کالم نگار: مریم صدیقہ
تعلیم کے بنا شاید ریاست چل جائے،لیکن تربیت کا فقدان کسی بھی ریاست کی تباہ حالی کی بنیادی وجہ بنتا ہے، سیاسی جماعتوں کے نمائندگان میں تربیت کا فقدان موجودہ نوجوان نسل کی اخلاقی گراوٹ کی بنیادی وجہ بن چکا ہے،لفظوں کے بے لگام گھوڑوں پر سوار سیاسی جماعتوں کے نمائندگان نے پاکستان کو مذاق بنا کر رکھ دیا۔پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی خواتین اور مرد حضرات کو تربیت کی اشد ضرورت ہے جو پوری دنیا کے سامنے اپنے ملک کی شرمندگی کا باعث بن رہے ہیں۔تربیت دینے کے لیے سخت فیصلے کرنا ضروری ہوتے ہیں ورنہ بگڑی اولاد گھر کی عزت بیچ میدان میں نیلام کرتی ہے۔پاکستان کے سیاسی مسخروں،ایک دوسرے کو بد لحاظ انداز میں جواب دے کر واہ واہ کار حاصل کرنے ،الزام تراشیوں کو ڈھال بنا کر پاکستانی معشیت کا ستیاناس کرنے والوں کو لگام دینا ہوگی،ورنہ ہمارے اس پیارے ،بیچارے اور سازشی عناصر کے ہاتھوں سالہا سال سے شکار ہونے والے ملک کو (خداناخواستہ) تنزلی سے بچانا مشکل ہو جائے گا۔سیاسی جماعت کوئی بھی ہو ،اس کا نظریے کچھ بھی ہو ، لیکن ان کی تربیت نہایت ضروری ہے۔غیر مہذب اور غیر اخلاقی زبان استعمال کرنے والے سیاسی مسخروں کو باز کروانا ہوگا۔سیاسی جماعتوں کے مرد و خواتین نمائندگان ڈگریاں لینے کے باوجود اسمبلی میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر بول رہے ہوتے ہیں۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کو مچھلی بازار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ اخلاقیات سے گری ہوئی زبان نے پوری قوم کا سر اقوام عالم کے سامنے نیچا کردیا ہے۔بالخصوص خواتین کا لب و لہجہ لازماً اخلاقی اقدار سے مزئین ہونا چاہیے۔اپنے یا اپنی جماعت کے حق کے لئے بات کریں لیکن اپنے مذہب اور روایات کی پاسداری بھی نہایت ضروری ہے۔اسمبلی میں کھڑی خاتون فقط ایک سیاسی جماعت کی ہی نہیں بلکہ اپنی پوری نسل کی نمائندگی کررہی ہوتی ہے۔جو اپنے والدین کی تربیت کی جیتی جاگتی تصویر ہوتی ہے،کیا ہماری سیاسی خواتین حضرت بی بی خدیجہ،حضرت بی بی فاطمہ ،محترمہ فاطمہ جناح،محترمہ رانا لیاقت علی خان ،محتدمہ بے نظیر بھٹو کے طرز عمل کو بھلا بیٹھی ہیں۔پاکستان کی خواتین 14 اگست 1947 کی آزادی کے بعد سے، پارلیمانی سیاست میں سرگرم حصہ لیتی رہی ہیں۔ پہلی اور دوسری دستور ساز اسمبلیوں میں ان کی نمائندگی کم رہی، تاہم آئین پاکستان میں ہونے والی ترامیم سے پارلیمنٹ میں ان کی مزید شرکت کا راستہ ہموار ہوا۔ہماری وہ خواتین قابل فخر ہیں جو قانون سازی اور ایگزیکٹو عہدوں پر فائز رہ کر اداروں کی معاونت کرتی رہیں۔لیکن موجودہ سیاسی جماعتوں سے وابستہ خواتین ہر ادب لحاظ کو بھلا بیٹھیں۔ جس پر افسوس ہوتا ہے۔تحریک انصاف کی سیاسی ورکر زرتاج گل کا یہ کہنا کہ ”حرام کی تنخواہ پر آئی ہیں“ گھسروں (Transgender) کا لباس پہننے سے حکومت نہیں چلتی" ,جیسے جملوں نے پوری قوم کا سر جھکا دیا،کیا ایسے لوگ اب ہم پر حکومت کریں گے۔سیاسی نقطہ نظر پیش کرنے کا یہ کونسا طریقہ ہے اس پر ان کے حمایت یافتہ کا تالیاں بجانا یہ ثابت کرتا ہے کہ آوے کا آواہ بگڑا ہوا ہے۔سیاسی نمائندگان نوجوان نسل کے رول ماڈل ہوتے ہیں،ہم اپنے نوجوانوں کو اخلاقی پستی کی جانب دھکیل رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹے بڑے کا احترام ختم ہو چکا ہے۔
بطور صحافی کسی سیاسی شخصیت سے متاثر ہوا جاسکتا ہے لیکن کسی جماعت کا حصہ نہیں ہوا جا سکتا لہذا میرے قارئین میری تحریر سے ہرگز یہ تاثر نہ لیں کہ میں نے کسی سیاسی جماعت کا تحفظ کیا،نہیں ہرگز نہیں،ایک محب الوطن شہری اور ایک ذمہ دار صحافی ہونے کے ناطے درست سمت کی نشاندہی کرنے کو اپنا فرض سمجھا۔