تصویریں بلوچستان کی

Jul 31, 2022

عبداللہ طارق سہیل

اللہ رحم کرے‘ حالیہ بارشوں نے تو بہت تباہی مچائی۔ ہر روز دو اڑھائی درجن افراد کی ہلاکتوں اور ان گنت مکانوں کے تباہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں اور سب سے زیادہ تباہی بلوچستان میں ہو رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر دل دہلا دینے والی تصاویر اور رپورٹیں مسلسل آرہی ہیں۔ لوگ سیلاب میں گھرے کمزور مکانوں کی چھتوں پر چڑھے موبائل فونوں کے ذریعے اہل وطن کو مدد کیلئے پکار رہے ہیں‘ لیکن جہاں سگنل جانے چاہئیں‘ وہاں پہنچ ہی نہیں پا رہے۔
بلوچستان کے پتھریلے صحرائوں میں لوگ سارا سال پانی کو ترستے ہیں۔ پینے کو ملتا ہے نہ نہانے کو‘ بہت دور دراز سے جنہیں کم یاب کے طورپر لانا پڑتا ہے۔ اور انہی پتھریلے صحرائوں میں جب بارشوں کے موسم میں پانی کے ریلے امڈتے ہیں تو لوگوں کی پیاس بجھانے کیلئے نہیں‘ سوکھے دھانوں میں ہریالی لانے کیلئے نہیں بلکہ لوگوں کی جانیں لینے کیلئے۔ ان کی بستیاں ملیا میٹ کرنے کیلئے۔ بلوچستان میں جو تباہی آئی ہے‘ جو قیامت پرپا ہوئی ہے‘ اس کی تفصیل بی بی سی پر ملے گی یا سوشل میڈیا پر‘ ہمارا قومی میڈیا تصویر کشی نہیں کرتا‘ ایسی تباہی کے موقع پر وہ صرف سکور بورڈ کا کردار ادا کرتا ہے‘ آ ج مرنے والوں کی تعداد اتنی ہو گئی‘ کل اتنے مرے تھے‘ آج اتنے‘ قومی میڈیا پہلے ایسا نہیں تھا۔ 1970ء میں اور پھر 75ء میں بالترتیب مشرقی اور مغربی پاکستان میں جو سیلاب آئے اور 2007ء میں جو زلزلہ آٰیا‘ اس کی پوری تصویر کشی کی۔ باقی اہل وطن نے مصیبت زدگان کیلئے امداد کے ڈھیر لگا دیئے۔ اب سارا وقت اور توجہ سیاسی بحران بلکہ سیاسی تماشے پر ہے۔ ایسا سیاسی سرکس جس نے ملک کو ساری دنیا میں تماشا بنا دیا ہے۔ تماشا دیکھ کر بھارت ہنس رہا ہے۔ اسرائیل مسکرا رہا ہے۔ اور تو اور ہمارے اتحادی طالبان بھی مزے لے رہے ہیں۔ تصویریں آئی ہیں‘ ایک ننھا منا دو تین سال کا بچہ پانی میں اکیلا پڑا ہوا ہے۔ زندہ نہیں ہے۔ مر چکا ہے۔ اس کے ماں باپ کا کچھ پتہ نہیں۔کوئی نہیں جانتا اس کی لاش کہاں سے آ ئی۔ ایک جگہ کیچڑ  میں پانچ چھ بچوں کی لاشیں پڑی ہیں۔ ایک تصویر میںکسی بدقسمت کی لاش درخت کی شاخ سے لٹکی ہے۔ بہتے پانی میں آئی ہوئی‘ درخت کی اس شاخ سے اٹک گئی ہوگی۔ پانی اتر گیا‘ لاش نہیں اترسکی۔
معاملہ بلوچستان کا ہے جو توجہ کے حوالے سے ہمیشہ کم نصیب ہی رہا۔ اطلاعات کے مطابق الخدمت کے رضاکار مصیبت زدگان کی مدد کر رہے ہیں‘ لیکن مصیبت الخدمت کے دائرہ حکومت سے کہیں بڑھ کر ہے۔ بلوچستان والو‘ صبر کرو۔ شیر نہیں آئے گا۔ شیر نہیں آئے گا‘ لیکن سنتے سنتے اب لگتا ہے شیر سچ میں قریب آپہنچا۔ ملک معاشی دیوالیہ پن کی منزل پانے کو ہے۔ ہزار دعوے کئے‘ ہزار دعائیں‘ لیکن‘ لیکن ٹلتی ہوئی ہونی کو ہم نے ٹنلے سے روک دیا اور نوبت ایں جارسید کہ آرمی چیف کو امریکہ سے اپیل کرنا پڑ گئی کہ آئی ایم ایف کے دل میں ہمارے لئے رحم ڈالے۔ روکی قسط جاری کرے۔
ایسی نوبت آئی ہی کیوں‘ یہ ہمارے آپ کے سوچنے کی بات ہے جو اس کے ذمہ دار ہیں‘ وہ کہاں سوچیں گے۔ کہانی آج سے خراب نہیں ہوئی‘ اسے شروع ہوئے آٹھواں سال ہے۔ 2014ء میں کیا یہی حالات تھے؟ معیشت مستحکم تھی‘ کوئی اندیشہ‘ دور دراز والا بھی نہیں تھا۔ روزگار کے مواقع بڑھ رہے تھے۔ مہنگائی کنٹرول میں تھی۔ سڑکیں شاہراہیں بن رہی تھیں۔ سکول‘ کالج‘ ہسپتال ہر علاقے میں تعمیر ہو رہے تھے۔ سی پیک کا غلغلہ تھا۔ ایسی خوش خبریاں آنے کی توقع تھی جن کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ  ہفت آسمان کی گردش الٹ چال چلنے لگی اور حجرۂ  ہفت بلا کے در کھلنے لگے۔
2017ء میں ملک کو عدم استحکام میں بہت گہرا دھکیل دیا گیا اور اس کے بعد کوئی پل چین کا آیا ہی نہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کو معاشی طورپر تباہ کرنا عالمی ایجنڈا ہے۔ عالمی ہو یا دیسی‘ اس بحث میں پڑنے سے کا فائدہ ۔جو ہے  بالکل سامنے ہے اور اس پر کوئی تنازعہ بھی نہیں ہے جو ہے وہ یہ ہے کہ ایجنڈا بہرحال ہے اور وہ کامیابی سے آگے بڑھ رہا ہے اور اس کے سامنے بند باندھنے والا کوئی نظر نہیں آ تا۔ کیوں نظر نہیں آتا‘ شاید یہ بھی ایجنڈے کا ہی کا نکتہ ہوگا۔
آفتاب صداقت‘ ماہتابِ‘ امانت‘ شہزادہ جان عالم کے بارے میں فنانشل ٹائمز کی رپورٹ پر سوشل میڈیا‘ الیکٹرانک میڈیا اور چوک چوراہے والے میڈیا پر ہلچل ہے‘ کھلبلی ہے‘ کہرام ہے‘ لیکن کمال کی بات ہے‘ صدق ‘ صفت‘ امان‘ پیکر جماعت ذرا بھی لرزہ براندام نہیں۔  و ہراس ہے نہ خوف‘ الٹا طمانیت کا پیکر بنی ہوئی ہے‘ کسی نے کچھ خاص ردعمل بھی نہیں دیا کہا بھی تو بس اتنا کہ تو کیا ہو گیا۔ فارن فنڈنگ ہی تو لی ہے۔ کوئی اقامہ تو نہیں بنایا۔
یہ طمانیت اور بے فکری کس بات کی غماز ہے؟ ظاہر ہے اس کی کہ کچھ نہیں ہونے والا۔
 ارے بھئی اصحابِ کشف و معرفت ہیں روشن ضمیرا‘ صفا باطن ہیں۔ دل کے آئینے میں جام جہاں نما رکھا ہے۔ نظر ڈالی‘ پتہ چلا تھا کہ کچھ بھی نہیں ہونے والا اور پچھلے برسوں کا تجربہ بھی تو یہی بتاتا ہے۔ ہزار سکینڈل آئے‘ پتہ ہلا نہ کوئی جوں رینگی … کتنا موزوں بیٹھتا ہے کہ ہزار دام سے نکلا ہوں ایک جنبش میں
جسے غرور ہو‘ آئے کرے شکار مجھے
یہاں ’’دام‘‘ کی جگہ سکینڈل پڑھئے‘ لیکن بہتر ہے کہ مت پڑھیے۔ کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ ایک معزز اور نہایت باخبر رپورٹر اور مبصر انصارعباسی محترم کا وی لاگ ابھی کچھ دیر پہلے سنا۔ فرما رہے تھے‘ فنانشل ٹائمز کی رپورٹ اور فارن فنڈنگ کیس سے پی ٹی آئی کو کچھ نقصان نہیں ہوگا۔ الٹا کچھ فائدہ ہی ہو جائے گا۔ لیجئے صاحب‘ یہ شعر اسی موقع کیلئے ہی تو کہا گیا ہوگا کہ
جوان کی زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں ہے

مزیدخبریں