آج غازیٔ ملت سردارمحمدابراہیم خان صاحب کی سترھویں برسی ہے۔ آپ موجودہ آزاد کشمیر کے بانی اور تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے قافلہ سالار تھے۔سردار صاحب آزادکشمیر کے پہلے بانی صدرتھے اورمجموعی طوپرچار دفعہ صدارت کے عہدے پر براجمان ہوئے۔ آپ 31 جولائی 2003ء کواٹھاسی سال کی عمرمیں اہلِ کشمیر کو داغِ مفارقت دے کر راہ روِ مُلکِ بقا ہوگئے۔ آپ نے ایک نقطۂ نظر، ایک دستورِ حیات، ایک اصولِ زندگی اور ایک نصب العین کی خاطر اپنی زندگی کھپادی ۔آپ کا مقصد ِ حیات اور دستورِ زیست کیا تھا؟ مسلمانانِ کشمیر کو ہندو بنیے کی غلامی سے آزادی دلا کرانکی امنگوں کیمطابق کشمیر کو پاکستان کا حصہ بنانا۔الحاقِ پاکستان آپ کا یقین ِ محکم تھا جس میں کسی طرح کا کوئی احتمال کبھی نہیں رہا۔
بیسویں صدی کے آغاز میں مسلمانانِ برصغیرمیں بیداری کی نئی لہر پیدا ہوئی ۔ استعمار کیخلاف سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا ۔آج سے ایک صدی قبل تحریکِ خلافت نے برصغیر کے طو ل وعرض میںمسلمانوں کے جذبۂ حریت کو جلا بخشی جس کے گہرے اثرات مسلمانانِ کشمیر پر بھی مرتب ہوئے اور انھوں نے ڈوگرہ راج کیخلاف مزاحمت کی ٹھانی ۔ یہ وہ دور تھا جب طالع آزما ڈوگرہ کے ظالم سپاہی کشمیری مسلمانوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ انھیں درختوں سے لٹکا کر ان کی چمڑیاں ادھیڑ ی جارہی تھیں ۔ قتل و غارت گری اور جوروجفا کا نہ تھمنے والا بازار گرم تھا ۔ ایسے میں کشمیر کے زعماء نے ڈوگرہ راج کے خلاف تحریک ِ آزادی کا آغازکیا۔قرار دادِ پاکستان کی منظوری کے بعد جب تحریکِ آزادی میں شدت آئی تو برصغیر کاہرمسلمان سیاسی طور پر بیدار ہوچکا تھا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانانِ برصغیر اپنی منزل کی جانب رواں دواں تھے ۔ استعمار کے دن گنے جاچکے تھے ۔یہی وہ وقت تھا جب غازی ٔملت سردارمحمد ابراہیم خان اپنے افکار کو عملی جامہ پہنانے کے لیے میدانِ عمل میں کود پڑے ۔
لنکن اِن سے بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد غازیٔ ملت 1942ء میںجب وطن واپس تشریف لائے توحکومت نے انھیں میر پور میں پراسیکیوٹر تعینات کیا ۔ بعدازاں آپ ڈپٹی ایڈووکیٹ کے عہدے پر بھی فائزہوئے۔ مغرب کی درس گاہوں میں پڑھنے اور یورپ میں وقت گزاری کے باوجود آپ نے تہذیب ِ مشرق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا ۔مٹی سے محبت آپ کے مزاج کا جزوِ لاینفک تھی۔ قوم کا درد آپ کے رگ و پے میں خون بن کر دوڑ رہا تھا۔ سرکاری ملازمت کے ہوتے ہوئے اور خوشحال زندگی گزارنے کے باوجودآپ کا جذبۂ حریت سرد نہ ہوا۔ اس دور میں بہت سے جدید تعلیم یافتہ انگریز کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر ہوگئے تھے لیکن غازیٔ ملت کے پہلو میں ایک درد مند دل اورسینے میں جیتا جاگتا ضمیر تھا۔چنانچہ پراسیکیوٹر کی نوکری کو خیر باد کہا اور تن من دھن تحریک آزادیٔ کشمیر کے لیے وقف کر دیا۔6جنوری 1946ء کو پرجیا سبھا کے رکن منتخب ہوئے۔آپ نے مہاراجا کی گورنمنٹ میں ایک ہی اجلاس میں حصہ لیا جس میں انھوں نے ببانگِ دُہل مہاراجہ پہ کڑی تنقید کی جو ایک طرح سے ڈوگرہ راج کے خلاف کھلی بغاوت تھی ۔ آپ کی اس یادگار تقریر نے حکومتی ایوانوں کے
دروبام ہلاڈالے۔ آپ صرف گفتار کے غازی نہ تھے بلکہ لذتِ کردار سے آشنا تھے۔ چنانچہ آپ نے برصغیر کے مستقبل کے نقشے کو سامنے رکھتے ہوئے جون 1947ء میں ڈوگرہ راج کے خلاف بھرپور تحریک کاآغاز کیا ۔ اس وقت کشمیری قیادت کی اکثریت پابندِ سلاسل تھی۔ آزادی کا نام لینے والوں کے ہونٹ سی دیے جاتے، بولنے والوں کی زبانیں کھینچ لی جاتیں اور لکھنے والوں کے ہاتھ قلم کر دیے جاتے ۔ سیاسی قیدیوں سے بدترین سلوک روا رکھاجاتا۔ ایسے ناگفتہ بہ حالات میںجب مسلمانوں کو اجتماع کے لیے کوئی جگہ میسر نہ تھی تو سری نگر میںسردار محمد ابراہیم خان کی رہائش گاہ پرمسلم کانفرنس کے پلیٹ فارم سے قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور ہوئی جو تاریخ کا ایک سنہراباب ہے۔
یہ وہ عہدِ خوں آشا م تھا جب ہر طرف ڈوگرہ کے سپاہی دندناتے پھررہے تھے اور معصوم کشمیریوں کے لہو سے اپنے جبڑوں کو تر کر رہے تھے ۔ہر طرف مہاراجہ کے جاسوسوں کا جال بچھا ہوا تھا ۔ پوری سرکاری مشینری سردار صاحب کو ہر قیمت پر گرفتار کرنے کے در پے تھی کہ آپ سری نگر میں اپنی حاملہ بیوی اور ڈیڑھ سالہ بچے کو چھوڑ کر پاکستان آگئے اور یہاں آکر تحریک کو منظم کرنا شروع کر دیا ۔مظفر آباد اور ایبٹ آباد سے ہوتے ہوئے مری پہنچے اور یہاں آکر خفیہ ہیڈ کوارٹر قائم کیا۔جدوجہد آزادی کی کمان سنبھالی اور جذبۂ حریت سے سرشار قافلۂ صدق ووفا کے آشفتہ سر غازی ٔملت کی قیادت میں ایک پرچم تلے جمع ہوناشروع ہوئے اور ڈوگرہ راج کے خلاف منظم جہاد کا آغازکیا۔لشکر کی تشکیل و ترتیب اور اسلحے کی رسد کا ممکنہ انتظام کیا۔انتہائی مختصر وقت میں ایک وار کونسل قائم کی، 7 بریگیڈ فوج کھڑی کی جو ڈوگرہ سپاہیوں سے برسرِ پیکار ہوئی ۔ تقریباََ تین ہزار مجاہدین کالہوکشمیر کی مٹی میں جذب ہوگیا لیکن مجاہدین کا لشکر پیش قدمی کرتے ہوئے سری نگر کی طرف بڑھتا رہا ۔ یہ لشکر کیا تھا؟ صدیوں سے محبوس و مجبور کشمیری مسلمانوں کا ایک لٹاپٹاگروہ تھا جن کو ہر قیمت پہ آزادی کی طلب تھی ۔ اس لیے کہ مسلمانانِ کشمیر طویل عرصہ سے ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پر مجبور تھے ۔ ڈوگرہ راج کے دستِ تطاول کا گراں بار ستم سہنے کی سکت اب ان میں نہیں تھی ۔ وادیٔ کشمیر کے دل کش حسن پر آلام کی گرد لپٹی ہوئی تھی ۔ چنانچہ غازیٔ ملت کی قیادت میں مجاہدین ہر قیمت پر آزادی کاحصول چاہتے تھے ۔
یہ غازی یہ ترے پر اسرار بندے
جنھیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خُدائی
دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
شہادت ہے مطلوب ومقصودِ مومن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی
شہادت اور آزادی کی تمنا لیے مجاہدینِ آزادی کا یہ لشکر چلتا رہااورجانبِ منزل بڑھتارہا۔ یہ مردان ِ کوہستانی فطرت کے مقاصد کی نگہبانی کا عزم لیے ہوئے تھے ۔ اس لیے کہ فطرت نے ہر کسی کو آزاد پیدا کیا ہے ۔ کسی انسان کو حق نہیں پہنچتا کہ و ہ اپنے ہی جیسے کسی دوسرے انسان کی آزادی چھین کر اسے غلام بنالے۔ آزادی فطرت کا اولین تقاضا ہے ۔ انسان تو اشرف المخلوقات ہے، جانور بھی دوسرے جانور کی غلامی برداشت نہیں کرتے اور بھر پور مقابلہ کرتے ہیں ۔
یعنی از خوئے غلامی زسگاں تر است
من ندیدم کہ سگے پیش سگے سر خم کرد
چنانچہ یہ مجاہدان ِ باصفا اپنے سینوں میں امنگیں ، آرزووئیں اور امیدیں لیے سری نگر کی طرف رواں دواں رہے۔ اگر چہ یہ بے سروسامان تھے لیکن ڈوگرہ راج کے کرائے کے سپاہیوں کو خس وخاشاک کی طرح بہا لے گئے اور موجودہ آزاد کشمیرکو ڈوگرہ راج کے ظلم و ستم سے نجات دلائی ۔ راجا ہری سنگھ ریاست چھوڑ کر ہندوستان بھاگ گیااور مُڑکر کبھی واپس آنے کی ہمت نہ کی ۔ سردار صاحب نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تراڑکھل اور پلندری کے درمیان واقع جونجال ہل میں پہلا دارالحکومت قائم کر کے آزاد حکومت قائم کی۔بابائے پونچھ کرنل محمد خان کی سرپرستی میں وار کونسل کے اجلاس میں غازیٔ ملت سردار محمد ابراہیم خان کو آزاد حکومت کابانی صدر بنائے جانے کا فیصلہ ہوا۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اگر غازیٔ ملت نہ ہوتے تو کشمیر کا موجودہ حصہ کبھی بھی آزاد نہ ہوپاتا اور نہ ہی مسئلۂ کشمیر عالمی منظر نامے پر ابھرتا بلکہ جوناگڑھ اورحیدر آباد کی طرح یہ بھی تاریخ کے اوراق میں دفن ہوجاتا ۔ تاریخ کا غیر جانبدارانہ اور گہرا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ 1948, 1047کی جنگ میں آپ کا کلیدی کردار تھا ۔ ہندوستان اپنی پروپیگنڈہ مشینری بھر پور طریقے سے فعال کیے ہوئے تھالیکن سردار صاحب نے بڑی حوصلہ مندی، بے باکی، خود اعتمادی، جرات اور استقامت کے ساتھ اقوام ِ متحدہ میں مسئلۂ کشمیر اجاگر کیا۔ ہندو بنیے کی سفاکیت کا پرچارکیا۔اس کی بڑائی اور برتری کو اپنے پاؤں تلے لتاڑا اور دنیا کو ہمیشہ باور کرایاکہ کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ کشمیریوں کے پاکستان کے ساتھ تاریخی، جغرافیائی اور دینی رشتے ہیں جن کو قوت و طاقت کے بل بوتے پر کُچلا نہیں جاسکتا ۔
ہرسال جب جولائی کے مہینے کاآغازہوتا ہے تو غازیٔ ملت کے زیرِ سایہ گزراہواوقت یاد آنے لگتا ہے۔ان کی پاکیزہ اور دلآویز شخصیت کے مناظر عیاں ہونے لگتے ہیں ۔وہ ایسے شجرِ سایہ دار تھے جس کی گھنی چھاؤں میں کئی عہد پروان چڑھے اورکئی تحریکوں کی نشوونما ہوئی ۔ آپ نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا جب اس کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں ۔ ان کی زندگی بے پناہ ولولوں ،خارا شگاف لمحوں ، جاں گداز مرحلوں ،ایمان افروز جذبوں اور یاد گار معرکوں سے عبارت تھی۔آج بھی ذہنوں میں آپ کا تأثر ایک مردِ مومن کا ہے جس کی امیدیں قلیل اور مقاصد جلیل تھے۔حق گوئی و بے باکی آپ کا شعار تھا۔آپ طبعاـََ مشکل پسند تھے ، جیسے ہی کوئی دشوار مرحلہ درپیش ہوا، اپنا سفینہ ڈبو دینے پر آمادہ ہوگئے ۔مال و دولتِ دنیا کی رتی بھر پروا نہ کی ۔ڈر، خوف، حزن اور ملال سے کوسوں دور رہے۔ آپ خودی کے سر نہاں کے رمز شناس تھے اور اس تیغ کے فساں سے آگاہ تھے۔ فریبِ سودوزیاں سے متنفر اور متاعِ فقیر پرقانع تھے۔آپ فکرِ حکیمانہ اور جذبِ کلیمانہ کا پیکر تھے۔نعرۂ مستانہ اور جراتِ رندانہ کے آئینہ دار تھے۔آپ نے کبھی طوفانوں سے مفاہمت نہ کی۔ چور دروازوں سے اقتدار کی راہداریوں میں قدم نہ رکھا۔ اصولوں پہ سمجھوتا نہ کیا۔کج کلاہوں کے سامنے معذرت خواہانہ رویہ اختیار نہ کیا۔آپ عشق کی توقیر اور وفا کا
حوالہ تھے۔سچ یہ ہے کہ آپ نے ایک نقطۂ نظر، ایک دستورِ حیات، ایک اصولِ زندگی اور ایک نصب العین کی خاطر اپنی زندگی کھپادی ۔
حاصلِ عمر نثارے رہِ یارے کردم
شادم از زندگی ٔخویش کہ کارے کردم
(ترجمہ: زندگی کی ساری پونجی میں نے راہِ یار کی نذر کردی۔میں اپنی زندگی سے خوش ہوں کہ کچھ کارنامہ کیا ہے)