ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

باتیں…نسیم گْل خٹک
naseemgulkhattak@gmail.com 

پی ڈی ایم حکومت نے انتخابی اصلاحات کا بل بڑی عجلت لیکن انتہائی سرعت کے ساتھ کثرتِ رائے سے منظور بھی کروا لیا ہے۔ حالانکہ اْن کی مدت ختم ہونے میں چند ہفتے کی رہ گئے ہیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ بل کا عنوان یعنی ٹائٹل تو انتخابی اصلاحات ہے مگر اندرونی کہانی سے پتہ چلتا ہے کہ بل کا اصل مقصد صرف اور صرف نگران حکومت کو وہ تمام اختیارات دینے تھے جو ایک منتخب عوامی حکومت کا اختیار ہوتا ہے۔ لہٰذہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ایسی حکومت جس کا عوام سے جمہوری تعلق فقط نام کا بھی نہیں ہوتا پھر یہ کہ وہ ایک مخصوص مدت کے لئے ہوتی ہے یعنی آئین کے مطابق نوے دن… پھر یہ کہ دوران حکومت وہ قومی پالیسیوں کا تعین نہیں کر سکتی نا ہی بین الاقوامی معاہدے کرنے کی مجاز اور نا ہی قومی سطح کا کوئی منصوبہ شروع کر سکتی ہے۔ نگران حکومت کی ذمہ داری محض ریاست اور ریاستی امور کی نگرانی کرنا ہے، جبکہ نگران حکومت کے قیام اور لانے کا اصل مقصد اْن کے زیرِ نگرانی شفاف انتخابات کروانا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔
پی ڈی ایم اتحادی حکومت اس وقت جو کچھ کر رہی ہے وہ عوام کے بالکل سامنے ہے۔ جب سے پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت عوام پر مسلط کی گئی ہے اْس وقت سے لے کر آج تک پاکستان کی عوام سْکھ کا کوئی ایک سانس بھی نہیں لے پائی ہے۔ ہر روز ایسے اعلانات بڑی ڈھٹائی سے کئے جاتے ہیں جو عوام کے لئے دْکھ اور تکلیف کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً آسمان سے باتیں کرتی تیل کی قیمتیں، اشیائے خورد و نوش کی خریداری سے پہلے خریدار کی دردناک سوچیں جو اْسے بہت ہی اذیت پہنچاتی ہیں۔ اس مرتبہ عید الفطر اور عید الاضحی پر پردیسیوں کی بہت ہی قلیل تعداد آبائی علاقوں میں اپنے والدین، بہن بھائیوں اور رشتہ داروں کے ساتھ عید منا سکی ہے۔ کثیر تعداد میں لوگ اس بے پایاں خوشی سے محروم ہی رہے، وجہ صرف اور صرف ہوشربا کرائے تھے جن کی ادائیگی عام آدمی کی طاقت سے باہر تھی اور ہے۔ گیس کی قیمتیں دو گْنا سے بھی زیادہ ہوچکی ہیں اور بجلی کی اگر صرف بات ہی کریں تو سر پر جیسے بجلیاں گر جاتی ہیں۔ میرے اندازے کے مطابق اس وقت دْنیا بھر میں اتنی مہنگی بجلی کہیں بھی نہ ہو گی جتنی پاکستان میں ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ پاکستان میں ایک محنت کش (مزدور) کی ماہانہ آمدنی 30ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ وہ گھر کا ماہانہ کرایہ چھ تا سات ہزار روپیہ دیتا ہے مگر افسوس صد افسوس اْسے بجلی کا بل بھی تقریباً اتنا ہی بھرنا پڑتا ہے بلکہ بسا اوقات اس سے بھی زیادہ اور اگر گیس کا بل بھی شامل کر دو تو پھر بات دس ہزار روپے سے بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی ایک مزدور اپنی ماہانہ آمدنی کا چالیس فیصد محض بجلی اور گیس استعمال کرنے کی پاداش میں چھیننے والوں کے حوالے کر دیتا ہے ، اسے کہتے ہیں کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ آپ بتائو کہ دنیا میں وہ کون سا ملک ہے جو اس کے مساوی بجلی کی قیمت جو پاکستانی عوام سے مکاری سے لی جاتی ہے وہ ادا کرتے ہوں یا پھر اس سے بھی زیادہ؟
دنیا بھر میں مسلمہ قانون یہ ہے کہ اگر خریدار کوئی بھی چیز زیادہ مقدار میں خریدے گا تو اس کے لئے رعائیت میں بھی اْسی قدر اضافہ کیا جائے گا، مگر یہاں پر تو اْلٹی گنگا بہائی جا رہی ہے۔ یعنی جو بجلی زیادہ استعمال کرتا ہے اْسے رعایت دینے کی بجائے اْلٹا اْس سے کئی گنا زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے۔با الفاظ دیگر جْرمانہ کیا جاتا ہے، حالانکہ جْرمانہ تو جْرم کے بدلے میں لگایا جاتا ہے مگر یہاں تو جرم بھی کوئی نہیں کرتا لیکن سزا لازم۔ اوپر سے وہ کام کر دیا ہے جو دشمن بھی نہیں کر سکے تھے، یعنی بجلی کے ذریعے قوم کی تقسیم۔ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت نے بجلی کی بلوں میںسلیبیں (درجہ بندیاں) لگا کر پاکستانی معاشرے کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ جبکہ قانون ہمیشہ سب کے لئے ایک ہی ہوتا ہے۔ عوام پر ظلم ڈھانے کے جو مختلف اوزار استعمال کئے جاتے ہیں اْن میں ایک فیول ایڈجیسٹمینٹ بھی ہے، اس وقت تمام ڈیم بھرے ہوئے ہیں اور دھڑا دھڑ بجلی بنا رہے ہیںمثلاً تربیلا ڈیم (تقریباً چھ ہزار میگا واٹ) منگلا ڈیم (بارہ سو میگا واٹ سے زیادہ) اسی طرح جناح بیراج اور دیگر کئی بیراج کئی ٹربائن، ایٹمی ری ایکٹر اور تھر کول پاور پروجیکٹ مندرجہ بالا ذرائع سے انتہائی سستی بجلی حاصل ہو رہی ہے مگر عوام کو اس سے مستفیذ نہیں ہونے دیا جا رہا ہے۔ کیونکہ اس کی قیمت بھی تیل کے خرچ سے منسوب کر دی گئی ہے۔ پی ڈی ایم حکومت کی حرص ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ انہوں نے تو سگریٹ پینے والوں کو بھی نہیں بخشا اور جواز یہ پیش کیا کہ اس سے سگریٹ نوشی کم ہو جائے گی جو کہ سراسر بد نیتی پر مبنی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انہیں عوام کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔بھئی اگر آپ عوام کے بہی خواہ ہوتے تو سگریٹ پر پابندی لگا دیتے مگر پی ڈی ایم کی حکومت کو عوام سے کیا سروکار ان کا مقصد تو مال و دولت ہے۔ یہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر کسی اور پر لگاتے ہیںمگر قرض کی ادائیگی عوام سے کرواتے ہیں۔ پھر یہ کہ پاکستان کی جو وسائل ہیںوہ بھی عوام کی پہنچ سے دور بلکہ بہت ہی دور کئے جا چکے ہیں۔ پاکستان تو عوام نے بنایا ہے مگر عیش کوئی اور کر رہا ہے اور وہ بھی پاکستان کے نام پر۔
 اور یہ جو انتخابی اصلاحات کا بل عجلت میں پاس کی گیا ہے اس کا مقصد آنے والی نگران حکومت کو ایسے اختیارات دینا ہیںجس سے اْن کی گرفت عوام کی گردنوں پر مزید سخت ہو جائے۔یاد رکھو ظلم جس قدر تیزی سے بڑھتا ہے اْس سے کئی گنا تیزی سے مٹ جاتا ہے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں یہ بتا دے کہ یہ راستہ کہاں جاتا ہے؟

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...