ہماری سیاسی قیادت ہر وہ حربہ جس سے اسے فائدہ پہنچ سکے نہ صرف جانتی ہے بلکہ اسے استعمال کر کے اپنے مفادات کے تحفظ کو بھی یقینی بناتی ہے۔ یہ صورتحال اب اسمبلیوں کی آئینی مدت مکمل ہونے کے موقع پر دیکھنے میں آرہی ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلیاں تو پہلے ہی تحلیل ہوچکی ہیں، اب قومی اسمبلی اور سندھ و بلوچستان کی صوبائی اسمبلیوں کے حوالے سے بھی یہی امکان دکھائی دے رہا ہے کہ انھیں آئین میں درج پارلیمانی مدت مکمل ہونے سے پہلے ختم کیا جائے گا تاکہ عام انتخابات 60 کی بجائے 90 دن میں ہوں۔ آئین کے آرٹیکل 224کہتا ہے کہ اگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی آئینی مدت پوری کر کے ختم ہوں تو پھر عام انتخابات 60 دن میں کرائے جائیں گے تاہم اگر اسمبلیوں کو آئینی مدت مکمل ہونے سے پہلے تحلیل کردیا جائے تو پھر انتخابات 90 دن کے اندر ہوں گے۔ اسی نکتے کو بنیاد بنا کر حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں یہ فیصلہ کررہی ہیں کہ قومی اسمبلی اور سندھ اسمبلی کو آئینی مدت پوری ہونے سے پہلے تحلیل کردیا جائے۔ امکان یہی ہے کہ ایسی صورت میں بلوچستان اسمبلی بھی مدت مکمل نہیں کرے گی۔
اس سلسلے میں بات کرتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ (نواز) کے سینئر مرکزی رہنما خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ میرے خیال میں 90 دن میں الیکشن ہوں یہی ہمیں سوٹ بھی کرتا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے الیکشن 90 دن سے بھی پہلے ہوں۔ میرے خیال میں اسمبلیاں دو دن پہلے تحلیل ہو جائیںگی۔ ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے نون لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی نے 5 نام شارٹ لسٹ کر لیے ہیں۔ جن افراد کے نام اس فہرست میں شامل ہیں وہ تمام افراد سیاستدان ہیں۔ یہ نام اب دوسری پارٹیوں سے بھی ڈسکس ہوں گے۔ نگران وزیراعظم کا نام ایک ہفتے میں فائنل ہو جائے گا۔ حتمی فیصلہ اتحادی جماعتوں کی قیادت کرے گی۔ انھوں نے مزید کہا کہ مجھے نگران وزیراعظم کے حوالے سے کوئی آفر نہیں ہوئی۔
دوسری جانب، وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے 48 گھنٹے قبل اسے تحلیل کردیا جائے گا۔ ایک نجی ٹی وی کے پروگرام سے گفتگو کے دوران نگران حکومت کے حوالے سے کسی ڈیڈ لاک یا تاخیر کی تردید کرتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسمبلی جس روز اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اس سے 48 گھنٹے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انتظامات کرنے کے لیے 60 کے بجائے 90 دن میسر ہوں اور اس میں کسی قسم کے ابہام کی ضرورت نہیں ہے۔ نگران وزیر اعظم کے حوالے سے سوال پر انھوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے ایک نام آیا اور وہ مسترد ہو گیا۔ اسحاق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ مسلم لیگ (ن) نے یہ بات کی نہ ہی ہمارے کسی رہنما نے یہ بات کی، یہ افواہ ہو سکتی ہے جسے خبر بنا کر لیک کیا گیا۔
ادھر، وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ سندھ اسمبلی 11 اگست کو تحلیل ہوسکتی ہے جس سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے مزید 3 مہینے مل جائیں گے۔ ایک انٹرویومیں مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ مجھے خبریں مل رہی ہیں اور تبادلۂ خیال ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کے لیے 3 ماہ کا وقت چاہتا ہے۔انھوںنے مزید کہاکہ اگر ہم سمجھیں کہ انتخابات 3 ماہ میں ہوں گے تو پھر ہم ایک روز قبل 11 اگست کو اسمبلی تحلیل کردیں گے، میں گورنر کو اس کی تجویز دوں گا اور وہ اسی دن منظوری دیں گے۔مراد علی شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے دو ماہ چاہئیں تو پھر اسمبلی شیڈول کے مطابق تحلیل ہوگی۔ دوسری صورت میں صوبائی اسمبلی 11 اگست کو تحلیل ہوگی تاکہ الیکشن کمیشن کو سہولت دی جائے کہ اس سے 3 ماہ کا وقت مل جائے۔
اسمبلیوں کے اپنی مدت مکمل ہونے سے قبل تحلیل ہونے سے الیکشن کمیشن کو سہولت ملے یا نہ ملے لیکن یہ طے ہے حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو مزید ایک مہینہ ضرور مل جائے گا اسی لیے اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری نہیں ہونے دی جائے گی۔ وفاق میں حکومت کا حصہ بننے والی جماعتیں گزشتہ سوا سال سے اقتدار میں تو ہیں لیکن ساتھ وہ مسلسل جوڑ توڑ میں بھی مصروف ہیں تاکہ آئندہ عام انتخابات میں وہ اپنے لیے خاطر خواہ نتائج کا بندوبست کرسکیں۔ اس سلسلے میں ملاقاتیں اور مشاورتیں صرف ملک کے اندر ہی نہیں بلکہ باہر بھی ہورہی ہیں اور نون لیگ کے قائد محمد نواز شریف اس حوالے سے سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔ اس وقت بھی وہ اٹلی ہیں جس کے بعد ان کا سوئٹزر لینڈ اور جرمنی کا دورہ بھی متوقع ہے اور کہا جارہا ہے کہ یورپ میں قیام کے دوران ان کی سیاسی رہنماؤں سے اہم ملاقاتیں متوقع ہیں۔
اسمبلیاں اپنی مدت مکمل کریں یا انھیں قبل از وقت تحلیل کردیا جائے، بہر صورت عام انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے تمام مراحل رواں برس کے ختم ہونے سے پہلے طے ہونے چاہئیں کیونکہ یہ واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ ملک اس وقت جن مسائل میں گھرا ہوا ہے ان کا حل صرف اسی صورت میں نکل سکتا ہے کہ عام انتخابات ہوں اور ان کے نتیجے میں ایک نئی حکومت قائم ہو جو معاملات کو سدھارنے کے لیے کردار ادا کرے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ سوا سال پہلے وفاق میں قائم ہونے والی اتحادی حکومت نے نہ صرف عوام کو مایوس کیا بلکہ ان کے معاشی بوجھ کو اس قدر بڑھا دیا کہ عام آدمی کا جینا محال ہوچکا ہے۔ ضروری اشیاء کی قیمتوں میں اس سوا سال کے دوران ہونے والے ہوش ربا اضافے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتحادی حکومت کو عام آدمی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ اس صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو آئندہ عام انتخابات میں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو عوام کی طرف سے مینڈیٹ ملنے کے امکانات بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔