تحریکِ پاکستان ایک ایسی عوامی تحریک تھی جس میں مسلمانان برصغیر نے بلا تفریق ذات ومسلک بھرپور حصہ لیا۔اس تحریک میں بچوں ، نوجوانوں، بوڑھوں کے علاوہ خواتین بھی بڑھ چڑھ کر شریک ہوئیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ خواتین اس تحریک میں شامل نہ ہوتیں تو قیام پاکستان ممکن نہ تھا ، تو غلط نہ ہو گا۔اس عظیم جدوجہد کے قائدین کی فہرست میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کا اسم گرامی نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کے دوش بدوش تحریک ِپاکستان میںبھی بھرپور حصہ لیا اور برصغیر کی مسلم خواتین میں بھی بیداری پیدا کر کے‘ انہیں متحرک اور منظم کر کے ان میں تحریکِ پاکستان میں حصہ لینے کا عزم پیدا کیا۔ان کی زندگی کا بڑا حصہ قائداعظمؒ کی رفاقت میں گزرا۔بانیٔ پاکستان کی وفات کے بعد بھی وہ ملک و قوم کی خدمت سرانجام دیتی رہیں اور اس ضمن میں ان کی خدمات انتہائی گراں بہا اور قابلِ ستائش ہیں ۔وہ نڈر‘ معاملہ فہم اور زیرک خاتون تھیں جنہوں نے اپنی تمام زندگی اصولوں کی سربلندی کیلئے وقف کئے رکھی ۔
وطنِ عزیز پاکستان کی یہ ہردل عزیز خاتون 31جولائی 1893ء کو کراچی میں جناح پونجا کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ ابھی دو برس کی تھیں کہ والدہ کاانتقال ہو گیا۔ قائداعظمؒ ان دنوں انگلستان میں تعلیم حاصل کررہے تھے ۔ مادرِ ملتؒ نے ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی۔ بعد ازاں پرائمر ی سکول میں داخلہ لے لیا۔ جب آٹھ برس کی ہوئیں تو والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس کے بعد قائداعظمؒ نے آپ کی تعلیم و تربیت کا فرض اپنے ذمے لے لیا۔ اس زمانے میں کسی مسلمان لڑکی کو انگریزی تعلیم دلانا آسان نہ تھا مگر قائداعظمؒ نے بڑی جرأت سے کام لیا اور انہیں انگریزی پڑھانے کا اہتمام کیا۔ اس مقصد کیلئے انہیں ایک کا نونٹ سکول میں داخل کیا گیا۔ بعد میں آپ بمبئی کے مختلف سکولوں میں زیر تعلیم رہیں۔ میٹرک کے بعد مادر ملتؒ نے تعلیم کا سلسلہ منقطع کردیا۔ کچھ عرصہ گھر پر مطالعہ کرتی رہیں اور بعد ازاں 1919ء میں دندان سازی کی تربیت حاصل کرنے کلکتہ چلی گئیں۔دو برس تعلیم مکمل کر کے آپ بمبئی واپس آئیں اور 1929ء تک پریکٹس کی۔ 1930 ء میں جب قائداعظم گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے لندن تشریف لے گئے تو مادر ملتؒ بھی ان کے ہمراہ تھیں۔ آپ نے پانچ برس لندن میں قیام کیا اور اس دوران یورپ کے مختلف ملکوں کا دورہ کیا۔ لندن سے واپسی پر جب قائداعظمؒ نے 1935 ء میں مسلم لیگ کی صدارت سنبھالی تو مادرِملتؒ بھی عملی سیاست میں فعال ہو گئیں۔ اُنہی دنوں قائداعظمؒ حضرت علامہ اقبالؒ کو ملے اور علامہ اقبالؒ نے اپنے خطبۂ الہٰ آباد میں قیامِ پاکستان کا ابتدائی خاکہ پیش کیا تو قائداعظمؒ مسلم لیگ کے صدر کی حیثیت سے مسلم لیگ کو منظم کرنے اور اس کے پلیٹ فارم سے برصغیر کے مسلمانوں کو بیدار کرنے کیلئے میدانِ سیاست میں سرگرم عمل ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے قیامِ پاکستان کی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی۔ اس جدوجہد میں ہر مقام پر مادرِملت اپنے بھائی کے دوش بدوش رہیں اور ان کا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔ چنانچہ جب مارچ 1940 ء میں مسلم لیگ نے اپنے تاریخی اجلاس میں قراردادِ لاہور منظور کی تو مادرِملتؒ نے پورے برصغیر کی مسلم خواتین پر پاکستان کا مطلب واضح کرنے اور انھیں متحرک اور منظم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کر دی۔
قراردادِ لاہور کی منظوری کے بعد قائداعظمؒ سیاسی محاذ پر بے حد مصروف ہوگئے تھے۔ اس وقت پوری قوم کو ایک نصب العین کے حصول کے لیے صف آراء کرنے کا مسئلہ درپیش تھا۔ اس صورتحال میں مادرِملتؒ نے خواتین کو منظم کیا اور نہایت قلیل عرصے میں برصغیر کی تمام خواتین کو ایک جھنڈے تلے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ مادرِملتؒ کا کہنا تھاکہ خواتین اپنے اندر نظم و ضبط پیدا کریں کیونکہ خواتین کے تعاون کے بغیرپاکستان کا قیام ممکن نہیں۔
20فروری 1929ء کو بابائے قوم حضرت قائداعظمؒ کو عالمِ شباب میں اپنی اہلیہ محترمہ مریم جناح کی وفات کا جانکاہ صدمہ سہنا پڑا۔ اس وقت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنے بھائی کی گھریلو اور معاشرتی پریشانیوں کا دلسوزی سے احساس کیا اور ان کی خدمت پر کمر بستہ ہوگئیں۔ انھوں نے قائداعظمؒ کو گھریلو تفکرات سے بالکل آزاد کردیا تھا تاکہ وہ حصولِ پاکستان کی جدوجہد میں پوری توجہ اور دلجمعی سے حصہ لے سکیں۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ ایک فقیدالمثال خاتون خانہ ہی نہ تھیں بلکہ سیاست کے میدان میں بھی انھوں نے کارہائے نمایاں سرانجام دیے اور سیاسی معاملات میں اکثرقائداعظمؒ کو مشورے دیا کرتیں‘ ان کی صحت کا خیال رکھتیں اور ان کے پروگرام مرتب کرتیں۔ وہ قائداعظمؒ کی بہن ہی نہ تھیں بلکہ ان کے لیے مخلص دوست‘ دردمند ساتھی‘ بہترین مشیر‘ حوصلہ بخش رفیق اور عظیم طاقت ثابت ہوئیں۔ اس کا اعتراف خود قائداعظمؒ نے متعدد مواقع پر کیا۔ انھیں اپنی بہن کی بے لوث خدمت اور محبت کا بھرپور اعتراف تھا۔ اس کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ بابائے قومؒ جنھیںخوشامد اور چاپلوسی سے سخت نفرت تھی‘ اگست 1947ء میں غلام حسین ہدایت اللہ کی جانب سے دی گئی دعوت میں خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
’’تفکرات‘ پریشانیوں اور سخت محنت کے اس زمانے میں جب بھی میں گھر آتا تھا تو میری بہن روشنی اور امید کی تیز کرن بن کر میرا استقبال کرتی۔ اگر وہ میری نگران نہ ہوتی تو میرے تفکرات کہیں زیادہ ہوتے‘ میری صحت کہیں خراب ہوتی۔ اس نے کبھی بخل سے کام نہیں لیا‘ کبھی شکایت نہیں کی۔ اس کے حسنِ سلوک سے میری ساری کلفتیں دور ہوجاتیں۔‘‘
مادرِ ملت کی عملی سیاسی زندگی کا آغاز آل انڈیا مسلم لیگ کی تنظیمِ نو کے ساتھ ہوا۔ لیگ کی تنظیمِ نو کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بمبئی پروانشل مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کا ممبر چنا گیا۔ 1938ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی ’’سنٹرل ویمن سب کمیٹی‘‘ کیلئے منتخب کیا گیا اور اس عہدے پر آپ قیامِ پاکستان تک فائز رہیں۔ انہی کے ایما پر دہلی میں فروری 1941ء میں آل انڈیا مسلم ویمن سٹوڈنٹس فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔ آل انڈیامسلم ویمنز کانفرنس کو بھی محترمہ کی سرپرستی حاصل تھی۔ اس دور کی نامور مسلمان خواتین نے مادرِ ملت کی رہنمائی میں مسلم سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہوگا کہ 1937ء کے لیگ سیشن میں مسلمان خواتین کو باقاعدہ لیگ میں شامل کرنے کیلئے ابتدائی کام کا آغاز کردیا گیا تھا‘ اگرچہ لیگ کے کھلے اجلاس میں خواتین کی باقاعدہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا گیا تھا‘ البتہ بعد ازاں پٹنہ کے لیگ سیشن میں 32مسلمان خواتین پر مشتمل‘مرکزی سب کمیٹی کی تشکیل کی گئی تھی جس میں بمبئی سے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ممبر چنا گیا تھا۔ اپریل 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس مدراس میں بھی مسلمان خواتین کی شرکت دیدنی تھی۔ اس موقع پر ’’آل انڈیاویمنز سنٹرل سب کمیٹی‘‘ کی از سر نو تشکیل کی گئی۔ اس مرتبہ 35 خواتین کے نام سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کو دوسری بار بمبئی کے حلقہ سے چنا گیا۔ اس کمیٹی کے تیسرے انتخابات 1943ء میں ہوئے۔ اس مرتبہ لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ دہلی کے موقع پر ’’ ویمنز سنٹرل کمیٹی‘‘ کی نئی ارکان چنی گئیں۔ لہٰذا مدراس اجلاس کی قرارداد کی روشنی میں اس مرتبہ 38خواتین کے نام سامنے آئے جن میں محترمہ فاطمہ جناحؒ کو بمبئی کے حلقے سے مسلسل تیسری مرتبہ چنا گیا۔ یوں محترمہ فاطمہ جناحؒ لیگ کی تنظیمِ نو سے قیامِ پاکستان تک نہ صرف مسلمان خواتین کی سیاسی جدوجہد‘ مسلم لیگ کی نشوونما بلکہ ساتھ ہی ساتھ اپنے عظیم بھائی کی خدمت میں بھی مصروفِ عمل رہیں۔ 1947ء میں اپنی سرکردگی میں کراچی میں ’’ویمن ریلیف کمیٹی‘‘ قائم کی جس نے بھارت سے نقل مکانی کرنے والی ہزاروں مسلمان خواتین کی دیکھ بھال کی۔ اس کمیٹی کو بعد ازاں ’’آل پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن‘‘ کا نام دیا گیا۔
مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اپنی زندگی کے آخری برسوں میں جمہوری اقدار کی بقا اور فروغ کیلئے پیرانہ سالی کے باوجود جو جدو جہد کی‘ وہ ہماری قومی تاریخ کا ناقابلِ فراموش باب ہے۔ آپ نے حزبِ اختلاف کی جانب سے ایوب خان مرحوم کے خلاف صدارتی امیدوار بننا منظور کرلیا۔ ان کے صدارتی امیدوار بننے سے جہاں حزبِ اختلاف مستحکم ہوئی‘ وہاں صدارتی انتخاب کی اہمیت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی اور قائداعظمؒ کی وفات کے بعد وہ ایک بار پھر قائداعظمؒ کی طرح قوم کی امنگوں اور امیدوں کا محور و مرکز بن گئیں۔ مادرِ ملتؒ نے انتخابی مہم کے سلسلے میں ملک کے دونوں حصوں (مغربی اور مشرقی پاکستان) کے طوفانی دورے کیے اور اپنی پرمغز اور قوم ساز تقاریر سے عوام کے اندر تحریکِ پاکستان کے ولولے پیدا کیے۔ آپ جہاں بھی گئیں‘ عوام کی جانب سے فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ قوم نے جمہوریت کی شمع روشن رکھنے کیلئے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اگر انتخابات میں عوام کی خواہش کا احترام کیا جاتا تو مادرِ ملتؒ یقینا کامیاب ہوتیں اور ان کی کامیابی کی صورت میں جمہوری اداروں کو تحفظ اور فروغ حاصل ہوتا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی راہ ہموار نہ ہوتی۔
9جولائی 1967ء کو حق و صداقت کی یہ آواز ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگئی۔ مادر ملتؒ کی رحلت سے برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہدِ آزادی کا ایک درخشاں باب ختم ہوگیا۔ آپ کو مزارِ قائداعظمؒ کے احاطے میں سپرد خاک کیاگیا۔آج 31 جولائی کو مادر ملت کا 128 واں یوم ولادت منایا جارہا ہے۔
مادرملت ؒکی حیات وخدمات
Jul 31, 2020