ملک کے مسائل کاایک حل تو معاشی ماہرین پیش کرتے ہیں، دوسرا حل افسر شاہی کے ذمے ہے مگر کمال کی بات ہے کہ دو بڑے مسائل کا حل ڈاکٹر محمود شوکت نے بھی پیش کر دیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان کے جینز میں اپنے دادا ملک برکت علی کی پارلیمانی، سیاسی او ر عوامی دانش حلول کر گئی ہے۔
سیلز ٹیکس پر بات شروع ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ ہر حکومت ایک ہی غلط بیانی کرتی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے، صرف چند لاکھ ٹیکس گوشوارے بھرتے ہیں اور ان کی رقم سے ملک نہیں چل سکتا جس کی وجہ سے نت نئے قرضے لینے پڑتے ہیں۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ آج اگر ملک کی آبادی بائیس کروڑ ہے تو ان میں سے ہر فردٹیکس دے رہا ہے۔ صرف سانس لینے پر ٹیکس نہیں ۔ باقی ہر چیز پر ٹیکس ہے اور یہ ٹیکس دیئے بغیر کسی شخص کو کوئی شے دستیاب نہیں ہو سکتی۔ ہر حکومت اپنی بساط کے مطابق ہر چیز پر ٹیکس عائد کرتی ہے اور یہ بنیادی طور پر سیلز ٹیکس کی شکل میں ہے۔اب قصہ یہ ہے کہ بائیس کروڑ عوام تو ٹیکس ادا کر دیتے ہیں پھر بھی انہیںمطعون کیا جاتا ہے کہ ملک میں ٹیکس کلچر نہیں جبکہ حقیقت ا سکے برعکس ہے۔ ٹیکس تو بائیس کروڑ لوگ دے رہے ہیں، حکومت کو ماننا چاہئے کہ وہ لوگوں کی جیبوں سے نکالا گیا ٹیکس خزانے تک نہیںپہنچا سکتی اور یہ ٹیکس درمیان میں کہیں ہضم کر لیا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ قصور ٹیکس اکٹھا کرنے والی مشینری کا ہے جسے ایف بی آر کہا جاتا ہے اور یہ ان کی نااہلی ہے کہ وہ عوام کی طرف سے ا دا کردہ سیلز ٹیکس کو ملکی خزانے تک نہیں پہنچا سکتے۔ یا عین ممکن ہے کہ وہ اشیا فروخت کرنے والوں کے ساتھ ملی بھگت میں شریک ہوں ۔ سیلز ٹیکس کا کچھ حصہ دکاندار کھا جاتے ہوں اور کچھ حصہ ایف بی آر کا عملہ ہڑپ کر جائے اور بہت تھوڑی رقم خزانے تک پہنچنے پائے۔ اس کے سوا اور کوئی خرابی نہیں ، اس خرابی پر قابو پا لیا جائے تو سیلز ٹیکس سارے کا سارا خزانے میں جمع ہو سکتا ہے اور یہ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد دوسرے ملکوں کو قرض دینے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے جیسا کہ وزیر اعظم عمران خان کی خواہش ہے کہ ہم قرض لینے والے نہیں۔ دینے والے بن جائیں۔سیلز ٹیکس کو جمع کرنے کے لئے ہر شخص کو نادرا کی طرف سے ایک کارڈ جاری کیا جائے کہ جونہی کوئی شخص کہیں سے بھی کوئی چیز خریدے تو بیچنے والاسیلز ٹیکس کی رقم اس کارڈ میں ڈالتا چلا جائے۔اس طرح ہر روز بلکہ ہر لمحے حکومت کو معلوم ہوتا چلا جائے گا کہ کتنا سیلز ٹیکس اکٹھا ہو گیا۔آخر لوگوںنے پورے ملک میں اپنی ضرورت کی ہر چیز خریدنی ہے اور اس پرکم و بیش سیلز ٹیکس عائد ہے تو یہ کوئی معمولی رقم نہیں ،کھربوں اور پدموں میں بنتی ہے، حکومتی مشینری اپنی نااہلی یا ملی بھگت سے یہ ، اکٹھا نہیں کر سکتی مگر ایک غلط الزام دہرائے چلی جاتی ہے کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ اس الزام کی گردان کرنے سے تو ٹیکس عوام کی طرف سے ادا کیا جانے ولا سیلز ٹیکس کسی حساب کتاب میںنہیں آ سکتا۔ اس کے لئے نادرا ایک سیلز ٹیکس کارڈ جاری کرے جس پر شہری کے شناختی کارڈ کا اندراج ہو۔ اب دکاندار کو صرف سیلز ٹیکس کی رقم اس شہری کو جاری کئے گئے کارڈ میں درج کرنا ہو گی ۔ اس کے لئے نادرا ایک ایپلی کیشن متعارف کرا سکتا ہے۔ اس وقت دنیا بھر کانظام ہر نوع کی ایپلی کیشنز کے ذریعے چل رہا ہے تو ہم یہ نظام کیوںنہیں اپنا لیتے۔ ڈرائیونگ لائسنس بھی تو بنتا ہے۔ پاسپورٹ بھی بنتا ہے، اور ان کی مدد سے حکومتی اداروں کو پتہ چل جاتا ہے کہ کس ڈرائیور کو کتنا چالان ہوا ا ور کس شخص نے کس ملک کا سفر کیاا ور سال بھر میںکتنے سفر کئے۔ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ مسائل کا حل موجود ہے ، صرف ایک عزم کی ضرورت ہے کہ ہم نے مسئلہ حل کرنا ہے۔اور یہ مسئلہ منٹوں سیکنڈوںمیں حل ہو جائے گا، باقی ٹیکس بھی اسی طرح مختلف ایپلی کیشنز کے ذریعے جمع کئے جا سکتے ہیں جن میں ایڈوانس ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، برآمدی ٹیکس، در آمدی ٹیکس یا انکم ٹیکس شامل ہیں۔آج کے دور میںکاغذ اور رسید پر کوئی انحصار نہیں کرتا ، صرف ایک چپ کے ذریعے دنیا بھر کا کاروبار ہوتا ہے تو ہم اپنا ٹیکس اکٹھا کرنے کے لئے یہ چپ کیوں استعمال نہیں کرتے۔ اس کے راستے میں ایک ہی رکاوٹ ہے اور وہ ہے کرپٹ حکومتی مشینری کی جو اپنی جیبیں بھرنے کے لئے معیشت ا ور مالیات کو دستاویزی بنانے کے لئے اپنے مفادات کی غرض سے رکاوٹ ڈالتی ہے۔ اس مشینری کو کرپشن سے پاک کرلیجئے ،حکومت کا یہ گلہ ختم ہو جائے گا کہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے یا چھپاتے ہیں یا ٹیکس کلچر کے عادی نہیں ہیں۔ ڈاکٹر محمود شوکت بے لاگ اور کھری گفتگو کے عادی ہیں۔ ان دنوں بادل خوب برس رہے ہیں اور جل تھل ایک ہو جاتا ہے۔ لوگ چیختے ہیں کہ عذاب نازل ہو گیا ہے اور ہاتھ دعا کے لئے اٹھا دیتے ہیں ، جبکہ قرآن کہتا
ہے کہ بارشیں اللہ کی رحمت ہیں ، ان سے مردہ زمین زندہ رہتی ہے اور طرح طرح کا اناج اگتا ہے۔ پھل پھول اگتے ہیں۔ اس بارش کو رحمت کی جگہ زحمت ہم نے خود بنا لیا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ دریائے نیل خشک ہوتا تھا تو مصری توہم پرست لوگ کسی دوشیزہ کو دریا کے کنارے ذبح کرتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ نیل اس خون کے صدقے اچھلنے لگے گا۔ مسلمان آئے اور انہوں نے یہ رسم بد دیکھی تو خلیفہ وقت نے دریا کے خشک کناروں پر کھڑے ہو کر کہا کہ اللہ کے حکم سے جاری ہو جا۔ دریائے نیل کے اندر پانی بھرنے بلکہ کناروں سے اچھلنے کو رحمت تصور کیا جاتا تھا۔ آج پاکستان کا ایک صوبہ دریائے سندھ پر کوئی نیا ڈیم نہیں بنانے دیتا اس لئے کہ اس دریا میںطغیانی آتی ہے تو سندھی وڈیروں کی کچے کی زمینیں سیراب ہو جاتی ہیں اور نئی مٹی سے ان کی زرخیزی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔اخبارات سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں نہر کا بند ٹوٹ گیا، یہ بند ٹوٹتا نہیں بلکہ جان بوجھ کر توڑا جاتا ہے تاکہ کسی جاگیر دار کی زمینوں کومفت کا پانی مل جائے۔اب رہ گئی دریائوں میں طغیانی سے ہونے والی تباہی تو ا سکی وجہ یہی ہے کہ ہمارے قبضہ مافیا کی کوئی حد نہیں ، وہ دریا کے خشک بیڈ پر قابض ہو جاتے ہیں اور ان پر پلاٹ بنا کر غریبوں کو فروخت کر کے رفو چکر ہو جاتے ہیں مگر دریا میں طغیانی کی صورت میں یہ غیر قانونی بستیاں غرقاب ہو جاتی ہیںا ور ہم چیخ و پکار مچا دیتے ہیں۔یہی صورت ہمارے پہاڑی نالوں کی ہے جن کے اندر تک گھر بنتے جا رہے ہیں اور جب بھی غیر معمولی بارشیں ہوتی ہیں تو ایک ہا ہا کار مچ جاتی ہے۔ شہروںکا حال ا س سے بھی بد تر ہے۔ لاہور، کراچی،پنڈی اور دیگر بڑے شہروںمیں سیوریج کا نظام موجود ہے جس پر کھربوں خرچ ہوتے ہیں۔ گندے پانی کے نالے بھی ہیں ۔ لاہور تو سارے کا سارا گندے نالوں کے اوپر آباد ہے مگر سیوریج نظام اور گندے نالوں کی صفائی پر مامور محکمے ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں، کاغذوں میں سیوریج اور گندے نالوں کی صفائی پر اربوںکا بجٹ خرچ کر دیا جاتا ہے جبکہ عملی طور پر کوئی کاروائی نہیں کی جاتی اور صفائی کے لئے مختص بھاری بجٹ ہضم کر لیا جاتا ہے۔ شاعر کہتا ہے کہ فعل بد تو خود کریں اورلعنت کریں شیطان پر۔ یہی حال ہماری حکومتوں کا ہے۔ مال پانی خود بناتی ہے اور شہریوں کو ہر برسات میں ڈبو دیتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ کام تو بلدیاتی اداروں کے کرنے کے ہیں مگر بلدیاتی ادارے صرف فوجی حکومتوں میں فعال کئے جاتے ہیں ، جمہوری حکومتوں کے ارکان پارلیمنٹ نے چونکہ کلہ فنڈ کے نام پر پیسہ خود کھانا ہوتا ہے، ا س لئے وہ بلدیاتی ادروں کی تشکیل ہی نہیں ہونے دیتے یا انہیں فعال ہی نہیں کرتے۔ اب رونے کو رہ گئے عوام۔