پیرس کی ڈائری
محمود بھٹی
کتنی حکومتیں آئیں کتنی چلی گئیں ،ہر نیا وزیر اعظم اور وزیر خزانہ اوورسیز پاکستانیوں سےاپیلیں کرتے رہے ہیں کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کریں تاکہ پاکستان ترقی کرسکے،اس کا جواب دینے سے پہلے ایک تلخ حقیقت پر روشنی ڈالنا ضروری ہے جو لاکھوں اوورسیز پر گزر رہی ہے، اوورسیز پاکستانی جیسے ہی وطن واپسی پر جہاز سے اترتا ہے تو ائیرپورٹ عملہ اس قدر مستعدی سے اسکا استقبال کرتا ہے جیسے کوئی بھوکا ناشتے کا، ائیرپورٹ عملے کی ہر ادا اور نخرے نرالے ہوتے ہیں،وہ اتنے تحمل سے تاخیری حربے استعمال کر کے اعتراض اٹھاتے ہیں کہ بن مانگے ہی اوورسیز کے پاسپورٹوں میں چھپے ڈالر اور پاﺅنڈز پا لیتے ہیں،پتہ نہیں کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں یہ کہ اوورسیز کے معاملات میں ہر ممکن رکاوٹ ڈالنا باعث ثواب سمجھتے ہیں ،ائیرپورٹوں پر آج بھی یہ انتظامی اور مالی کرپشن رائج ہے اور کوئی اسے ختم کرنے کیلئے تیار نہیں، حکومتیں بھی اوورسیز کو لوٹنے میں کبھی پیچھے نہیں رہی ہیں، کبھی ہوائی ٹکٹوں پر، کبھی باہرسے لائے گئے موبائل فونز پر ٹیکس لگا کرحکومتیں اپنا دل پشوری کرتی رہی ہیں ،ائیرپورٹ سے فراغت پاکر جیسے ہی باہر نکلتے ہیں تو ہر ٹیکسی ڈرائیور مگرمچھ کی طرح منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے کہ کیسے اوورسیز کو اس کے سامان سمیت ہڑپ کرلے،ان سب سے بچ کر اوورسیزجب گھر پہنچتے ہیں تو وہاں ان اپنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جنکی عمومی سوچ یہ ہے کہ اوورسیز امیر آدمی ہے اسکے پاس بہت مال ہے اس کا جتنا مرضی خرچہ کروادو کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ سوچ آج تک نہ بدلی ہے اور لگتا ہے کہ نہ ہی بدل سکے گی ،
جو رشتہ دار نہیں ہوتے وہ بھی اوورسیز کو لوٹنے کیلئے ہمہ وقت اس لئے تیار ہوتے ہیں کہ اس کو لوٹنا بہت آسان ہوگا،یہ تو ایک دو مہینے کیلئے پاکستان آتا ہے اس نے کہاں پیچھے آنا ہے،اوورسیز پلاٹ خرید لے تو اسے جعلسازی کا خدشہ درپیش رہتا ہے، اگر وہ اراضی خرید کر کسی رشتے دار کو مختار خاص بنائے تو وہ جعلسازی کرکے رشوت دیکر اس کا انتقال اپنے نام کروالیتا ہے ، مکان بناکر کرائے پر چڑھائے تو کرایہ دار قابض ہوجاتا ہے،کاروبار شروع کرے تو شراکت دار پہلے حصہ کھا جاتا ہے اور بعد ازاں پورے کاروبار پر یہ کہہ کر قبضہ کرلیتا ہے کہ ساری محنت تو میری ہے اوورسیز تو باہر رہتا ہے،میں نے سخت محنت کے بعد یتیم خانے کیلئے ایک مربع اراضی خریدی جس کا جعلسازی کرکے انتقال کروالیا گیا ، عدالت سے رجوع کیا تو میرے خلاف کیس بنادیئے گئے،انتقال اراضی کے ان کیسوں کی رفتار کچھوے سے بھی سست ہے،بطورمدعی سات سمندر پار سے آکر میں عدالتوں میں پیش ہوسکتا ہوں لیکن مدعا علیہ نہ پیش ہوتا ہے اور نہ ہی عدالتوں کے پاس اختیارہے کہ مدعا علیہ کو عدالت میں پیش ہو کر جواب داخل کرنے کیلئے پابند کرے، لگتا ہے کہ اگلی نسل ہی ان کیسوں کا فیصلہ سنے گی،یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا ہمارے نظام انصاف کا مذاق اڑاتی ہے، سخت محنت سے ہسپتال بنایا تو حصے داران نے روزانہ اکٹھی ہونیوالی کیش منی میں ڈنڈی مارنا شروع کردی، ،ایف بی آر اورٹیکس نمائندگان بھی آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئے ،کیا بتاﺅں سب جانتے ہیں کہ کیوں ؟ یہ ہے ہمارے ملک کی تباہی کی وہ داستان جس میں تبدیلی لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے،ہر حکومت نئی بوتل میں پرانی شراب کے مصداق خواب دکھاتی ہے،کبھی سرمایہ کاری کیلئے انڈسٹریل زون بنانے کی خوشخبری سنائی جاتی ہے،کبھی رہائشی منصو بے بنانے کی نوید سنائی جاتی ہے،سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اوورسیز پاکستانیوں کو صرف مخصوص رہائشی منصوبوں کی ضرورت بھی ہوتی ہے؟عرض ہے کہ اوور سیز پاکستانیوں کو اس طرح کے رہائشی منصوبوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا ہے،حکومتوں کو یہ سادہ سی بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ عملی طور پر یہ ممکن نہیں کہ چند نئی ہاﺅسنگ سوسائٹیاں بنا کر سارے اوورسیز پاکستانیوں کو انکے آبائی شہروں اور گاﺅں سے اٹھا کران میں آباد کر دیا جائے،اوورسیز پاکستانی سوال اٹھا رہے ہیں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں جب پنجاب میں لینڈ ریکارڈ اتھارٹی بن چکی ہے اور جائیدادوں اور اراضی کا ریکارڈ کمپیوٹر پر منتقل ہوچکا ہے تو کیا اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضے ہونے بند ہوگئے؟ کیا اوورسیز پاکستانیوں کو کاروباری تحفظ دیا گیا ؟کیا انکے اثاثوں پر قبضے کرنیوالے کیخلاف فاسٹ ٹریک عدالتیں بناکر انھیں تیز ترین انصاف انکی دہلیز پرپہنچا دیا گیا ؟ اگرحکومت اوورسیز پاکستانیوں کی پراپرٹیز پرقابضین کو عبرت کا نشانہ بنانے کی روش اپنا لے اوراوورسیز پاکستانیوں کو یہ یقین ہوجا ئے کہ کوئی ان سے رشوت طلب نہیں کریگا ، انھیں ہر قسم کے جانی ،مالی اور کاروباری تحفظ حاصل ہے توخود بخود پاکستان میں اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کا سیلاب آجائیگا جو رک نہیں پائیگا اور پھر کسی وزیراعظم کو سرمایہ کاری کی اپیل بھی نہیں کرنا پڑے گی۔