گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے انتخابات میں شکست کے بعد مسلم لیگ نون کے سیاسی گڑھ سیالکوٹ میں غیر متوقع شکست پاکستان مسلم لیگ نون کے لیے لمحہ فکریہ ہے- یہ موقع ہے کہ مسلم لیگ نون کی مرکزی قیادت سر جوڑ کر بیٹھے اور تجزیہ کرے کہ ان کی مقبولیت میں کمی کیوں آرہی ہے-سیالکوٹ کے صوبائی حلقہ پی پی پی 38 مسلم لیگ نون کی سیٹ تھی جو ان کے رکن اسمبلی کی وفات کے بعد خالی ہوئی تھی یہ انتخابی حلقہ وریو خاندان کے اثر و رسوخ کا حلقہ رہا ہے-اس حلقے سے مسلم لیگ نون کی شکست اس کے لیے بہت بڑا سیٹ بیک ہے-پی ٹی آئی کے امیدوار احسن سلیم بریار نے 60588 ووٹ حاصل کیے ہیں-مسلم لیگ نون کے امیدوار طارق سبحانی نے 53471 ووٹ لیے ہیں-مسلم لیگ نون کی سیٹ چھیننے کے بعد تحریک انصاف کے رہنماؤں اور کارکنوں کے حوصلے بڑھے ہیں جو پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پے در پے شکست کے بعد مایوسی میں مبتلا ہو چکے تھے-مسلم لیگ نون کے مرکزی صدر میاں شہباز شریف ہیں انہوں نے آزاد کشمیر کی انتخابی مہم میں حصہ نہیں لیا-مسلم لیگ نون کے حامی اور کارکن مرکزی قیادت کی متضاد پالیسیوں سے مطمئن نہیں ہیں-مسلم لیگ نون کے چار مرکزی رہنما ہیں جن میں میاں نواز شریف میاں شہباز شریف مریم نواز شریف اور حمزہ شہباز شریف شامل ہیں- یہ چاروں لیڈر اگر متحد نظر آئیں تو ان کے جماعت پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور کارکنوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں- مرکزی لیڈروں کے درمیان نظر آنے والے اختلافات سے مسلم لیگ نون کے کارکن انتشار اور مایوسی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں-مسلم لیگ نون کا "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ بھی ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے-میاں نواز شریف کے بھارت نواز اور پاک فوج مخالف بیانات نے مسلم لیگ کے ووٹ بینک کو متاثر کیا ہے - مسلم لیگ نون پاکستان کی خالق جماعت ہے لہذا اس کے لیڈروں کی زبان سے بھارت نواز بیانات اور پاک فوج کے خلاف بیانات مسلم لیگ کے مزاج کلچر اور اس کی اساس کے ہی خلاف ہیں-میاں نواز شریف رفتہ رفتہ عوام میں ایکسپوز ہوتے جا رہے ہیں-وہ چونکہ تین بار پاکستان کے وزیر اعظم منتخب ہو چکے ہیں لہذا اب ان کی پاکستان میں وہ دلچسپی نہیں رہی جو پہلے ہوا کرتی تھی-لندن میں بیٹھ کر بھی وہ پاکستان کے دشمن ممالک کے سفیروں اور مشیروں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں اور ان ملاقاتوں کے بارے میں اپنے ووٹرز کو بھی اعتماد میں نہیں لیتے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ" ووٹ کو عزت دو" کا نعرہ صرف سیاسی مصلحتوں کی خاطر لگاتے ہیں جبکہ ووٹرز کے لیے ان کے دل میں ٹکے کی عزت نہیں ہے- یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی ملاقاتوں کے بارے میں جمہوری اصولوں کے مطابق بیانات جاری کرکے اپنی پارٹی کے اراکین اسمبلی اور کارکنوں کو اعتماد میں لینا ہی گوارا نہیں کرتے- ایسے معاملات سیاسی جماعتوں میں بڑی حساس نوعیت کے ہوتے ہیں اور گلی محلوں میں ان پر بحث و مباحثہ کیا جا تا ہے- میاں نواز شریف جمہوری اور سیاسی رویے اور طرز عمل پر نظرثانی کریں-مسلم لیگ نون کے دستور کے مطابق مرکزی سطح پر اختیارات مرکزی صدر کے پاس ہوتے ہیں لہذا پارٹی کے امور میاں شہباز شریف مرکزی صدر مسلم لیگ نون کو چلانے چاہئیں۔ مگر صاف نظر آ رہا ہے کہ ان کے اختیارات کو میاں نواز شریف کی آشیرباد کے ساتھ مریم نواز شریف استعمال کر رہی ہیں-پاکستان کے عوام مریم نواز شریف کے جلسوں میں جوق در جوق شریک تو ہوتے ہیں مگر وہ اسی جوش و جذبے کے ساتھ مسلم لیگ نون کے امیدواروں کو ووٹ نہیں دیتے- اس سے یہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جلسوں میں آنے والے ووٹ دینے کے جذبے سے نہیں آتے بلکہ وہ مریم نواز شریف کو دیکھنے اور سننے کے لیے آتے ہیں - پاکستان میں پبلک ریلیوں میں عوام انجوائے کرنے کے لئے ہی شریک ہوتے ہیں اور عام طور پر پبلک ریلیوں کو عوامی میلہ ہی سمجھتے ہیں کیوں کہ عوام کے پاس اور کوئی تفریح نہیں ہے-انصاف کا تقاضہ بھی یہ ہے کہ میاں شہباز شریف کو مکمل اختیارات کے ساتھ فری ہینڈ دیا جائے تاکہ وہ مسلم لیگ نون کی قیادت کر سکیں اور اگلے انتخابات میں مسلم لیگ نون کے اراکین کی کامیابی کے لیے حکمت عملی بنا سکیں-خاندان کے اندرونی اختلافات اور سیاسی حکمت عملی میں عدم یکجہتی متوالوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے جس کا سیاسی فائدہ پاکستان تحریک انصاف اور پی پی پی کے لیڈر اٹھا رہے ہیں-رفتہ رفتہ لوگوں کے ذہنوں میں یہ تاثر گہرا ہوتا جا رہا ہے کہ میاں نواز شریف ذہنی طور پر بھارت نواز اور فوج کے مخالف ہو چکے ہیں لہذا ان کی سیاسی پالیسیاں پاکستان کی سلامتی اور اتحاد کے لیے سنگین خطرے کا سبب بن سکتی ہیں-پاکستان کے دوسرے صوبوں کی نسبت پنجاب کے عوام بھارت کے سخت خلاف ہیں-پنجاب میں بھارت نواز لیڈر کی فتح کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں-مسلم لیگ نون کے وسیع تر مفاد کا تقاضہ ہے کہ میاں نوازشریف چوتھی مرتبہ زیراعظم بننے کا خواب دیکھنا ترک کردیں اور مسلم لیگ نون میں صرف رہبرکا کردار ادا کریں-وہ لندن میں بیٹھ کر ایسی شخصیات سے ملاقاتوں سے گریز کریں جن کا تعلق پاکستان دشمن ملکوں سے ہو اور تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کو ان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کا موقع مل سکے-میاں شہباز شریف ایک تجربہ کار لیڈر ہیں انہوں نے پنجاب کے چیف منسٹر کی حیثیت سے اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بڑی شہرت کمائی ہے اور پنجاب میں ہر ترقیاتی منصوبے میں ان کے شب و روز کی محنت شامل ہے- پنجاب کے عوام کے دلوں سے ان کی محبت کو نہیں نکالا جا سکتا-دھاندلی کے الزامات کے پیچھے چھپنے اور پرانی غلطیاں دہرانے کی بجائے مسلم لیگ نون کے اراکین پارلیمنٹ تنظیمی عہدیداروں اور متحرک کارکنوں کا کنونشن بلایا جانا چاہیے تاکہ گلی محلوں میں عوام کی سوچ سامنے آسکے اور عوام کی نبض پر ہاتھ رکھ کر مسلم لیگ نون کی پالیسی تشکیل دی جا سکے-چند لوگوں کی ذاتی خواہشات پر جماعتوں کو چلانے کے نتائج سیاسی جماعت جمہوریت اور ریاست کے لئے سود مند نہیں ہوا کرتے-
مسلم لیگ نون کے لیے لمحہ فکریہ
Jul 31, 2021