مکتوبِ برطانیہ

کل گزری رات ایک عجیب سوچ میں گزری۔ شب بھر سوچتا رہا گئے زمانوں میں وسائل کم ہونے کے باوجود مسائل کیوں کم تھے۔ اندر کا فقیر بولا اسلیئے کہ اْن زمانوں میں سماجی میل جول بہت سے مسائل کو سر اٹھانے ہی نہیں دیتا تھا۔ فقیر کی بات بہت بڑے فکر کو دعوت دیگی۔ گہرائی سے دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ صحت مند معاشروں میں اسی لیئے سماجی میل جول اور میٹنگز پر زور دیا جاتا ہے کہ اسطرح جہاں مختلف طبقات کو ایک دوسرے کے مسائل سے آگاہی ہوتی ہے وہاں ایک دوسرے کیلیئے ہمدردی کے جذبات بھی ابھرتے ہیں لیکن اسکے برعکس اسے ہماری بدقسمتی کہیئے کہ ہمارے ملک پاکستان میں ایسا رْجحان بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے سوائے اْن مخصوص محفلوں کے جہاں جسم، وفا، ایمان سمیت پتا نہیں کس کس چیز کے سودے ہوتے ہیں۔ اس گھناونے بیوپار کی بنیادی وجہ تلاش کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سماجی روابط کی بنیاد کو ترجیحات کے لحاظ سے ترتیب دیا جاتا ہے جسکا حتمی انجام روائیتوں سے ہٹ کر نت نئے معاشرتی اور معاشی مسائل کا جنم ہے۔ جیسا اوپر عرض کیا کہ سماجی معاشرتی اور معاشی مسائل ہر معاشرے اور ہر ملک میں سر اْٹھاتے ہیں لیکن مہذب معاشروں میں جیسے ہی یہ مسائل سر اْٹھاتے ہیں انکو مختلف فورموں پر زیر بحث لایا جاتا ہے اور انکا مناسب حل ڈھونڈا جاتا ہے۔ اسی سباق میں پچھلے ہفتے یہاں لندن میں اسطرح کی ایک محفل میں اس خاکسار کو بھی شرکت کا موقع ملا جب یہاں لندن کے سماجی حلقوں میں خدمت خلق کے کاموں کی وجہ سے محبوبیت کے حوالے سے منفرد مقام رکھنے والے جناب نعیم عباسی نقشبندی جنھوں نے لندن میں "او پی ڈبلیو سی" کے نام سے اورسیز پاکستانیوں کو درپیش مسائل کے حل کیلئے ایک غیر سرکاری تنظیم بنا رکھی ہے نے سلاؤ کی ایک اور بہت بڑی کاروباری اور ہر دلعزیز شخصیت حاجی عابد کے ساتھ ملکر پاکستان سے آئے حکومتی سرکاری تنظیم "اورسیز پاکستان کمیشن" پنجاب کے وائس چیئرمین وسیم اختر چوہدری اور انکے رفیقِ کار ملک ندیم بارا کے اعزاز میں ایک پْرتکلف دعوت کا اہتمام کیا۔ اس تقریب کا حْسن یہ تھا کہ جہاں تقریبا مختلف کونسلوں کے چھ سے سات میئروں سمیت کوئی دو درجن منتخب کونسلرز اور دوسری سماجی شخصیات نے شرکت کی وہاں جس بات نے راقم کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ یہ کمال تھا کہ جس مقرر کو بھی خطاب کا موقع ملا اس نے اپنی سیاسی شناخت اور وابستگی سے بالاتر ہو کر مسائل کی نشاندہی اور انکے ممکنہ حل کے بارے میں بات کی اور یقین جانیئے یہی وہ اصل روح ہے جسے ایسی محفلوں کا حاصل مقصد ہونا چاہیئے۔ اس محفل میں مسائل کی نشاندہی کرتے نعیم نقشبندی کے بقول عرصہ دراز سے اپنے ملک پاکستان سے سرکاری، غیر سرکاری، رفاعی اور دیگر اداروں کی طرف سے روائتی آمد جامد اور وعدے وعید جنکا نتیجہ اکثر گْفتن شْنیدن تک ہی محدود رہتا ہے کے برعکس پچھلے کچھ عرصہ سے حکومتی سطح پر کچھ ایسے اقدامات اْٹھائے گئے ہیں جن میں سرفہرست اورسیز پاکستان کمیشن کا قیام اور پھر پاکستان کے سفارتخانے میں کچھ ایسی شخصیات کی تعیناتیاں جن میں جانے والوں میں ڈاکٹر اسرار، غلام نبی میمن اور موجودہ میں باقر رضا، دلدار اْبرؤ اور اب سب سے بڑھکر موجودہ سفیر نفیس زکریا شامل ہیں جنہیں کسی طور بھی اللہ کریم کی عطاکردہ نعمتوں سے کم گردانا نہیں جا سکتا کیونکہ انکی وجہ سے اب بیشتر مقامی مسائل کے حل کیلئے ہفتوں انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اورسیز پاکستان کمیشن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بیشک اسکے قیام کا کریڈٹ سابقہ نواز حکومت کو جاتا ہے لیکن اب جب سے پنجاب لیول پر جناب وسیم اختر چوہدری جو خود برٹش پاکستانی نیشنیلٹی رکھنے والے کامیاب بزنس مین ہیں اْنھوں نے وائس چیئرمین کا عہدہ سنبھالا ہے ؤاقعاتی شہادتیں اس امر کی گواہی دے رہی ہیں کہ یہاں پاکستانی کیمونٹی کی جو شکایات اورسیز کمیشن پنجاب کو بھیجی جا رہی ہیں انکو بڑے احسن اور مناسب وقت میں نمٹایا جا رہا ہے۔ اس تقریب میں شرکاء کی اکثریت کی طرف سے جتنے مسائل کی نشاندہی کی گئی اْن میں بیشتر کے متعلق جواب میں وسیم چوہدری نے اپنی تعیناتی سے لیکر اب تک کے عرصے میں جو قانونی اور انتظامی دشواریاں پیش آئیں انکا اور اب اس عرصہ میں لوگوں کی شکایات کے حوالے سے جو عملی اقدامات اْٹھائے گئے یا جا رہے ہیں انکا تفصیلی جائزہ پیش کیا جس میں اورسیز کمیشن کے حوالے سے قانون میں موجود سْقم کو دور کرنے کیلئے قانون سازی ، موجودہ چیف جسٹس پنجاب ہائی کورٹس جسٹس شمیم کی طرف سے اورسیز کے مقدمات کے حوالے سے ایک کل وقتی جج کی تعیناتی ، آئی جی پنجاب کی طرف سے پولیس سے متعلقہ شکایات کے حوالے سے ایک سیل کا قیام اور سب سے بڑھ کر ڈی جی ایل ڈی اے عثمان معظم کی طرف سے ایل ڈی اے میں اورسیز کی پراپرٹی کے حوالے سے ایک ڈائریکٹر کے زیر انتظام سپیشل کاؤنٹر کا قیام ہے۔ اس سباق میں یہاں لکھنے اور کہنے کو اور بہت کچھ ہے لیکن جہاں صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرونگا کہ یہاں نعیم نقشبندی اور وسیم چوہدری سمیت سب لوگوں کی نیتوں، جذبوں اور علموں میں سچائی نظر آئی وہیں میرا ضمیر مجھے قدم قدم اور بات بات پر اورسیز پاکستانیوں سے محبت اور انکی عزت کا دم بھرنے والے وزیراعظم عمران خان سے یہ سوال کرنے پر مجبور کر رہا ہے کہ ان اورسیز کو جنہیں اپکے ملک کا قانون پاکستان کا شہری تسلیم کرتا ہے کیا اس ملک کی پارلیمنٹ کا رکن بننا انکا بنیادی حق نہیں۔ اگر حق ہے تو یہ حق تلفی کہاں کا اور کونسا انصاف ہے۔ جواب بات سے نہیں عمل سے چاہیئے۔

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...