رب نواز ملک
وطنِ عزیز کی معیشت جس طرح مسائل کے منجھدار کے بیچ غوطے کھا رہی ہے اس نے انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر بری طرح منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ کوئی شعبہ بھی ان حالات میں محفوظ و مامون دکھائی نہیں دیتا لیکن اس بدترین معاشی صورتِ حال کے باوجود اصلاحِ احوال کے حوالے سے کوئی ٹھوس اور قابلِ عمل حل سامنے نہیں آیا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے پالیسی ساز کسی درست سمت کا تعین کیے بغیر محض ہوا میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے معاملات مزید الجھا? کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ حکومت کی ” تجربہ کار معاشی ٹیم “ اسحاق ڈار کی قیادت میں ابھی تک کوئی قابلِ ذکر کارکردگی ظاہر نہیں کر سکی۔موجودہ حکومت نے اپنی الیکشن مہم میں کہا تھا کہ حکومت میں آکر تین سو یونٹ فری بجلی دیں گے،حکومت تو حاصل کی لیکن تاحال بجلی کے یونٹ فری نہیں ملے۔مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ ظالمانہ ٹیکسز ،پٹرول کی قیمتوں کے ساتھ اشیاخوردنوش کی قیمتوں میں ہوشر با اضافہ ہوا۔ملک میں اساتذہ ،ڈاکٹرزاور ہر طبقے کے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔عام آدمی کے لیے زندگی مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔ابھی پتا چلا کہ گجرانوالہ میں زیادہ بل آنے پر بھائی نے بھائی کا قتل کردیا اور ایک خاتون نے خودکشی کرلی۔ملک میں مایوسی کا راج ہے۔نوجوان ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں،تاجر اور صنعت کار پریشان ہیں،بے روزگاری،مہنگائی ،ٹیکسز کی بھرمار ہے،تعلیم کا حصول مشکل ہوچکا ہے۔
کل ٹی وی دیکھتے ہوئے کچھ لطیفے سننے کو ملے، کوئی حکومتی نمائندہ کہہ رہا تھا کہ ملک میں دودھ کی قیمت 160 روپے فی کلو ہے جب کہ ہم زمانے سے یہاں 220 روپے کلو لے رہے ہیں اور دکان والے سر عام بیچ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک اور صاحب فرما رہے تھے کہ ملک میں چینی 98 روپے کلو دستیاب ہے مگر میں نے بڑا تلاش کیا کہ وہ دکان مجھے مل جائے جس کی طرف موصوف اشارہ فرما رہے تھے، حالانکہ ملک میں چینی کی قیمت ڈبل سنچری کراس کرچکی ہے۔ ماش کی دال کے دام 600 روپے کلو تک جا پہنچے ہیں اور حکومتی نمائندوں کا ابھی بھی اصرار ہے کہ گھبرانے کی بات نہیں۔ دراصل وہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان کےلیے گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔ان حالات میں عام آدمی جائے تو کہاں جائے اور فریاد کرے تو کس سے کرے؟ جن سے فریاد کرنی ہے ان کےلیے تو سب کچھ مفت دستیاب ہے لہٰذا انہیں آپ کی تکلیف کا احساس کیسے ہوگا۔ عام آدمی کی سکت اب جواب دے چکی ہے اور جب کسی بھی شے کو کارنر کردیا جائے تو اس کے پاس آخری حل اپنی جان بچانے کےلیے سامنے والے پر حملہ کرنے علاوہ کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔خدایا عوام کو اس نہج تک نہ لے کر جائیں کہ وہ خود ہی عوام، خود ہی پارٹی اور خود ہی قائد بن جائیں۔ ہوش کے ناخن لیجیے اور آئین پاکستان کے مطابق حقوق دیجیے۔ ان کی دادرسی کیجیے۔ اگر آپ ملک نہیں چلا سکتے تو کرسی سے اتر جائیں مگر مراعات یافتہ طبقات کا دفاع کرکے عام آدمی کے زخموں پر نمک تو نہ چھڑکیں۔
جماعت اسلامی کے نوجوان امیر نے مہنگائی،ٹیکسز،آئی پی پیز سمیت دیگر نکات کو بنیاد بنا کر گزشتہ چار روز سے مری روڑ میں پڑاو ڈالا ہے۔اعلان تو انہوں نے ڈی چوک میں جانے کا کیا تھا لیکن اب یہ کہنا ہے کہ ان کا پلان اے ،بی مکمل ہوچکا ہے اور اب پلان سی کی طرف پیش قدمی ہے۔جماعت اسلامی اور اس کی قیادت اس دفعہ مبارکباد کی مستحق ہے کہ انہوں نے بڑی دانشمندی کے ساتھ دھرنے کو پر امن بھی رکھا اور مطالبات کو لے کرعوامی پذیرائی بھی حاصل کی۔بہت ہی حکمت کے ساتھ انہوں نے دھرنے کو منظم بھی رکھا اور حکومت میں دباو بھی قائم رکھا ہوا ہے۔حافظ نعیم کے کنڈکٹ اور باڈی لینگویج سے یہی لگ رہا ہے کہ وہ حکومت سے ریلیف حاصل کرکے ہی رہیں گے۔حکومتی وفد عطا تارڑ کی قیادت میں مذاکرات کی خواہش لے کر مری روڑ تو پہنچ گئے ،پہلا دور مکمل ہوا ،حکومتی وفد کی جانب سے یہ بھی کہا گیا کہ حافط نعیم کے مطالبات پچیس کروڑ عوام کے مطالبات ہیں لیکن تا حال مزید پیش رفت نہیں ہوسکی۔مذاکرات کی پہلی نشست میں جماعت اسلامی اپنے کارکنان کو رہا کرانے میں کامیاب تو ہوگئی لیکن اب سوال یہ ہے کیا دیگر مطالبات میں منوانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔حافظ نعیم کا کہنا ہےکہ ہم ہر صورت میں پرامن رہنا چاہتے ہیں، پاکستان تصادم کے راستے کا متحمل نہیں ہو سکتا، جب آپ رکاوٹیں کھڑی کریں گے تو رکاوٹیں توڑی جائیں گی۔ لوگ دو دو مزدوریاں کر رہے ہیں پھر بھی اخراجات پورے نہیں ہوتے، تنخواہ سے بھی زیادہ بجلی کا بل آرہا ہے، 1994 سے رہنے والی حکومتوں نے آئی پی پیز کو طاقتور بنایا، آئی پی پیز سے ہونے والے معاہدےسامنے لائے جائیں، بجلی کی قیمت کا تعین بجلی کی لاگت کے حساب سے کیا جائے، ہم نے واضح طور پر اپنے مطالبات پیش کردیے ہیں، ہم نے واضح طور پر کہہ دیا ہےکہ مراعات ختم کرنی پڑیں گی، ناجائز معاہدوں کے پیسے عوام کیوں دیں؟حکومت راستے بند کرنےکی حرکتوں سے باز ا?جائے، وزیراعظم اور وزیراعلیٰ سمیت تمام سرکاری افسران کے لیے طے کیا جائے کہ وہ 1300سی سی سے زیادہ کی گاڑی استعمال نہیں کریں گے، ساری قربانیاں عوام سے نہیں مانگیں، خود بھی کچھ کریں، انھیں استعمال کرنا ہے تو اپنی ذاتی گاڑیوں میں بیٹھیں، اپنی جیب سے فیول کی قیمت ادا کریں، وزیراعظم چاہیں تو آج ہی اس پر عمل درا?مد کر سکتے ہیں، تنخواہ دار طبقے پر سارا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔بجلی کی قیمت کم ہونی چاہیے، بجلی کے بلوں کی وجہ سے گھر میں لڑائی جھگڑے ہونے لگے ہیں، آئی پی پیز کا آڈٹ کیا جائے، 2019 میں آئی پی پیز سے معاہدوں کو ریوائز کیا گیا۔آئی پی پیز کی صورت میں جو ظلم کیا ہے کیا یہ چاہتے ہیں کہ یہ دھندہ چلتا رہے، حل ہم دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ فراڈ کی بنیاد پر بنی آئی پی پیز کو فوراً بند کیا جائے، نیشنل گرڈ کو اپ گریڈ کریں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دور ہے ٹرمپ آئندہ بائیس سال کی سوچ رہا ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ ان درندوں سے کیسے جان چھڑائیں۔ ونڈ ،ہائیڈرو اور سولر کو لیکر چلیں گے۔جنہیں کرپشن کرنی ہو وہ نہیں سمجھ سکتے ہمیں اپنے بچوں کا مستقبل چاہیے، پنجاب میں اسکولوں کو فروخت کیا جارہا ہے، تعلیم کو مزید کاروبار بنایا جارہا ہے، 13 ہزار اسکول فروخت نہیں کرنے دیں گے، ابھی تو اسکول کھولیں گے تو ان پر بھی بجلی کے بم گریں گے، پہلے ہی دو کروڑ بچے اسکول سے باہر ہیں، ہمارے بچوں کو پڑھنے دو، ایک نظام کے تحت تعلیم کا حق دو۔چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ٹیکس بڑھا دیے ہیں یہ سلسلہ اب نہیں چلے گا، ایک ہی راستہ ہے مزاحمت کرو اور تحریک کو آگے بڑھاو۔ویسے حافظ نعیم جس روانی اور دلائل سے بات کرتے ہیں ،عام آدمی کے مسائل کو اجاگر کررہے ہیں ،چیزوں کو جس انداز سے سمجھارہے ہیں اور ایک جارحانہ اور مستقل مزاج بلے باز کی طرح پچ پر کھڑے ہیں بڑے عرصے بعد شاید پاکستان کی عوام کو ایک رہبر ملا ہے۔
جماعت اسلامی کے مطالبات یہ ہیں کہ بجلی بل میں 500 یونٹ تک ماہانہ استعمال کرنے والے صارفین کو بل میں 50 فیصد رعایت دی جائے،پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی (PDL)ختم کی جائے اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ ا?ضافہ واپس لیا.،اشیائے خورد و نوش، بجلی، گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی ناقابلِ برداشت قیمتوں نے ضروریاتِ زندگی کی خریداری کو عوام کی پہنچ سے دور کردیا ہے،اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں 20 فیصد کمی لائی جائے،اسٹیشنری آئٹمز پر ٹیکس کا نفاذ تعلیم دشمنی اور بچوں کو حصولِ علم سے دور رکھنے کے مترادف ہے، بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق تمام آئٹمز پر ٹیکس واپس لیا جائےاشرافیہ کی عیاشیاں عوام کے لیے ناقابلِ برداشت، غیرترقیاتی اخراجات پر 35 فیصد کٹ لگایا جائے،انڈیپینڈٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کیپیسٹی پیمنٹ اور ڈالر میں ادائیگی کا معاہدہ ختم کیا جائے، زراعت اور صنعت پر ٹیکسوں کا ناجائز، ناقابلِ برداشت بوجھ 50 فیصد کم کیا جائے،صنعت، تجارت اور سرمایہ کاری کو یقینی بنایا جائے تاکہ معاشی پہیہ چلے اور نوجوانوں کو روزگار چلے، غریب تنخواہ دار طبقہ پر ٹیکسوں کا ظالمانہ بوجھ واپس لیا جائے اور مراعات یافتہ طبقہ سے ٹیکس وصول کیا جائے۔جماعت اسلامی کا مہنگائی مکاو دھرنا جاری ہے،حکومتی ہٹ دھرمی اور غنڈہ گردی کے باوجود جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ایک کثیر تعداد مختلف شہروں سے نکلی اور اسلام آباد پہنچی،یہ واقعی قابل تحسین بات ہے مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ جنگ صرف جماعت اسلامی کے کارکنوں کی ہے؟ کیا اس جنگ میں باقی قوم یا جماعتوں کو شامل نہیں ہونا چاہیے۔
جماعتِ اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کہتے ہیں کہ ان کی جماعت بجلی کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے اور ٹیکسوں کے خلاف اسلام آباد میں دھرنا دے رہی ہے۔ ان کے بقول یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہو جاتے اور دھرنے کو ملک بھر میں پھیلانے کا بھی کہہ چکے ہیں تاحال حافظ نعیم نے بھرپور عوامی پذیرائی تو حاصل کی ہے اور ملک کے عام آدمی کا مقدمہ لڑنے کی بھرپور کوشش بھی کی ہے اب دیکھنا یہ کہ کیا وہ ان عوامی مطالبات کو منوانے میں کامیاب بھی ہوتے ہیں یا کسی مفاہمت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں یا پھر حل صرف جماعت اسلامی کا نعرہ فضاوں میں تحلیل ،ہواوں میں گم ہوگا۔