کہتے ہیں کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی جلد یا بدیر چھری کے نیچے آئے گی تو کچھ غلط نہیں کہتے اور لگتا ہے یہ محاورہ بیچاری عوام پر پوری طرح فٹ آ تا ہے۔ ایک عرصے سے عوام ہی قربانی کا بکرا بنی ہوئی ہے بلکہ ہر بجٹ میں یہ اشرافیہ کی مدد کرتی ہی نظر اتی ہے اور غریب غربا بجٹ کے اعداد و شمار میں ہی الجھ کر رہ جاتے ہیں۔ ویسے بھی ہر دفعہ بجٹ میں بیچاری عوام کے ساتھ بندر بانٹ والا معاملہ ہی روا رکھا جاتا ہے، جہاں مراعات یافتہ طبقات اور عوام کے ساتھ میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو والی صورتحال درپیش ہوتی ہے۔ ایک عرصے سے ہر شاخ پر الو بیٹھنے کی وجہ سے ملکی اداروں کا برا حال ہو چکا ہے۔ جن اداروں کو منافع بخش اور حکومت کا مددگار ہونا چاہیے تھا وہ سفید ہاتھی ثابت ہو رہے ہیں۔ پی آئی اے، واپڈا، ریلوے، مواصلات، سٹیل ملز، ریڈیو، ٹی وی اور فنون لطیفہ کے دیگر اداروں کی زبوں حالی بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ ایک عرصے سے ٹی وی کے محکمہ کی مدد کے لیے بجلی کے بلوں میں 35 روپے ہر صارف سے وصول کیے جا رہے تھے۔ اب 15 روپے ریڈیو کی مد میں بھی شامل کر دیے گئے ہیں کیونکہ ریڈیو جیسے اہم ادارے کے حالات بھی خطرے کے نشان کو کراس کر گئے ہیں۔ ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کے ساتھ ساتھ فنکاروں کو معاوضہ ملنا بھی ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔لگتا ہے کہ حکومت کے پاس بجلی کے بل کی صورت الہ دین کا جن قابو میں آگیا ہے۔ ٹی وی اور ریڈیو کی مد میں عوام کی طرف سے کروڑوں روپے جمع ہوتے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ دیگر اداروں کی زبوں حالی دور کرنے کے لیے مزید ٹیکس بھی بجلی کے بل میں شامل کر دیے جائیں تا کہ مزید کئی جاں بلب اداروں کے دلدر دور ہو سکیں۔ پہلے بھی بے شمار ٹیکس بجلی کے بل میں شامل کر کے بلوں کو دیدہ زیب بنا کر عوام کو بلبلانے پر مجبور کیا جا رہا ہے اور عوام بجلی کا بل بھرنے کے بعد محض آہیں بھرتے ہی نظر آتے ہیں۔ ہمارے ملک میں غربت سے نیچے کی لکیر تک خاصی عوام پہنچ چکی ہے۔ شاید اس لیے حکومت نے اقلیت پر مبنی اشرافیہ کا بوجھ اکثریتی عوام پر ڈال رکھا ہے۔ بہت سے محکموں کی دادرسی کے لیے بجلی کے بل میں مزید امدادی فنڈز بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔ حکومت کو اس قسم کی تجویز دینے والے ارسطو کو یقینا خاص انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا ہوگا۔
حیرت اس بات کی ہے کہ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط اور عزت نفس کو داؤ پر لگانے کی صورت میں جو قرضہ ملا ہے۔ اسے بھی وہ اپنے اللے تللوں پر خرچ کرتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایک غریب ملک میں کمشنر ڈی سی اور دیگر بیوروکریسی کے پروٹوکول کروفر اور مراعات میں کوئی کمی نہیں آئی اور ان کے لیے مزید نئی لگڑری گاڑیاں منگوائی گئی ہیں۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کے اراکان کے لیے مزید مراعات کے بل منظور کیے جا رہے ہیں اور عوام کا ہر طرف سے ناطقہ بند کرنے کے لیے مختلف قسم کے قوانین سازی سے بھی پرہیز نہیں کیا جا رہا۔ پٹرول، بجلی، گیس، آٹا، چینی اور دیگر اشیاء ضروریات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے سے عوام کے ہوش اڑائے جا رہے ہیں۔ گویا بسمل کو بسمل اور بنا کے فارمولے پر پوری شدت سے عمل کیا جا رہا ہے یعنی دکھ جھیلے بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں والی صورت حال ہے۔
ملک میں امن و امان کی ابتری بنیادی حقوق کی پامالی اور انصاف میں تاخیر کے ذریعے معاشرے میں عدم برداشت کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ بچوں پر تشدد اور اعلیٰ طبقات کی طرف سے گھریلو ملازمین سے ناروا سلوک کی داستانیں بھی زبان زد عام ہیں لیکن ان کے تدارک کے لیے ریاست کی رٹ ہمیشہ سے ناکام ہی نظر آتی ہے۔ لگتا ہے قانون اور انصاف کا شکنجہ اب صرف بیچاری غریب عوام کے لیے مخصوص ہو گیا ہے اور اشرافیہ کے لیے یہ مکڑی کا جالا ثابت ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں انارکی پھیلتی جا رہی ہے اور لوگوں کا اداروں پر سے اعتماد اٹھتا جا رہا ہے۔ ملک سے کرپشن، سفارش، ملاوٹ، مہنگائی، بدامنی، بے روزگاری اور قانون شکنی کا خاتمہ کرنے کی بجائے ان معاملات سے چشم پوشی کی جا رہی ہے اور بیچارے عوام پر اس کی بساط سے بڑھ کر بوجھ لادا جارہا ہے۔ عوام کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے ضروری ہے کہ غریب عوام کی قوت خرید کو بڑھانے کے لیے اس کو بھی مراعات یافتہ طبقے میں شامل کیا جائے اور مراعات یا فتہ طبقے کی پٹرول، بجلی، گیس اور دیگر مراعات میں کمی کی جائے تاکہ اس مشکل گھڑی میں ڈوبتی معیشت کی ناؤ کو بچانے کے لیے ان مراعات یافتہ طبقات سے بھی قربانی لی جائے ورنہ عوام تو قربانی کا بکرا بنی ہی ہوئی ہے اور کہتی سنائی دے رہی ہے کہ
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرۂ خوں نہ نکلا