مسلم لیگ (نون) کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے تین سرگرم افراد سے اتفاقاََ الگ الگ ملاقاتیں ہوگئیں۔یہ تینوں 1990ءکے آغاز سے قومی یا پنجاب اسمبلیوں کے انتخاب میں حصہ لیتے رہے ہیں۔مرکزمیں اہم وزارتیں انہیں کبھی نصیب نہیں ہوئیں۔وہ اور ان کا خاندان مگر اپنے حلقوں میں نواز شریف کے ثابت قدم وفادار شمار ہوتے ہیں۔ان میں سے کم از کم دو نے تمام تر دباﺅ کے باوجود جنرل مشرف کے دور میں شراکت اقتدار کے لئے تشکیل دی مسلم لیگ (ق) میں شمولیت سے بھی انکار کردیا تھا۔
دیرینہ شناسائی کی بدولت انہوں نے ”دل کی بات“ بتانے کے لئے مجھ سے ان کے نام نہ لکھنے کا تقاضہ کیا۔ وعدہ ہوگیا تو بے بسی سے اعتراف کرنے لگے کہ وہ اپنے حلقوں میں ووٹروں کو ”منہ دکھانے جوگے“ نہیں رہے۔ مصر رہے کہ ان کے دیرینہ اور ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والے سپورٹر بھی یہ بات تسلیم کرنے کو آمادہ نہیں کہ ان کی جماعت پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے لئے آئی ایم ایف کی ہر بات ماننے کو مجبور ہوئی۔ نہ ہی یہ دعویٰ بھی کہ پاکستان کو دیوالیہ کے قریب درحقیقت عمران حکومت کی غیر ذمہ دارانہ پالیسیوں نے دھکیلا تھا۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے سے کہیں زیادہ وہ اپنی جماعت کی ان دنوں غیر مقبولیت کا اصل سبب بجلی اور گیس کے مسلسل بڑھتے نرخوں کو ٹھہراتے رہے۔جن دوستوں سے ملاقات ہوئی انہوں نے یہ ”خبر“ بھی دی کہ ان کے حلقے میں ووٹروں کی اکثریت کو ہرگز یہ امید نہیں کہ تحریک انصاف اگر اقتدار میں تو آئی ایم ایف کو ٹھینگا دکھانے کے بعد مہنگائی کے اعتبار سے عوام کی زندگی آسان بنانے کی تراکیب ڈھونڈ لے گی۔ اصل د±کھ انہیں یہ تھا کہ مہنگائی کی بدولت عوام کے دلوں میں جو غصہ ابل رہا ہے اس کا اظہار وہ مسلم لیگ (نون) کے نامزد کردہ امیداروں کے خلاف ووٹ ڈالتے ہوئے کرنا چاہیں گے۔
عام انتخابات میں نسلوں سے حصہ لینے والے امیدوار اپنے حلقے کے رائے دہندگان کے جذبات جبلی طورپر جانتے ہیں۔ ایسے ہی ایک سیاستدان کے ساتھ میری 1997ءکی انتخابی مہم کے دوران موصوف کے حلقے میں کئی ملاقاتیں ہوئی تھیں۔میں جب بھی ان کے ”ڈیرے“ پر جاتا تو وہاں موجود ایک نسبتاََ نوجوان کارکن بہت گرم جوشی سے میرا استقبال کرتا اور مذکورہ سیاستدان کے ساتھ میری گفتگو کو بہت اشتیاق سے سنتا۔ ایک دن اچانک مجھے احساس ہوا کہ اس نوجوان کی موجودگی میں میرے میزبان گفتگو میں محتاط ہوجاتے ہیں۔ان کے حلقے سے رخصت سے قبل میں ان سے ملنے گیا تو وہ ایک گاﺅ میں جلسے سے خطاب کیلئے گھر سے نکل رہے تھے۔وہ گاﺅں لاہور تک میرے راستے میں تھا۔انہوں نے اس گاﺅں تک مجھے اپنی گاڑی میں بیٹھنے کی دعوت دی جسے وہ خود چلارہے تھے۔ اس میں کسی اور شخص کو انہوں نے میری موجودگی میں بیٹھنے نہ دیا۔ گاڑی سٹارٹ ہوئی تو میں نے اس نوجوان کا ذکر کیا جس کی موجودگی میں وہ میری دانست میں محتاط ہوجاتے تھے۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے میری قوت مشاہدہ کو سراہا اور حقارت سے اطلاع دی کہ وہ نوجوان ان کے مخالف امیدوار کا ”جاسوس“ ہے۔ ”میری برادری کا ہوتے ہوئے بھی اس سے مل گیا ہے۔اس کے ہوتے ہوئے میں اپنی حکمت عملی زیر بحث لانے میں محتاط رہتا ہوں“۔
کئی برس پہلے ہوا یہ واقعہ محض یہ اصرار کرنے کو دہرانا لازمی تھا کہ نسلوں سے انتخابی معرکوں میں حصہ لینے کے عادی اپنے حلقوں میں رائے دہندگان کے دلوں کی بات جبلی طورپر جان لیتے ہیں۔اگر اس حقیقت کو تسلیم کرلیا جائے تو مسلم لیگ (نون) کی قیادت کو ان خدشات کو انتہائی سنجیدگی سے لینا ہوگا جن کا اظہار اس جماعت کے تین سرکردہ رہ نمایاں نے میرے ساتھ ہوئی گفتگو کے دوران کیا ہے۔ مسلم لیگ کی قیادت تاہم ان کے جذبات سے غافل نظر آرہی ہے۔ اگر وہ اس ضمن میں غافل نہ ہوتی تو گزشتہ ہفتے کے آغاز میں یہ ”خبر“ نہ پھیلتی کہ مسلم لیگ (نون) وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو موجودہ حکومت کی تحلیل کے بعد نگران حکومت کا وزیر اعظم بنانا چاہ رہی ہے۔ہم صحافیوں کی اکثریت بھی اس ”خبر“ کو سنجیدگی سے لینے کے لئے اس لئے مجبور ہوئی کیونکہ ”اچانک“ نگران حکومت کے اختیارات کو باقاعدہ منتخب وزیراعظم کے مسادی بنانے کے لئے یکایک الیکشن ایکٹ میں ترمیم کا اعلان ہوا جسے حکمران اتحاد کی چند جماعتوں کے اِکا د±کا اراکین سینٹ کی ”مزاحمت“ کے بعد بالآخر عجلت میں منظور کرلیا گیا۔
نگران وزیراعظم کو منتخب وزیر اعظم کے مساو ی اختیارات فراہم کردینے کے بعد مسلم لیگ (نون) اگر اپنی پسند کے کسی فرد کو نگران وزیر اعظم نامزد کروانے میں ناکام رہی تو اپنے دیرینہ ووٹروں کی نگاہ میں پنجابی محاورے کے مطابق مزید ”گندی“ ہوجائے گی۔ ان کے یا کسی اتحادی جماعت کے نامزد کردہ سیاستدان کے بجائے اگر کوئی ٹیکنوکریٹ آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے پر کامل عملدرآمد کو یقینی بنانے کے نام پر تعینات ہوگیا تو اس کے ”اختیار“ کی بدولت عوام پر ممکنہ طورپر نازل ہوا مہنگائی کا مزید عذاب مسلم لیگ (نون) کے کھاتے ہی میں جائے گا۔ اس کی قیادت کندھے اچکاکر خود کو اس ضمن میں بے خطا ثابت نہیں کرپائے گی۔ ایسی صورت میں مجھے خدشہ ہے کہ وسطی پنجاب کے بے شمار حلقوں میں تگڑے الیکٹ ایبل مسلم لیگ (نون) سے دیرینہ تعلق کے باوجود ”آزاد“ امیدوار کی حیثیت میں انتخابی اکھاڑے میں اترنے کو ترجیح دیں گے۔ تحریک انصاف اگر عمران خان کی عدم موجودگی میں بھرپور انتخابی مہم چلانے کے قابل نہ رہی تو پنجاب میں چودھری پرویز الٰہی قانونی مشکلات سے نبردآزما ہونے کے بعد انتخابی جوڑ توڑ کے حوالے سے اپنے تجربے کی بدولت مسلم لیگ (نون) کے نامزد کردہ امیدواروں کے لئے ”خطرے ناک“ ثابت ہوسکتے ہیں۔
پاکستان پیپلزپارٹی کی انتخابی قوت کو پنجاب میں اصل دھچکہ 1997ءمیں پہنچا تھا۔ یہ جماعت اس دھچکے سے آج بھی خود کو بحال نہیں کر پائی ہے۔مجھے خدشہ ہے کہ اگر حالات ایسے ہی رہے تو انتخاب اگر واقعتا 2023ءمیں ہوئے تو یہ برس مسلم لیگ (نون) کے لئے ویسی ہی ”بدخبری“ لاسکتا ہے۔