وزیراعظم کے معاونین خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا اورڈیجیٹل پاکستان تانیہ ایدروس نے دوہری شہریت کے معاملے پر اپنے اپنے عہدوں سے استعفیٰ دے دیا ، کابینہ ڈویژن نے وزیراعظم کی جانب سے دونوں معاونین خصوصی کے استعفے منظور کرنے کے علیحدہ علیحدہ نوٹی فکیشن جاری کردیئے۔
معاونین خصوصی کی دُہری شہریت کو میڈیامیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔مادر وطن سے محبت اور وفاداری کا اولین تقاضہ ہے کہ خصوصی طور پر وہ لوگ جو اعلیٰ عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں ان کی کسی دوسرے ملک کی شہریت نہ ہو،کیونکہ کسی بھی ملک کی شہریت کی صورت میں خواہ وہ پیدائشی ہی کیوں نہ ہو آپ کو اس ملک سے وفاداری اور ضرورت پڑنے پر اس کی خاطر ہتھیار اُٹھانے کی قسم کھانا پڑتی ہے۔تانیہ ایدروس نے ٹوئٹ میں کہا کہ میری شہریت کے معاملے پر ریاست پر اٹھنے والی تنقید ڈیجیٹل پاکستان کے مقصد کومتاثر کررہی تھی، میں نے عوام کے مفاد میں وزیراعظم کی معاون خصوصی کی حیثیت سے اپنا استعفیٰ جمع کرادیا ہے۔ اپنی بہترین صلاحیت کے ساتھ اپنے ملک اور وزیر اعظم کے وژن کی خدمت جاری رکھوں گی۔ میری دوہری شہریت پر تنقید ہو رہی تھی۔ میری کینڈین شہریت وہاں میری پیدائش کا نتیجہ ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی کہا کہ میں وزیراعظم عمران خان کی خصوصی دعوت پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) چھوڑ کر پاکستان آیا تھا، میں نے محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔ میں مطمئن ہوں کہ ایسے وقت میں عہدہ چھوڑ رہا ہوں جب قومی کوششوں سے پاکستان میں کرونا وائرس میں کمی آچکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جھوٹے الزامات لگائے جا رہے تھے۔ ظفر مرزا اور تانیہ کی پاکستان کیلئے خدمات کو سراہا جارہا ہے تاہم انہوں نے اپنی دُہری شہریت برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا جسے دباؤ پر بدلنے کی ضرورت نہیں ہے۔کچھ حلقوں کی طرف سے ان پر بے ضابطگیوں کے الزامات بھی لگ رہے تھے یہ بھی کہا جارہا ہے کہ ان سے استعفیٰ لیا گیا ہے ۔اس تأثر کو وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی رابطہ کار ڈاکٹر شہباز گل کے بیان سے تقویت ملتی ہے جس میں انہوں نے کہا کہ جب کوئی استعفیٰ دے یا اس سے لیا جائے تو ان کی تحقیر مت کیا کریں۔ نکال دیا درست لفظ نہیں، عہدے سے علیحدہ کر دیا بہتر لفظ ہے۔اگر ان کو عہدے سے الگ کیا گیا ہے تو بے سبب نہیں ہوسکتا۔اگر کوئی ایسا ہے تو اس کی مکمل تحقیق کی ضرورت ہے۔ اور اگر انہوں نے تنقید اور مخالفت کی وجہ سے اپنے عہدے چھوڑے ہیں تو دُہری شہریت کے حامل دیگر معاونین کو بھی اس کی تقلید کرنی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کا استعفے منظور کرنے کا عمل بھی مناسب ہے۔