جواب دو اے زندگی ! 

پس آئینہ 
خالدہ نازش 

زندگی جب ساتھ چھوڑنے کا فیصلہ کر لیتی ہے - جب بے وفائی پر اتر آتی ہے تو کیسے کیسے بہانے تراشنے لگتی ہے - اچھے بھلے انسان کو اپنی سازشوں میں پھنسا کر موت کے حوالے کر دیتی ہے - ہم انسان آج تک اس کے اور موت کے گٹھ جوڑ کو نہیں پہچان پائے - ان دونوں کی خفیہ ملاقاتوں اور سازشوں کو بے نقاب نہیں کر پائے - ہم نہیں سمجھ پائے کہ ہم سے آزادی حاصل کرنے کے لئے زندگی کس طرح موت سے رابطے میں رہتی ہے - ایک ایک دن گنتی رہتی ہے - جب ہم سے اکتا جاتی ہے تو ہمارے خلاف طرح طرح کی چالیں چلتی ہے - کبھی بیماری کے بہانے سے ، کبھی ایکسیڈنٹ کے بہانے سے ، کبھی پتنگ کی ڈور کے بہانے سے ، کبھی کسی آوارہ گولی کے بہانے سے ، کبھی آسمانی بجلی ، کبھی زلزلے ، کبھی سیلاب کے بہانے سے غرضیکہ مختلف حیلوں بہانوں سے ہمیں موت کے حوالے کر کے خود راہ فرار اختیار کر لیتی ہے - ہمارے ساتھ رہتے ہوئے دوستی اور وفا کے وعدے موت کے ساتھ نبھا رہی ہوتی ہے - صرف اس کا ایک مجبوری کا رشتہ ہے جو ہمارے ساتھ ہوتا ہے - یہ اس کا اصل ماسک شدہ چہرہ ہے - اس کے ایسے منافقانہ سلوک سے دل برداشتہ ہو کر میں نے کئی بار اس سے نشست رکھنا چاہی - میں نے اس سے ملاقات کی کوششیں کئی بار کیں ، مگر نہ جانے کیوں؟ یہ مجھ سے نظریں چراتی ہے - ملنا نہیں چاہتی - یہ میرا سامنا کرنے سے گھبراتی ہے - یا پھر کچھ شرمندہ شرمندہ سی ہے- اگر بے قصور ہے تو پھر گھبرانا کیسا؟ چھپنا کیسا ؟ ہو سکتا ہے اسے کسی نے خبر دے دی ہو کہ میں نے اس کے لئے ایک سوال نامہ تیار کر رکھا ہے ، اور اسے جواب دینا پڑے گا - اور چونکہ اس کی فطرت میں صرف حساب لینا ہے ، حساب دینے کی بات اسے عجیب لگتی ہو اس لئے یہ مجھ سے کتراتی ہے - یہ سچ ہے کہ میرے پاس اس سے پوچھنے کے لئے بہت تلخ سوال ہیں ، مگر میں اسے داد بھی دینا چاہتی ہوں کہ اس نے بہت اچھا کھیلا ہے - بہت خوب کھلاڑی چنتی ہے - میں اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ تھوڑے سے وقت کی مہمان بن کر آتی ہو پھر اپنے ساتھ اتنے غم ، اتنے دکھ درد ، اتنی مشکلیں ، اتنی تکلیفیں ، اتنی بیماریاں ، محرومیاں ، مایوسیاں کہاں سے لاتی ہو ؟ کیوں سکون سے جینے نہ دینے کی ٹھان لیتی ہو ؟ جب تم نے ایک دن چھوڑ جانے کا عہد کیا ہوا ہے ، پھر اتنی سفاکیت کیوں پائی جاتی ہے تم میں ؟ کتنے روپ ہیں تمہارے ؟ گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہو - رولاتی بھی ہو اور دلاسے بھی دیتی ہو ، چھینتی ہو اور عطا بھی کرتی ہو ، روٹھتی اور مناتی ہو ، راستہ بھی روکتی ہو اور منزل بھی دکھاتی ہو ، امتحان بھی لیتی ہو اور سرخرو بھی کرتی ہو ، نشان عبرت بھی بناتی ہو اور عزت بھی دیتی ہو ، آزمائش میں بھی ڈالتی ہو اور انعام سے بھی نوازتی ہو - بہت مکاری سے کام لیتی ہو - انسان کو اپنی عطاوں اور جفاوں کے درمیان رکھتی ہو - خیروشر فلاح اور فنا کا راستہ دکھا کر خود سرخرو ہو جاتی ہو - جب موت کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہو تو پھر تمہارے آگے کسی کی نہیں چل سکتی - اپنی ہو کر بیگانوں جیسے سلوک پر اتر آتی ہو - موت کے حوالے کر کے دبے پاوں نکل جاتی ہو اور پھر واپسی کا راستہ بھول جاتی ہو تمہاری بے وفائی کی داستانوں سے قبرستان بھرے پڑے ہیں - بڑے بڑے سٹیٹس والے ، بڑے بڑے عہدوں پر فائز ، خدائی کا دعویٰ کرنے والے بڑے بڑے فرعون وہ جن کی دہشت اور وحشت سے زمین بھی لرز جاتی تھی وہ کروڑوں لوگ تمہاری بے وفائی کی تصویر بنے شہر خاموشاں میں جا پہنچے ہیں - یہ بے وفائی کا ہنر کہاں سے سیکھا ہے تم نے ؟ شہر خاموشاں جہاں کوئی طبقاتی تقسیم نہیں ، دنیا کی ساری دشمنیاں ، ساری رنجشیں ، ساری انائیں سارے تکبر خاک میں ملا دیے ہیں تم نے - اس شہر کے باسیوں کی قبروں پر جا کر احساس ہوتا ہے کہ کتنے کردار جنہیں ابھی پرفارم کرنا تھا ، کتنی داستانیں جو ابھی مکمل ہونا باقی تھیں ، کتنے خواب ، کتنی خواہشیں ، کتنی حسرتیں خاموش ہو گئیں ، وہ جو کہانیاں سنایا کرتے تھے خود کہانی بن گے ، وہ کتنی آوازیں جو ہمیں پکارا کرتی تھیں خاموش ہو گئیں ، وہ جو ہمارے لئے سائباں کی حیثیت رکھتے تھے ہمارے سروں سے اٹھ گے- ایک گہرا سناٹا ہے اس شہر میں نہ کسی بات پر جھگڑا اور نہ ہی اپنی کسی تنگی تکلیف کی شکایت تیری جفاوں کے ڈسے سب لمبی تان کر گہری نیند سو رہے ہیں - ہم انسان تمہاری ان ساری منافقانہ چالوں ، دکھ درد ، غم اور مصیبتوں میں ہمیں ڈال کر دم سادھ لینے کی روش ، موت کے ساتھ تمہارے گٹھ جوڑ کے خلاف سراپائے احتجاج ہیں - ہمیں تمہارے یہ سارے مظالم کسی صورت قابل قبول نہیں - ہم تمہارے اس بیگانوں جیسے سلوک کے خلاف اللّہ تعالیٰ کی عدالت میں مقدمہ دائر کراتے ہیں کہ تمہارے اختیارات کو کم کیا جائے اور ہمیں سکون سے جینے کا حق دیا جائے -

ای پیپر دی نیشن