قارئین یہ صرف نیکو کاروں پر ہی مُنحصر نہیں ہے تمام انسان سوچتے ہیں کہ آخر وہ کس طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ راہِ راست پرآ چکے ہیں؟ نیک ہیں یایہ کہ خدا اُن سے کس طرح راضی ہو سکتا ہے؟ اور اگر راضی ہے تو اُنہیں اس تسکین کا کیسے اندازہ ہو؟ یا اگر ناراض ہے تو کس طرح وہ خود کومزید نیکیوں کی طرف راغب کر کے اُس کی رضا مندی حاصل کر سکتے ہیں؟ اس سلسلے میں کہنا یہ ہے کہ اول تو نیکی کرنا اور مسلسل نیک رہنا حد درجہ مشکل عمل ہے ہر انسان لمحہ لمحہ اپنی بے معنی اور اندھی نارسا خواہشات کے ہاتھوں دل ہی دل میں حق تعالیٰ کے رحم و کرم کے ساتھ متصادم رہتا ہے تاہم اگر آپ اس پُرخار اور دشوار گزار راہ پر چل نکلے ہیں تو آپ کی متواتر نیکیوں کے بعد چند اسی باتوں کا یقیناً ظہور ہو جاتا ہے جس سے آپ اپنی نیکی کے سلسلے میں مُستعجاب محنت کا تھوڑا بہت سُراغ لگا سکتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ربِ رحیم اپنی راہ پر آنے والوں کو عفوو درگزر کی بُنیادی نعمت و صلاحیت، صبر و حوصلہ اورجبرِ ذات عطا کر دیتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو پھر اُس کے نیک بندے بھی عام لوگوں کی طرح ایک دوسرے سے سوال جواب کرنے، لڑنے جھگڑنے، اِنتقام لینے اور نیکی کے بدلے میں صلہ بٹورنے کی بدی میں اُلجھے رہتے اور دینِ حق ہم تک اصلی حالت میں نہ پہنچ پاتا لہٰذا اللہ تعالیٰ!
O ....اُسے نیکی کی توفیق دینا شروع کر دیتا ہے....نیکوکار سے جانے انجانے میں، شعوری اور لاشعوری طور پر اور گاہ بگاہ ایسے کام کروانے لگتا ہے جو قطعی طور پر راست ہوتے ہیں۔ O ....اُسکے دل میں بدی بُرائی کیلئے نفرت ڈال دیتا ہے....O ....اُسکے اندر اُس کے ضمیر کوکھڑا کر دیتا ہے جو پل پل چاہے وہ کسی محفل میں ہو یا تنہائی میں اُس کی رہنمائی شروع کر دیتا ہے اس کے کانوں کے اندر مضبوط ترین آواز اُس کے ضمیر کی ہوتی ہے جو باقی لوگوں کو سُنائی نہیں دیتی مگر اُس کے لئے وہ تمام تر دُنیاوی اور ظاہری و باہری آوازوں پر غالب آ جاتی ہے جو آہستہ آہستہ اُس سے سوال کرنا شروع کرتی ہے بلکہ جواب بھی دیتی ہے، اُس سے بحث کرتی ہے دلیل دیتی ہے اور آخرکار اُسے بدی، بدنیتی اور گناہ سے تائب کر کے حتمی نیکیوں کی طرف کھینچ کر لے جاتی ہے یُوںکہ آپ مکمل طور پر اُس بھرپور اور پُراسرار طاقت سے مغلوب ہوتے چلے جاتے ہیں جو ایک بالکل الگ تھلگ سی دُنیا آپ کے اندر رچا بسا ڈالتی ہے اور آپ اُسکے اندر داخل ہو جاتے ہیں جب ایسا ہو جاتا ہے تو یہ آپ کو باہر کی دُنیا میں فرصت نہیں دیتی، باہر کی دُنیا سے آپ کا دل اُچاٹ ہو جاتاہے مگر یہ آپ کی جُزوی جیت ہے دُنیا سے کلی طور پر دل نہ لگانے کا سلسلہ بعد میں شروع ہوتا ہے۔ جب کوئی اندر سے مُسلسل آپ کو کہے جاتا ہے کہ پُرفریب دُنیا سے بچ کر اپنے اندر کی جانب سفر شروع کر دو....O ....آپ کو کسی بھی عمل یا فیصلے کے سلسلے میں تائید یا تردید اُوپر سے موصول ہونے لگتی ہے....O ....اللہ تعالیٰ نیکی کا عمل شروع ہی اُن لوگوں سے فرماتا ہے جو لفظ اَجر اور ثمر اور صِلے وبدلے کے مفہوم سے یکسر بے خبر ہوتے ہیں قطعی طور پر ایک عالمِ معصُومیت میں وہ بدکاروں، بدنیتوں اور ذہنی تخریب کاروں کے وار سہنے کے باوجود بھی اپنی نیکی کا عمل جاری رکھتے ہیں یہاں تک کہ آزمائش کی ایک مخصوص مدت کے بعد جب اُنہیں ثمر اور اَجر کی جانکاری دی جانے لگتی ہے تو اُنہیں معصوم اور خوشگوار حیرت ہوتی ہے اور وہ سوچتے ہیں یہ سب کیا ہے؟ حالانکہ دراصل یہ وہ حساب ہوتاہے جو اُن کے نام پر آسمانوں میں خود بخود درج ہوتا چلاگیا تھا اور جس سے بندہ مکمل طور پر ناآشنا تھا میرے خیال میں یہی وہ ماورائی اور غیبی FAVOUR ہوتی ہے جو اُن کے روحانی اِرتقاءکا سبب بن جاتی ہے، مذہب سے قربت کا احساس قوی تر ہو جاتا ہے اور دعائیں مستعجاب ہونے لگتی ہیں۔ O ....نیکوکار میں ایک اہم تبدیلی یہ رونما ہوتی ہے کہ وہ مکمل اطمینان کی حالت میں آ جاتا ہے جسے روحانی سکون کہا جا سکتا ہے اُس پر دُنیاوی خوشیاں اور صدمے اپنا اثر کھو دیتے ہیں اُسے لگتا ہے وہ ہر لمحہ ایک شیشے کے گھرمیں رہ رہا ہے جس میں اس کی ہر سوچ، ہر عمل اور نیت خدا کے سامنے بے حجاب حالت میں آشکار ہے جس کی وجہ سے نہ تو وہ خود سے خُود چُھپ سکتا ہے، نہ ہی آئینے کی نظر سے بچ سکتا ہے نہ آئینہ¿ گر کے سامنے مُکر سکتا ہے اور یہی وہ احساس ہے جو اُسے بھٹکنے نہیں دیتا....O ....جس طرح چوٹ لگتے ہی فوری طور پر درد کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ چوٹ تازہ اور گرم ہوتی ہے اور کافی دیر بعد ٹھنڈی ہونے پر معلوم ہوتا ہے کہ چوٹ کہاں لگی ہے یا کتنی کاری لگی ہے بالکل اسی طرح جب آپ کسی کے ساتھ نیکی کر رہے ہوتے ہیں۔ تو آپ کو عالمِ جوش اور جذبے میں کچھ معلوم نہیں ہو پاتا کہ کس کے ساتھ نیکی کر رہے ہیں؟ کیوں کر رہے ہیں یا کتنی کر رہے ہیں؟ اس کاعلم آپ کو اُس وقت ہوتاہے جب رب رحیم کی جانب سے ایک نامعلوم انداز سے آپ پر صلے اور بدلے اُترنے لگتے ہیں۔ O ....نیکوکار کو ہر کام سے پہلے ایک پُراسرار طریقے سے رہنمائی ملنے لگتی ہے، جس کی وجہ سے وہ واضح طور پر سنبھلنے لگتا ہے ، جبکہ اُس کے مدِمقابل تخریب کار کی خاموش پکڑ شروع ہو جاتی ہے۔
بہرحال اگر آپ اپنی نیکی کی جانکاری کے سلسلے میں ان نو نکات میں سے کسی ایک بھی نقطے پر پورا اُتر رہے ہیں تو یہ تسلی کافی نہیں ہے نہ ہی کسی خوش فہمی یاگمان میں مبتلا ہونے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ ابھی آپ کی کڑی منزل کی محض الف ب ہے۔ اصل میں یہ حد درجہ مشکل رہا ہے جان طلب سفر ہے اس پر آگے بڑھنے والوں کیلئے سوائے اس تسلّی کے اور کچھ موجود نہیں ہے کہ راہ منزل ضرور رکھتی ہے لہٰذا اس سفر کو جاری رکھیئے۔ بے صبرے ہو کر اپنی منزل کھوٹی مت کریں۔ نیکی میں دوسری بڑی طمانت یہ ہے کہ اس کی جیت حتمی ہوتی ہے جبکہ بدی، بدنیتی، جھوٹ، تصنع، اور فریب سب بے ٹھکانے کے نشانے اور بے نشانے کے تِیر ہیں جو اکثر چلانے والے کی طرف پلٹ پڑتے ہیں....فرمانِ الٰہی ہے:۔ (اور سب سے ناقص عمل اُن کے ہیں جن کی ساری کوشش دُنیا کی زندگی ہی میں گم ہو گئی جبکہ وہ اِس خیال میں رہے کہ وہ نیک کام کر رہے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے رب کا مِلنا نہ مانا، اور اُن کا کیا دھرا سب اکارت گیا، روزِ قیامت اُن کیلئے کوئی تول قائم نہیں کی جائے گی“ (القرآن)
اپنی نیکی کے نتائج کا کیسے سُراغ لگایا جا سکتا ہے؟
Jul 31, 2018