ہماری معاشرت میں دعا دی جاتی ہے کہ اللہ ہمیشہ پولیس، تھانہ، کورٹ، کچہری سے محفوظ رکھے۔ کیونکہ ان سے جس کا واسطہ پڑ ا اس نے اسے کسی کی بد دعا ہی جانا۔ کیا کریں سسٹم ہی ایسا ہے، پولیس جسے عوام کے پیسوں سے عوام کے تحفظ پر مامور کیا گیا ہے۔ عوام انہی کے آگے اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتی ہے۔ یعنی اپنے چوکیدار سے ہی خطرہ و خوف آتا ہے۔ہاں کچھ معاملات میں پولیس اور انتظامیہ واقعی مستعدی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ تازہ مثال لے لیجئے، کمشنر گوجرانوالہ کا پالتو کتا گم ہو گیا، بس پولیس کو الٹی میٹم ملا کہ صاحب بہادر کا کتا فوری بازیاب کرایا جائے۔ پھر کیا تھا علاقہ پولیس اسی کام پر جت گئی، رکشے میں لاوڈ سپیکر سے اعلانات کیئے گئے، تلاشیا ں اور چھاپے مارے گئے، کتے کو بازیاب کرانے کے لیئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ ایک عام آدمی بھی سوچنے پر مجبور ہوتا ہے کہ پولیس نے کبھی گمشدہ بچوں یا لاپتہ افراد کی تلاش میں اتنی محنت دکھائی، ایسی کوئی مثال نظر نہیں آتی۔ ہاں سوشل میڈیا پر شور مچے تو پھر مفرور قاتل اور بھگوڑے بھی گرفتار کر لیئے جاتے ہیں۔ لیکن گرفتاری کے بعد کے مراحل میں اکثر مقدمات میں پولیس کی روایتی سستی ملزمان کو فائدہ پہنچانے کا موجب بنتی ہے، اندراج مقدمہ ہو گیا، گرفتاری ہو گئی، پولیس نے ملزم کا ریمانڈ بھی لے لیا، کرائم سین سے شواہد بھی اکٹھے ہو گئے، ملزم نے ابتدائی بیان بھی دے دیا، شریک ملزمان کی نشاندہی پر انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا، شاہدین کو بھی شامل تفتیش کر لیا گیا، یہاں تک کہ ملزم نے اعتراف جرم بھی کر لیا ہو تو بھی پولیس کی جانب سے چالان پیش کرنے میں تاخیر کا مظاہرہ ہوتا ہے، کبھی فارینزک ٹیسٹ کی رپورٹ کا انتظار، کبھی ڈی این اے کا انتظارتو کبھی پولی گرافک ٹیسٹ کی رپورٹ کا انتظار کبھی سویب کی میڈیکل رپورٹ کا انتظار۔ ان شواہد اور سائنسی تجزیات کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ ان عوامل کو پولیس تاخیری حربے کے طور پر استعمال کرتی ہے۔چالان پیش کرنے میں غیر ضروری تاخیر ہوتی ہے اور پھر عدالت اس تاخیر کے باعث ملزمان کے وکیل غیر ضروری تاخیر کا الزام لگا کر بہت سے مقدمات میں ملزمان کو ضمانت پررہا کروا لیتے ہیں۔ ایک بار ملزم ضمانت پر رہا ہو جائے تو مقدمہ میں اسکا پلڑا بھاری ہو جاتا ہے اور مظلوم یا مدعی کے لیئے انصاف کا خواب دھندھلا جاتا ہے۔ڈیڑھ سو سال پرانا انگریزوں کا مرتب کردہ ہمارا ضابطہ فوجداری اگرچہ بہت سی ترامیم اپنے اندر سمو چکا ہے لیکن پھر بھی ہمارے پولیس نظام، خاص طور پر تفتیش، تحقیق اور پراسیکیوشن کا طریقہ کار سستے اور فوری انصاف کی راہ میں خود ایک رکاوٹ ہے۔انہی روایتی تاخیری حربوں کے باعث ملک کی عدالتوں میں زیر التوائ مقدمات کی تعداد اب لاکھوں میں ہے۔ صرف سپریم کورٹ میں اس وقت نصف لاکھ سے زائد مقدمات زیر التوائ ہیں اور مجموعی طور پر ملک کی اعلیٰ عدالتوں اور ما تحت عدلیہ میں ساڑھے اکیس لاکھ سے زائد سائلین انصاف کے منتظر ہیں۔ حقائق تو یہی اشارہ دیتے ہیں کہ اگرپولیس اور تحقیقاتی ادارے اسی رفتار سے چلتے رہے اور عدالتوں میں انصاف کی فراہمی کا عمل اسی رفتار سے چلتا رہا تو انصاف کا حصول محض ایک خواب ہی نہیں بلکہ ڈراونا خواب بن جائے گا۔ موجودہ طرز اور موجودہ رفتار سے کبھی بھی انصاف کی فراہمی کا عمل ممکن نہیں ہو سکے گا۔دنیا کے کسی ملک میں آبادی کے تناسب سے زیر التوائ مقدمات کی تعداد اتنی ذیادہ نہیں ہے۔اسی لیئے اکثر ممالک میں سستے اور فوری انصاف کے لیئے سمری ٹرائل کا اصطلاح متعارف کروائی اور اس پر عمل بھی کیا تاکہ نہ صرف زیر التوائ مقدمات کو جلد از جلد نمٹایا جائے بلکہ انصاف کی فراہمی کے جمود زدہ عمل کو تیز تر کیا جائے۔ ہم نے بھی اس عمل کو تیز کرنے کے لیئے نت نئے تجربات ضرور کیئے، کبھی ماڈل کورٹس بنائیں، کبھی آلٹرنیٹ ڈسپیوٹ ریزولیشن کا نام دیا، کبھی سمال کورٹس اور مائنر آفینسز کے نام پر عدالتیں بنائیں، یہاں تک کے فوجی عدالتیں بنانے کے لیئے آئین میں وقتی ترمیم کر ڈالی۔ لیکن نتیجہ صفر۔ سائلین نا مراد رہے اور انصاف کی منزل کوسوں دور۔ اس وقت بھی ہمارا انسداد دہشت گردی کا قانون کہتا ہے کہ ایک ہفتے میں مقدمات کا فیصلہ دیا جائے گا۔ لیکن کتنا وقت لگتا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ نیب قانون میں درج ہے کہ کرپٹ افراد کے خلاف ریفرنس دائر ہونے کے بعد عدالت روزانہ کی بنیاد پر سماعت کرے گی اورایک مہینے کے اندر مقدمہ نمٹایا جائے گا۔ لیکن نیب عدالت میں ایک مہنے میں انصاف تو دور کی بات برسوں گزر جاتے ہیں، فیصلہ نہیں ہو پاتا۔ موجودہ صورتحال میں غیر معمولی شہرت پانے والے مقدمات جیسے عثمان مرزا کیس اور نور مقدم قتل کیس کی مثال لے لیجئے، پہلے مقدمے میں ملزم گرفتار ہے اقبال جرم بھی کرچکا ہے، پولیس کئی مرتبہ اسکا جسمانی ریمانڈ حاصل کر چکی ہے، اس وقت عدالتی ریمانڈ پر جیل میں ہے، اسکے شریک ملزمان اور موقع کے گواہ بھی گرفتار ہیں۔لیکن ایک ماہ سے زائد ہونے کو آیا پولیس اس کیس میں چالان تک مرتب نہیں کر سکی۔ نور مقدم قتل کیس میں دیکھ لیجئے، ملزم موقع سے گرفتار ہوا، آلہ قتل بھی برا آمد ہو گیا، گواہان اور شریک ملزمان اور دیگر شواہد چیخ چیخ کر ملزم ظاہر جعفر کو قاتل ثابت کر رہے ہیں۔کیا یہ تمام شواہد ملزم کا جرم ثابت کرنے کے لیئے تھوڑے ہیں۔ یہ کوئی اندھا قتل نہیں تھا کہ جسکا کھرا نہ مل سکے۔ وقوعہ پر موجود ایک ایک ثبوت ملزم ظاہر جعفر کے خلاف جاتا ہے۔ ملزم کے دفاعی وکلاء تو ظاہر ہے اپنے موکل کو بچانے کے لیئے پولیس کے ہر بیان کو جھٹلائیں گے۔ اور اپنے ملزم کو قاتل کی بجائے فرشتہ بنا کر پیش کریں گے کیونکہ اسی کام کی انہوں نے فیس لی ہوتی ہے،وہ تو چاہیں گے کہ اپنے موکل کے خلاف کاروائی میں ہر صورت تاخیر ہو۔لیکن اگر پولیس روایتی ہتھکنڈوں (جسے انصاف کے تقاضے کہا جاتا ہے) کو استعمال کر رہی ہے اورچالان مرتب کرنے میں غیر ضروری تاخیر ہو رہی ہے تو اسکا مطلب ہے کہ بالواسطہ طور پر ملزم کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے۔ اور یہ صرف ان دو مقدمات کی بات نہیں بلکہ ہر مقدمہ ایسی روایتی ہتھکنڈوں کے باعث تاخیرکی شکار ہوتا ہے۔ انصاف کے عمل میں تاخیر ہوتی ہے، ملزمان فائدہ اٹھاتے ہیں اور مظلوم و مدعی ہاتھ ملتے نظر آتے ہیں۔ چونکہ ہمارے ملک میں یہی نظام رائج ہے، اس لیئے یہی توقع کی جا سکتی ہے کہ ملک کی عدالتوں میں ساڑھے اکیس لاکھ زیر التواء مقدمات کی تعداد کو پر لگے رہیں گے۔ سائلین ہاتھ ملتے رہیں گے، ملزمان اور مجرمان اس روایتی سسٹم سے استفادہ حاصل کرتے رہیں گے اور اقوام عالم کی انصاف کی فراہمی والے ممالک میں ہمارا نمبر پستی کی جانب گرتا رہے گا۔ اور یاد رکھیئے کہ ظلم والے معاشرے پھر ٹہر جاتے ہیں لیکن جہاں انصاف نہ ہو وہ معاشرے قائم نہیں رہتے، فنا ہو جاتے ہیں۔
انصاف ایک خواب رہے گا، کیونکہ…!
Jul 31, 2021