پی ٹی آئی کے ناز نخرے اٹھانے اور پیشکشوں کا دور گزر گیا۔ عرفان صدیقی۔
پہلے تو کوئی ان سے پوچھے کہ جناب پہلے ان کے کون سے ناز نخرے اٹھائے گئے ہیں۔ وہ تو سب کچھ اپنے زور بازو سے کرتے آ رہے ہیں۔ یاد رہے کہ آپ کے علاوہ پی ٹی آئی والوں کے ناز نخرے اٹھانے والے اور بھی بہت ہیں تو وہ آپ کا احسان کیوں لیں۔ رہی بات حکومت کی تو وہ بے شک چاہتی تھی کہ ” تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے“۔ مگر پی ٹی آئی والے میں نہ مانوں کی رٹ لگائے ہوے تھے۔ لگتا ہے آج صورتحال بدل رہی ہے یا بدل گئی ہے کہ اب وہ لوگ کل کو جن کی منتیں ترلے کئے جا رہے تھے، آج خود چاہتے ہیں کہ کوئی تو آئے اور ان سے رابطہ کرے۔ مگر اب صورتحال
ہن آ جا دیر نہ لا سجناں
آکھاں تھک گئیاں تک تک راہ سجناں
والی ہے۔ کوئی نہیں آ رہا گلیاں خالی پڑی ہیں۔ جبھی تو عرفان صدیقی صاحب کہہ رہے ہیں کہ وقت گزر گیا۔ اب پی ٹی آئی والوں کو پیشکش کرنے یا ان کے ناز نخرے اٹھانے ہم نہیں آئیں گے۔ جبکہ حزب اختلاف والے
”ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے“
کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔اسی لیے کہتے ہیں سیاست ہو یا تعلقات، کسی بھی معاملہ میں اس حد تک نہیں جانا چاہیے کہ واپسی کی کوئی راہ ہی نہ بچے۔ ویسے بھی ایک طرف بانی کی رہائی کے لیے بھوک ہڑتالی کیمپ لگے ہوئے ہیں 5 اگست کو ملک گیر احتجاج کا بھی پروگرام ہے۔
خیبر پی کے میں وزیر اعلیٰ الگ طوفان اٹھائے پھرتے ہیں۔ باقی پارٹی رہنما کبھی اسٹیبلشمنٹ اور کبھی کسی، کبھی کسی ادارے سے پنجہ آزمائی میں مصروف رہتے ہیں۔ ان حالات میں اب ان کے کون ناز نخرے اٹھائے گا یا کوئی اچھی یا بری پیشکش کرےگا۔ ہمارے ہاں رواج ہے کہ گرنے والے کو سہارا کوئی نہیں دیتا بلکہ
”گرتی ہوئی دیواروں کو ایک دھکا اور دو“ کے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
کتنے جاگیردار اور وڈیرے خواتین کو وراثت کا حق دیتے ہیں۔ حافظ نعیم۔
یہ بات کر کے بے شک حافظ نعیم نے لاکھوں عورتوں کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کر دیا۔ کیوں کہ یہ ایک ایسا س±لگتا موضوع ہے جس پر بڑے بڑے مقرر خطیب بھی بولنے سے کتراتے ہیں۔ بڑے بڑے انسانی حقوق کے دعویدار لبرل سوسائٹی کے نمائندے جاگیردار،وڈیرے، چودھری، بے دین یا دیندار۔ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے پٹے نظر آتے ہیں۔ نجانے کون کون سی تاویلات گھڑ کر عورتوں کو وراثت سے محروم رکھنے کے گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ کتنے کا لفظ کہہ کر پھر بھی رعایت کر دی ہے۔ ورنہ اکثر لوگ بلا تمیز بڑے چھوٹے، عورتوں کا وراثت میں کوئی حق ہی نہیں مانتے۔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے شادی کر دی جہیز دے دیا اب اور کیا دیں۔ یوں وہ مکان ہو یا دکان، زمین ہو یا کارخانہ سب کا سب اپنے بیٹوں کو سونپتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب اس دکھ کا ان الفاظ میں اظہار کیا ہے کہ
بھائی کو دیئے تو نے محل دو محلے
ہم کو دیا پردیس کا ہے بابل مورے
اب چاہے کوئی یہ بات بھول جائے مگر حقیقت یہی ہے کہ بیٹا صرف شادی تک بیٹا رہتا ہے اور بیٹی قبر تک بیٹی ہی رہتی ہے۔ حالانکہ باپ کے مرتے ہی بیٹے وراثت کے حساب کتاب میں اور بیٹیاں باپ کا دروازہ بند ہونے کے غم میں مبتلا ہوتی ہیں۔ اب کون ہے جو حافظ نعیم کی اس بات کا جواب دے۔ سینہ ٹھوک کر کہے کہ بھائی ہم ہیں وہ جنہوں نے وراثت میں بیٹیوں کاحصہ بھی دیا۔ ایسا شاید ہی کوئی ہو کیوں کہ دور دور تک پھیلی خاموشی بتا رہی ہے کہ اس مردوں کے معاشرے میں عورت آج بھی اپنے جائز حقوق سے محروم ہے۔ انہیں غیرت کے نام پر قتل تو کیا جاتا ہے مگر ان کا جائز حق نہیں دیا جاتا۔ اس پر ہی شاید ساحر لدھیانوی نے یہ کہا تھا کہ ”مدد چاہتی ہے یہ حوا کی بیٹی“ مگر صدیوں سے مدد تو کیا اس کے دکھوں کا مداوا تک نہ ہو سکا۔
اقوام متحدہ کے نمائندہ کو گوادر کے حالات پر تشویش۔
حیرت کی بات ہے یہی تکلیف انہیں بھارت میں کشمیریوں کے قتل عام ،مسلمانوں کےانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نہیں ہوتی۔اسرائیلوں کےہاتھوں فلسطینوں کے قتل عام پر ان کے منہ کیوں بند ہوتے ہیں۔
اسمیں کوئی شک کی بات نہیں کہ آج کل گوادر میں بلوچ قوم پرست تنظیموں کی طرف سے ایک بار پھر پرانی شراب نئی بوتلوں میں بھر کر پیش کی جا رہی اور لاپتہ جوانوں کے ساتھ اب گوادر والوں کا درد بھی ان قوم پرست تنظیموں کو ہو گیا ہے۔ دراصل یہ چاہتے ہیں کہ بلوچستان میں یونہی بدامنی رہے اور سی پیک کے حوالے سےجو ترقیاتی کام ہو رہے ہیں وہ نہ ہوں کیوں اگر صوبہ اور گوادر ترقی کرتے ہیں تو پھر ان کا چورن کہاں بکے گا۔ یہ جو تخریب کاری یا ازخود جلاوطنی اختیار کرنے والوں کو لاپتہ قرار دے کر جلسے ہوتے ہیں جلوس نکلتے ہیں، اس کے لیئے ملک سے اور بیرون ملک سے بھرپور فنڈ ملتے ہیں۔ اسلحہ ملتا ہے وہ سب بند ہو جائے گا۔ اسی لیے یہ سب بلوچستان کو پسماندہ اور گوادر کو تباہ حال ہی دیکھنا چاہتے ہیں یہ لوگ جانتے ہیں کہ بلوچستان کی ترقی ان کے مذموم عزائم کی موت ہے۔ گوادر اس لیے خاص طور پر نشانے پر ہے کہ وہ ایک نئے پاکستان کا چہرہ بن رہا ہے۔ بندرگاہ وہ بھی جدید، ائیرپورٹ وہ بھی جدید اور جدید شاہراہیں۔ اب گوادر کو چند مچھیروں کی بستی نہیں ایک جدید شہر بنا رہی ہیں۔ مسائل کہاں نہیں ہوتے۔ اسلام آباد کو ہی دیکھ لیں۔ ملک کا دارالحکومت اور جدید شہر ہونے کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ وہاں کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ اونچ نیچ نہیں ، غربت اور امارت کا فرق نہیں۔ سب کچھ ہے۔ اصل میں اب قوم پرستوں کے ساتھ ایرانی تیل، سازو سامان اور سولر پینلز سمگل کرنے والے مافیاز بھی شامل ہیں جو گوادر میں سختی کی وجہ سے اپنا دھندا ٹھپ ہونے پر پریشان ہیں۔ ویسے ہی جیسے افغان بارڈر پر سختی کی وجہ سے سمگلروں کی کمر ٹوٹی ہے اور وہ آئے روز دھرنے اور مظاہرے کرتےپھر رہے ہیں۔ اب یہی فارمولا، گوادر میں آزمایا جا رہا ہے۔