قافلہ جب شام پہنچا

Jul 31, 2023

غلام شبیر عاصم

کالم:لفظوں کا پیرہن 
تحریر:غلام شبیر عاصم 
محرم الحرام کا چاند جب نکلتا ہے تو پیاسوں کی یاد میں پانی درد کے فرات کی عمیق گہرائیوں سے سفر کرکے چاند کو دیکھ کر وارثانِ امام حسینؓ  کو پْرسہ دینے کے لئے پلکوں کی منڈیر پر آ جاتا ہے۔تشنگان کرب وبلا کی یاد میں پانی آنسو بن بن کر ٹوٹنے لگتا ہے۔اشکوں کا قافلہ ایک ایسے کاروانِ حق و صداقت کے تعاقب میں نکلتا ہے،جس کا مقصد اور اندازِ سفر حشر تلک ہر ذی فہم اور اہل درد کو رولاتا رہے گا۔خانوادہ رسول مکرمؓ کا یہ کاروان حق و صداقت سنہ 60 ہجری 28 رجب کومدینہ سے روانہ ہوا۔10 رمضان المبارک عبداللہ بن مسمع ہمدانی اور عبداللہ بن وال کے توسط سے امام حسینؓ کے لئے کوفیوں کے پہلے خطوط کی وصولی ہوئی۔12رمضان کو مزید 150 خطوط امام پاک تک پہنچے۔15 رمضان کو حضرت مسلم بن عقیلؓ  کو ایلچی کی حیثیت سے مکہ سے کوفہ روانہ کیا گیا۔5 شوال کو حضرت مسلم بن عقیلؓ   کوفہ میں داخل ہوئے۔ حضرت امام حسینؓ کو پتہ چلا کہ کچھ لوگ ان کے قتل کی غرض سے حاجیوں کا روپ اختیار کرکے لوگوں میں گھس چکے ہیں،8 ذوالحجہ کو امام پاک کعبہ سے عازم سفر ہوئے تاکہ کعبہ جو امن کی جگہ ہے خونریزی اور بدامنی کی داستان بن کے نہ رہ جائے۔نواسہ رسولﷺ جو اپنے علمِ لدنی اور رموزِ امامت کے تحت ہر شے سے واقف تھے۔مشیتِ الٰہیہ کے پیش نظر دنیاوی اطوار اور وقت کے ظاہری تقاضوں کے مطابق اپنا فکری و جغرافیائی سفر جاری رکھا۔حضرت مسلم بن عقیلؓ 9 ذوالحجہ کو پْر مصائب حالات میں جام شہادت نوش کرگئے۔سنہ 61 ہجری 2محرم کے روز امام عالی مقام اپنے اہل خانہ سمیت کربلا کی سرزمین میں داخل ہوئے۔3محرم الحرام کے روز لعین عمر ابن سعد 4000 ہزار سپاہ کا لشکر لے کر کربلا میں آیا۔6محرم کے دن امام عالی مقام کے باوفا ساتھی حضرت حبیب ابن مظاہر نے قبیلہ بنی اسد کو امامؓ کی نصرت کی دعوت دی لیکن ان لوگوں نے اس دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔پانی آج بھی جن تشنہ لب عظیم ہستیوں کی تلاش میں سمندر،دریاوں اور نہروں میں مرغ بسمل کی طرح تڑپتا کناروں سے سر ٹکراتا ہوا،لہر در لہر نوحہ کناں ہے،7 محرم الحرام کو ان پر پانی بند کردیا گیا۔گویا فوجِ اشقیاء کے ظلم سے سہم کر تشنگی بھی حلقوم سیکنہؓ واصغ ر میں چھپ گئی۔6ماہ کے بہادر سپاہی حضرت اصغرؓ مشیتِ الٰہیہ میں جھولے میں حیدری انگڑائیاں لیتے رہے،بعید نہیں کہ اگر انہیں زمین پر لٹایا جاتا تو شدتِ پیاس میں ابوتراب کے پوتے کے ایڑیاں رگڑنے سے پانی لبیک یا اصغ ر کہتا ہوا زمین سے برآمد ہوجاتا۔9 محرم کے دن کربلا میں شمر بن ذی الجوشن لشکر لے کر وارد ہوا۔ظلم و حیوانیت کے گھنگھور بادل خیام اہلبیت پر دھیرے دھیرے جمع ہونے لگے۔خانوادہ نبی مکرمؐ اور علیؓو بتولؓ کے جری افراد کے حوصلے پست ہونے کے بجائے عاجزی و انکساری میں بدل کر خالق کائنات کے قریب تر ہوتے گئے۔اہلبیت کے ارادے مرضی الٰہیہ میں ڈھلتے چلے گئے۔9 محرم کے روز لعین عمر ابن سعد نے نواسہ رسولﷺ کے لئے اعلان جنگ کیا مگر امام عالی مقام نے طلبِ مہلت کا اظہار کیا۔نواسہ رحمت اللعالمینؐ  "حسینْ منّی وانا من الحسین"کے مصداق نے شاید اس لئے مہلت کا اظہار کیا کہ دنیا کی آسائش اور انعامات کے لالچ میں اندھے ہوجانے والے فوج اشقیاء کے لوگ راہ جہنم کو ترک کرکے جنت کی طرف لوٹ آئیں۔شومی قسمت کہ یہ لوگ یزید کے خوف اور انعامات کے لالچ میں اسقدر پھنس چکے تھے کہ نواسہ رسولﷺکی صدائے حق ان کی سماعت و بصارت پر بے اثر رہی۔10 محرم کے روز نماز عشق کا آغاز اذان علی اکبر سے ہوا اور افسوس کہ وقتِ عصر سجدہ امام حسینؓپر یہ سفر ختم نہ ہوا۔امام پاک نے سرمبارک نہ سجدہ سے اٹھایا نہ نماز عشق تمام ہوئی،آپ کو سجدہ ہی کی حالت میں شہید کر دیا گیا۔یہ سفرِ عشق،یہ نماز حسینؓ بعد شہادت بھی اسیران اہلبیت کے سفر کی شکل میں جاری رہی۔عاشورہ کے روز شامِ غریباں بھی آئی اہلبیت کے خیام جلا دئیے گئے۔حمید بن مسلم کہتا ہے کہ وقتِ شام غریباں 3 دن کے بھوکے پیاسے بچے جلتے ہوئے خیموں میں حضرت عباسؓ کو پکارتے رہے۔حضرت سکینہ جس کا بستر سینہ حسینؓ ہوتا تھا۔یتیمی کی حالت میں جلتے ہوئے لباس میں بابا بابا کہتی رہ گئیں۔11 محرم الحرام کو اسیران اہلبیت کو اذیت کی حالت میں کوفہ کی طرف لیجایا گیا۔اس قافلہ اسیران کو کوفہ سے شام تک ہر بستی میں لے جایا گیا۔ہر بستی سے شہر تک لوگوں نے پتھر،گرم ریت اور گرم پانی پھینکا۔جب یہ قافلہ شام سے کچھ فاصلہ دور تھا دمشق کے داخلی دروازے پر پہنچا تو 3دن تک وہاں روکا گیا۔شہر کو سجایا گیا،لوگوں نے بھڑکیلے لباس زیب تن کئے ہر طرف عید کا سماں تھا۔5 لاکھ کے قریب مرد و خواتین ڈھول،دف،طبلوں، باجوں اور نقاروں کے ساتھ نکلے۔کئی ہزار مرد و خواتین نے ناچتے ہوئے اس قافلہ کا تماشائی انداز میں استقبال کیا۔چوتھے روز جب سورج طلوع ہوا تو ملعونوں نے شہر کا رخ کیا،لوگوں کے ہجوم کے سبب قیدی زوال کے وقت یذید لعین کے گھر کے دروازے تک پہنچے۔قافلہ کو یذید لعین کے سامنے لایا گیا۔اسیران نے اپنی حرکات وسکنات اور خامشی و گویائی سے رسول اللہ کی صداقت اور اللہ پاک کی توحید کا پرچار کیا۔ایک روز بی بی سکینہؓ بابا کو یاد کرکے بہت رورہی تھی،تمام بیبیاں بھی رو رہی تھیں۔یذید پلید نے پریشان ہوکے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے۔بتایا گیا کہ حضرت حسینؓ ابن علی کی بیٹی بابا کی جدائی میں روتی ہے۔یذید کے مشورہ کرنے پر حواریوں نے کہا کہ اگر امام کا سر اگر زندان میں بھیج دیا جائے تو یہ بچی چپ ہوسکتی ہے۔ایسا ہی کیا گیا امام حسینؓ کا سر جب زندان میں بھیجا گیا تو تمام بیبیاں احترام میں کھڑی ہوگئیں۔ایک حشر برپا ہوگیا۔سید سجادؓ  طوق و زنجیر کو سنبھالتے ہوئے سرپاک لینے کے لئے آگے بڑھے،سر جب بی بی سکینہؓ کی گود میں آیا تو ایسے درد ناک بین کئے گویا دیواریں بھی رونے لگیں۔سیدہ سکینہ نے کہا بابا تیری شہادت کے بعد ہمارے خیمے جلادئیے گئے۔میرے دامن میں آگ لگ گئی،میرے کانوں سے بالیاں نوچ لی گئیں۔بابا آپ آئے نہ چچا عباسؓ   آئے میں پکارتی رہ گئی۔ہمیں بازاروں میں گھمایا گیا۔حضرت سکینہؓ کی ہچکیوں کی آواز آہستہ ہوتی گئی،درد اور احساسِ یتیمی کی گھڑیاں دم توڑنے لگیں،باالاخر خاموشی چھاگئی،سید سجادؓنے پھوپھی سیدہ زینبؓ   کو سہارا دیا اور فرمایا پھوپھی اماں سکینہؓ خاموش ہوگئی،دادی فاطمۃالزہرہ کے پاس چلی گئیں۔۔

مزیدخبریں