لاہور( کامرس رپورٹر)کارپٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے چیئر پرسن اعجاز الرحمن نے کہا ہے کہ پاکستان کے ہاتھ سے بنے قالینوں کی برآمدات تیزی سے سکڑ رہی ہیں اور2011سے2022 کے دوران 131 ملین ڈالر برآمدی حجم کی صنعت تنزلی کا شکار ہو کر85 ملین ڈالر پر آ گئی ہے۔ پاکستان کے روایتی حریف بھارت کی صنعت جدت اور حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہونے کی وجہ سے عروج حاصل کر رہی ہے۔ مینو فیکچررز اور برآمدکنندگان قالین کی تیاری میں روایتی ہنر کے ساتھ ساتھ ہزارہ ناٹ اور ترکمان ناٹ کی ڈیزائننگ اور ویونگ کی جانب بھی توجہ مرکوز کریں جس سے یقینی طو رپر ہماری صنعت ایک نئے دور میں داخل ہو سکتی ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے کارپٹ ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے دفتر میں ہاتھ سے بنے قالینوں کی صنعت سے وابستہ نمائندہ وفد سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چیئر پرسن اعجاز الرحمن نے کہا کہ ہاتھ سے بنے قالینوں اور فلور کورننگ کے 2022 کے آئی ٹی سی ٹریڈ میپ کے کوڈ 57کے مطابق بھارت اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کا موازنہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کاعالمی برآمدات میں حصہ صرف0.5 فیصد ہے جبکہ عالمی برآمدات میں درجہ بندی درآمد کرنے والے ممالک کے اوسط فاصلے کے ساتھ 27 ویں نمبر پر ہے جبکہ بھارت کی برآمدات 1945.728 ملین ڈالر ہیں جو عالمی برآمدات کا 11.6 فیصد ہے اوردرجہ بندی کی فہرست میں اس کا تیسرا نمبر ہے۔دہشتگردی اور جنگوں سے تباہ حال افغانستان کی برآمدات اس مدت میں25.930 ملین ڈالر تھیں جوعالمی برآمدات میں 0.2 نمائندگی کرتی ہے، عالمی برآمدات میں اس کی درجہ بندی 41 ہے لیکن اس کا درآمد کرنے والے ممالک سے اوسط فاصلہ 6616 کلومیٹر ہے۔ انہوں نے کہا کہ روایتی حریف بھارت کی کارکردگی کی بڑی وجہ مصنوعات کی جدت اور حکومت کی مکمل سرپرستی حاصل ہونا ہے۔ پاکستان میں پانچ اہم برآمدی شعبوں میں سے ایک ہونے کے باوجود ہاتھ سے بنے قالینوں کی مصنوعات کی صنعت عالمی سطح پر برآمدات میںاپنا حصہ حاصل نہیں کر سکی جس کی اہم وجوہات میں نئی منڈیوں کی تلاش میں عدم دلچسپی ، ہنرمند افرادی قوت کی کمی کو پورا نہ کرنا اور قالین کی تیاری میں ڈیزائن کی نئی تکنیک کو نہ اپنانا اور سب سے بڑھ کر حکومت کی سرپرستی نہ ہوناہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مینوفیکچررز اور برآمد کنندگان کو چاہیے کہ وہ قالین بافی کی نئی تکنیک جیسے ہزارہ ناٹ اور ترکمان ناٹ کے طریقوں کو اپناکر اپنی مصنوعات کومتنوع بنائیں اور ساتھ ساتھ روایتی پاکستانی ماہر ہاتھ سے بنے قالینوں کی تیاری کو بھی جاری رکھیں جس سے عالمی منڈیوں میں پاکستان کے ہاتھ سے بنے قالین کی قدر میں اضافہ ہو۔انہوں نے کہا کہ ایکسپورٹ ڈویلپمنٹ فنڈ اور پبلک سیکٹر کی وفاقی،صوبائی حکومتوں اور تربیت فراہم کرنے والی تنظیموں سے بھی درخواست ہے کہ وہ اپنے پروگراموں کے ذریعے ہزارہ ناٹ اور ترکمان ناٹ جیسی تکنیک کو اپنانے کی ہر سطح پر حمایت کریں۔