”یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے“

مکرمی ! 25جولائی کو ٹکرانے والے سونامی نے کیا مولانا فضل الرحمن، کیا غلام احمد بلور کیا سراج الحق کیا چوہدری نثار کیا امیر مقام اور کیا عابد شیر علی تقریباً تمام بڑے بڑے برج الٹا کر رکھ دئیے ہیں پی ٹی آئی کی اس تاریخی فتح پر جہاں تحریک انصاف کے دالانوں میں خوشی کے شادیانے بج رہے ہیں صاف نظر آ رہا ہے کہ خان صاحب کی وہ تمام تر امیدیں اور منتیں مراد بس برآنے کو ہیں جس کے لئے انہوں نے کم و بیش بائیس سال کا عرصہ اس عنائے بے تاب کی آگ میں سلگتے ہوئے گزارا کہ ”پاکستان کا وزیراعظم بننا ہے“ اب جبکہ خان صاحب ان کی ٹیم ایک ڈیڑھ ہفتے تک زمام اقتدار سنبھالنے کو ہے سو اس حوالے سے ان پر بہت بڑی اور اہم ذمے داری عائد ہوتی ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ مادر وطن کو در پیش کڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے کیا حکمت عملی وضع کرتے ہیں سوال تو یہ بھی اٹھے گا کہ وہ جس تبدیلی کی بات کرتے رہے ہیں باہم جس نئے پاکستان کی بنیاد رکھنے کی نوید سناتے رہے ہیں اس میں حقیقت کے رنگ بھرنے کےلئے کیا انہی کھوٹے سکوں اور فصلی بٹیروں پر انحصار کریں گے جو ہواﺅں کے رخ پر اڑانیں بھرتے ہوئے تحریک انصاف کی منڈیر پر آن بیٹھے ہیں۔ بقول شاعر 
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجئے اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
(کامران نعیم صدیقی ، لاہور)

ای پیپر دی نیشن