قابل اجمیری کیاخوب کہتے ہیں کہ:
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
اس تناظر میں دیکھیں تو کشمیر کے موجودہ حالات اچانک اس نہج تک نہیں پہنچے، 73سالوں سے آزادی کی جنگ لڑتے کشمیری اب بھی پُر عزم ہیں۔ آزادی کی یہ تحریک 1931میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک جلسے پر فائرنگ کر کے متعدد کشمیریوں کو شہید کیا گیا۔
اس تحریک کا طویل پس منظر ہے۔ جس طرح برصغیر خاص طور پر پانچ دریائوںکی سر زمین کو، سونے کی چڑیا کے نام سے موسوم کیا جاتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دریائوں کی وجہ سے یہ خطہ ہمیشہ سے قدرتی طور پر زیادہ زرخیز رہا ہے۔
کشمیر اپنی خوبصورتی اور قدرتی وسائل کی وجہ سے جنت نظیر کہلاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ برصغیر کا رُخ کرنے والے تمام حملہ آور یا تو پنجاب سے گزرتے ہوئے کشمیر پہنچتے یا ہندوستان پر حکمران ہونے کے بعد اس خطے کو اپنی عملداری میں لے آتے۔
مہاراجہ رنجیت سنگھ غالباً آخری حکمران تھا جس کے ماتحت پنجاب کی سر حدیں،کشمیر اور پشاور تک پھیلی ہوئی تھیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی شکست کے بعد پنجاب کا علاقہ کشمیر سمیت، برطانوی عملداری میں چلا گیا۔ برطانوی حکمرانوں نے 1846میں کشمیر کو چند لاکھ کے عوض لداخ کے راجا گلاب سنگھ کے ہاتھ فروخت کر کے کشمیریوں کے مقدر کا سودا کیا۔ کشمیر کہلانے والا خطہ دراصل تین علاقوں پر مشتمل ہے، مشرق میں لداخ،بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت کا علاقہ ہے۔ مغرب میں کشمیرمسلم اکثریت کا علاقہ ہے جہاں98فی صد سے زیادہ مسلمان آباد ہیں۔ جموں کو مندروں کی سر زمین کہا جاتا ہے کیوں کہ یہاں ہندو بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ جموں خطے کا سرمائی اور سری نگر گرمائی دارالحکومت ہے۔ جموں اور کشمیر میں90لاکھ سے زائد مسلمان آباد ہیں۔یہ علاقہ کشمیری شالوں کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ اس خطے کی سب سے زیادہ اہمیت پانی کے ان بنیادی چشموں کی وجہ سے ہے جو پنجاب کے کے ماخذ ہیں۔سندھ اور جہلم کے علاوہ پنجاب کے دیگر دریائوںکے ماخذ ہمالیہ کے پہاڑوں میں ہیں۔ جوجموں و کشمیر ہی کا حصہ ہے۔ 3جون کو جب برصغیر کے مسلم اکثریتی علاقوں کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا منصوبہ طے ہوا تو ایک گہری سازش کے تحت دریائوں کے انہی بنیادی ماخذپر کنٹرول حاصل کرنے کیلئے کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق کی سازش کے تانے بانے بُنے گئے، کشمیر تک رسائی چونکہ مشرقی پنجاب کے مسلم اکثریتی علاقوں سے ہی ممکن تھی اس لیے کشمیر کے ساتھ پنجاب کے پانچ اضلاع کو عین آخری لمحات میں ہندوستان کے ساتھ ملادیا گیا جہاں دنیا کی سب سے بڑی مہاجرت اور قتل و غارت گری ہوئی۔
کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے نتیجہ میںدریائوں کے ماخذ بھارت کے کنٹرول میں چلے گئے ۔ بھارت نے اسی اجارہ داری کی وجہ سے ہی ستلج، بیاس، راوی اور چناب پر کنٹرول حاصل کیا۔ جس کی وجہ سے ستلج، بیاس اور راوی کو خشک کرنے کی بھارتی سازش جاری ہے۔
دریائوں پر سینکڑوں ڈیم بنا کر بھارت نے پاکستان کے حصے کا پانی بھی ’’ڈپھ‘‘(پی)لیا۔ دوسری طرف ان دریائوں میں جب چاہے پانی چھوڑ کر پاکستان میں خطرناک سیلابی صورتحال پیدا کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ یہ وہ بنیادی وجہ ہے جس کی بنا پر بھارت کسی صورت کشمیر سے درست بردار ہونے کو تیار نہیںبلکہ اسے ’اٹوٹ انگ‘ کہتا ہے۔ دوسری طرف دریائوں کے انہی ماخذوں کو بنیاد بنا کر ،پاکستان بھی کشمیر کو اپنی شہ رگ کہتا ہے۔ پاکستان کے پاس منطقی دلیل ہے کہ یہ مسلم اکثریت کے علاقوں کا 3جون کے فیصلے کی روشنی میں پاکستان سے الحاق بنتا تھا، جس میں بد دیانتی کی گئی۔ اس مضبوط دلیل کو مانتے ہوئے اقوام متحدہ نے کشمیر کے منصفانہ حل کیلیے کشمیریوں کے استصوابِ رائے کے حق کو تسلیم کیا اور کئی قراردادیں اس کے حق میں منظور کیں مگر بھارت کی غنڈہ گردی اور بدمعاشی کی وجہ سے ابھی تک ایک بھی قرارداد پر عملدراآمد کی نوبت نہیں آئی۔ گو بھارت کشمیر میں کشمیریوں کی نسل کشی پر گذشتہ73سالوں سے عمل کر رہا ہے لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ بھارتی آئین کی شق370 اور35اے کشمیر کو ایک خصوصی حیثیت دیتی تھی۔ جس کی وجہ سے کوئی بھی نان کشمیری کشمیر کا رہائشی نہیں بن سکتا تھا۔ جسے5اگست2019کو ختم کر کے کشمیری کی خصوصی حیثیت ختم کرتے ہوئے، ہندوستان سے غیر کشمیریوں کو یہاں آباد کر کے مسلم آبادی کے تناسب کو اکثریت سے اقلیت میں بدلنے کی سازش کی گئی۔
دو سال کے ظلم و جبر کے باوجود ابھی تک بھارت اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ کشمیری ایک لاکھ جانیں قربان کرنے کے بعد بھی پُر عزم ہیں اور ہر قیمت پر بھارت سے آزادی حاصل کرنے کیلیے تیار ہیں۔وہ دن دور نہیں جب آزادی کے یہ متوالے اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضے سے آزاد کروا کر دم لیں گے( ان شاء اللہ)