض ایک مکانِ طلسم ہوشربا ہے۔ کھل جا سم ، سم ۔ چار سو موسیقی کی لہریں اُٹھتی ہیں۔ درودیوار نغمہ سنج ہوتے ہیں۔ ایرانی قالین والی ٹو وال، اٹلی سے درآمد شدہ شینڈ لیئر اطلس و کمخواب کے پردوں سے مزین گھر میں کوئی مہاراج ادھیراج نہیں بلکہ میاں محمد نوازشریف رہتا ہے۔
میاں صاحب نے ترقی کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے ہیں۔ ایک کارخانے کی کوکھ سے بائیس ملوں نے جنم لیا ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا محل نہیں ہے جو جاتی امرا کی کمر تک بھی پہنچتا ہو۔ میاں صاحب نے عجب شوق پال رکھے ہیں۔ بیک وقت بندہِ صحرا بھی ہیں اور مردکوہستانی بھی! جب وزیر اعظم تھے تو ہر چوتھے روز چولستان کی سیر کو جاتے تھے۔ شکار تو محض ایک بہانہ تھا۔ صحرا میں شامیانے اور قناتیں لگ جاتیں۔ صبح اُٹھ کر صحرا کے سمندر سے اُبھرتے ہوئے خورشید کا نظارہ کرتے۔ کوہ مری میں سب سے خوبصورت محل ان کا ہے۔ اس کی تعمیر سے پہلے گورنر ہاﺅس اس کا دعویدار تھا۔ جتنے دن اسلام آباد میں قیام ہوتا، شام کو مری تشریف لے جاتے۔ ہفتے میں دو دن جاتی امرا کے لئے مختص تھے۔
خوش قسمت اس قدر کہ جب بھی ملک ناکام ریاست کی سمت بڑھتا ہے یہ فارغ کر دئیے جاتے ہیں۔ ایٹمی دھماکے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر ایک بلین ڈالر رہ گئے تھے۔ پرویز مشرف نے ان کی کلائی مروڑ دی۔ جلا وطنی کے دلوں میں اکثر احباب کو بتاتے تھے کہ ملک ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا کہ جرنیل نے رخنہ ڈال دیا۔ ایٹم بم بنانے کا کریڈٹ بھی اپنے کھاتے میں ڈالتے ہیں۔ کلنٹن نے چھ ارب ڈالر کی پیشکش کی جو میں نے ٹھکرا دی۔
ایٹم بم جس جس نے بنایا، اس کا سب کوعلم ہے۔ چلانے والی بات البتہ محل نظرہے۔ کیا یہ دھماکہ روک سکتے تھے؟ نظامی صاحب نے کہا تھا میاں صاحب بم نہ چلانے کی صورت میں آپ کا دھماکہ ہو جائے گا! وہ لوگ جن کے پاس اس کا کنٹرول ہے انہیں میاں صاحب کی اجازت کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ یہ ملکی بقا کا مسئلہ تھا اور مقتدر قوتوں کو ادراک ہوتا ہے کہ کس وقت کیا کرنا ہے۔ اب جبکہ یہ غالباً آخری مرتبہ فارغ کر دئیے گئے ہیں تو ملکی میعشت کی زبوں حالی صاف نظر آ رہی ہے۔ قوم قرضوں کے بوجھ تلے دب چکی ہے۔ آئندہ جو حکومت بھی آئے گی، اس کے لیے معاشی مشکلات کا ایک پہاڑ کھڑا ہو گا۔
میاں صاحب پر دورِ ابتلا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مشکلیں آسان کرے! بظاہر انہیں ایک طویل قانونی جنگ لڑنا پڑے گی۔ گزشتہ تین برسوں میں انہوں نے جو NET WORK قائم کیا ہے اس کو اُدھیڑنا آسان نہیں ہو گا۔ بالفرض عمران خان اقتدار میں آ بھی جاتاہے تو اسے مشکلات کا روز اول سے ہی اندازہ ہو جائے گا۔ سزا کی صورت میں انہیں زیادہ دیر تک جیل میں رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ پرویزمشرف نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی انہیں باہر بھیجا تھا۔ ہارون رشید صاحب نے عمران کو ”ون ٹائم پرائم منسٹر“ کہا ہے ، جس قسم کا خان کا مزاج ہے جو معروضی حالات ہیں، اس میں تو ”ہاف ٹائم پرائم منسٹر“ کا گمان ہوتا ہے۔

مزیدخبریں