لاہور (فرخ سعید خواجہ) الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے خلاف ملک کی اہم جماعتوں کے الیکشن کے محض چار روز بعد گرینڈ اپوزیشن الائنس کی شکل اختیار لینے سے پاکستان کی سیاست ایک رخ پر مڑتی نظر آتی ہے اپوزیشن جماعتوں کا اسمبلیوں میں حلف اٹھانے سے پہلے سنگل لارجسٹ پارٹی کے خلاف اتحاد اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر جماعت پی ٹی آئی کو نمبر گیم میں شکست دینے کی پوزیشن میں دکھائی نہیں دیتا لیکن یہ بات واضح ہے کہ بہت کم مارجن کی اکثریت سے بننے والی حکمران جماعت کو اپوزیشن ناکوں چنے چبوا دے گی پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے قوم کو جو خواب دکھائے ہیں اور نظام کی تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے کا جو عدہ کیا ہے اسے پورا کرنے کیلئے ان کے پاس پارلیمنٹ میں مطلوبہ طاقت نہیں ہو گی سو قانون سازی ہو یا آئینی اصلاحات کرنا ان کیلئے جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوگا یوں بھی پچھلے پانچ سال میں عمران خان اور ان کی جماعت نے جس انداز کی اپوزیشن کی اور سیاسی اختلافات کو تلخی کے بلند ترین مقام پر پہنچایا اس کا خمیازہ اب انہیں بھگتنا پڑے گا یہ درست ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی نے ماضی سے سبق سیکھا ہے جبکہ اپوزشن کی دیگر جماعتوں کے سینئر رہنما بھی جمہوریت کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں سو ان کی کوشش ہوگی کہ پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دیا جائے اور پی ٹی آئی کے دھرنے اور احتجاج کے حربوں کو جہاں تک ممکن ہو اختیار کرنے سے اجتناب برتا جائے لیکن پی ٹی آئی کے قائدین اپنی زبان پر قابو رکھنے میں مشکل ہی سے کامیاب ہوں گے اس کا لازمی نتیجہ اپوزیشن کے احتجاج کی صورت میں نکلے گا سو موجودہ حکومت کا اپنے انتخابی منشور پر عمل کرنا خاصا مشکل ثابت ہوگا صوبہ پنجاب میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت وفاق ہی کی طرح بہت تھوڑے مارجن سے قائم ہوگی اور یہاں بھی سیاسی تلخی کا ٹمپریچر کم کرکے ہی پی ٹی آئی اپنی حکومت سکون سے کر سکے گی لاہور سے جبکہ پنجاب میں بھی اپوزیشن ان کی حکومت کو خاصا ٹف ٹائم دے گی۔