فیض عالم
قاضی عبدالرئوف معینی
چینی زبان و ادب کی ایک قدیم کہاوت کا ترجمہ ہے کہ ’’ اگر آپ مجھے مچھلی دیں گے تو میں آج کھائوں گا،اگر آپ مجھے مچھلی پکڑنا سکھائیں گے تو میں کل بھی کھا لوں گا‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی فرد میں خود انحصاری پیدا کرنے کے لیے مالی وسائل کے ساتھ تکنیکی مدد کرنا بھی لازم ہے۔اگر آپ کسی کو مچھلی دیتے ہیں تو وہ ایک دن کھا لے گا لیکن اس کی بجائے آپ اس کو مچھلی کا شکار کرنا سکھادیں گے تو تمام عمر خود بھی کھاتا رہے گا بلکہ گھر والوں کو بھی فراہم کرتا رہے گا۔سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ضرورت مند کی فوری مالی امداد کرنے کی بجائے اس کے روزگار کا بندوبست کر دیا جائے تاکہ وہ کسی کا محتاج نہ رہے۔یہ فلسفہ دنیا بھر میں بڑا مقبول ہوا اور اس پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔مغربی مصنف ’’سٹیفن آر کو?ے ‘‘ نے بھی اپنی بیسٹ سیلر تصنیف ’’کامیاب لوگوں کی سات عادات ‘‘ میں اس کاتفصیلی تذکرہ کیا۔
معلم اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت عرصہ پہلے ،جب انسان علم سے بہت دور تھا، اس کا عملی مظاہرہ کر کے دکھا دیا۔حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک انصاری نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر سوال کیا۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تمھارے گھر میں کچھ ہے۔ وہ کہنے لگا ایک ٹاٹ اور ایک پیالہ ہے۔آپ نے فرمایا یہ دونوں چیزیں میرے پاس لائو۔وہ لے آیا تو آپ نے ان کو ہاتھ میں پکڑ کر صحابہ کرام سے فرمایاکون ان دو چیزوں کو خریدتا ہے۔ایک آدمی نے کہا میں ان کو ایک درہم میں خریدتا ہوں۔آپ نے فرمایا ایک درہم سے زیادہ کون دیتا ہے۔آپ نے یہ بات دو یا تین بار دہرائی تو ایک آدمی نے کہا میں ان کو دو درہم میں خریدتا ہوں۔آپ نے دو درہم لے کر وہ چیزیں اس آدمی کے حوالے کر دیں۔اب آپ نے اس انصاری کو ایک درہم دے کر فرمایااس کا گھر والوں کے لیے کھانا خرید لو ا ور دوسرے درہم سے کلھاڑی خرید کر میرے پاس لائو۔جب وہ کلھاڑی خرید کر لایا تو آپ نے اپنے دست مبارک سے لکڑی کا دستہ ٹھونکا اور فرمایاجائو جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر بیچا کرو اور پندرہ دن بعد میرے پاس آنا۔پندرہ دن مین اس شخص نے دس درہم کمائے۔چند درہموں کا کپڑا خریدا اور چند کا کھانا اوریو ں وہ خوش حال ہو گیا۔آپ نے فرمایا کہ یہ تیرے لیے اس چیز سے بہتر ہے کہ قیامت کے دن سوال کرنے کی وجہ سے تیرے چہرے پر برا نشان ہو۔سیرت طیبہ سے یہ سبق آموز واقعہ معاشرہ میں گداگری کی حوصلہ شکنی کررہا ہے اور تھوڑے سرمایہ سے کارباور کرنے کی ترغیب بھی دے رہا ہے۔
الحمدللہ پاکستانی معاشرہ میں صدقہ خیرات کا رجحان بہت زیادہ ہے۔مخیر حضرات اپنے طور پر بہت سے لوگوں کی مدد کررہے ہیں۔طعام کے لیے لنگر جاری ہے۔فلاحی اور سماجی تنظیمیں صحت اور تعلیم کے شعبوں میں دن رات کام کر رہی ہیں۔عوام کی کثیر تعداد انفرادی طور پربھی صدقہ خیرات کر رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ گداگری کا شعبہ بھی سب سے سے زیادہ منافع بخش کاروبار بن چکا ہے۔ملک عزیز کا کوئی گائوں،قصبہ یا شہر ایسا نہیں جہاں ہٹے کٹے اور ڈرامہ باز گداگروں کی بھر مار نہ ہو۔بے لگام مہنگائی اور بے روزگاری نے مڈل کلاس کو گھسیٹ کر غریبوں کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔مہذب معاشروں میں عوام کی بنیادی سہولتوں کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ہمارے حکمران چونکہ اس ذمہ داری سے بری الذمہ ہیں۔لے دے کے ایک پروگرام انکم سپورٹ رہ گیا ہے جس میں بھی کرپشن کے قصے زبان زدعام ہیں۔حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ ہر مستحق ضعیف مرد و زن کو مفت علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرے اور ان کے لیے ماہانہ وظیفہ مقرر کرے۔صدقہ خیرات کے نظام کو منظم اور مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔کریم آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ پر عمل کرتے ہوے سوال کرنے والوں کے لیے باعزت روزگار کا اہتمام کیا جائے۔پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی خانقاہی نظام موجود ہے۔یہ نظام معاشرہ سے غربت اور بے روزگاری کے خاتمہ اور فلاحی سرگرمیوں میں بڑا اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔افسوس کہ گنتی کی چند خانقاہیںاپنے مشن پر گامزن ہیں۔خانقاہی نظام میںضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور کی ایک دور افتادہ بستی ’’بیربل شریف ‘‘ میں ایک ادارہ معین الاسلام گزشتہ چار دہائیوں سے علم کی شمع روشن کیے ہووے ہے۔ادرہ کے بانی پروفیسر محبوب حسین صاحب چونکہ ماہر تعلیم ہیں اس لیے ایک ایسا منفرد نصاب تیار کیا ہے جو دور حاضر کی ضروررتوں پر پورا اترتا ہے۔اس تعلیمی نصاب کی کامیابی کا ثبوت یہ ہے کہ گزشتہ چوالیس سالوں میں ہزاروں طالب علم فارغ التحصیل ہوے ان میں ایک بھی بے روزگار نہیں ہے۔یہ حضرات دین کی ترویج و اشاعت کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں میں خدمات سر انجام دے کر ملک عزیز کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ادارہ معین الاسلام دینی علوم اور عصری علوم کے امتزاج کی عمدہ مثال پیش کر رہا ہے۔بیک وقت حفظ،تجوید،درس نظامی اور پرائمری سے ایم اے تک کی سہولت میسر ہے۔بی ایڈ،ایم ایڈ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا کو رہنمائی اور وسائل مہیا کیے جاتے ہیں۔ادارہ میں عصری تعلیم سے محروم حفاظ ،بدقسمتی سے جن کو ان پڑھ حافظ کہا جاتا ہے ، کے لیے الگ شعبہ قائم ہے جو ان کے لیے عصری علوم کا اہتمام کرتا ہے۔ادارہ کے ایک کیمپس دربار شریف ایجوکیشنل کمپلیکس میں ایک نیا تجربہ کیا گیا جو کامیاب رہا۔اس کیمپس میںمڈل پاس حفاظ کو داخل کیا گیا اور چھ سالہ تعلیمی کورس تجوید ، میٹرک اور ثانویہ عامہ دو سال میں مکمل کروایا گیا۔اس عظیم کامیابی کے بعد اب اس کیمپس میں میٹرک سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم کا بھی آغاز ہو گیا ہے۔ادارہ میں قیام و طعام بالکل مفت ہے۔طلباء کی عزت نفس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔انہیں چند ہ مانگنے اور قربانی کی کھالوں کے لیے نہیں بھیجا جاتا۔ہر کیمپس کا الگ الگ بہترین یونیفار م ہے۔تعلیمی معیار اتنا شاندار ہے کہ ہر سال ادارہ کے طلبا تعلیمی بورڈ اور یونیورسٹی میں پوزیشنز حاصل کرتے ہیں۔طلبا کی شخصیت سازی اور کردار سازی پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔اگر ایسا شاندار نظام تعلیم و تربیت ہر خانقاہ کے ساتھ قائم ہو جائے تو ہمارے معاشرہ سے جہالت اور بے روزگاری کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔