کل سے سال کا وہ مہینہ شروع ہو رہا ہے جس کی پانچ تاریخ کی ہولناک اور تلخ یادیں قلب و ذہن کو آج بھی چھلنی کرکے رکھ دیتی ہیں ۔بھارتی پارلیمنٹ نے اپنے ہی آئین کو روندتے ہوئے جنت نظیر کشمیر کو ہڑپ کر لیا اور اس کی خودمختار حیثیت ختم کردی ۔جو خود بھارت کے بانی مبانی راہنماﺅں نے اسے 1947 سے دے رکھی تھی۔اس وقت بھارت میں مودی جیسا مکاراور گھاگ سیاستدان ، وزیر اعظم تھا اور پاکستان میں سیاست اور ڈپلومیسی کی ابجد سے بھی ناواقف عمران خان کی حکومت تھی۔اس نے خالی خولی بیانات سے بھارت کی اس قبیح حرکت کا جواب دینے کی کوشش کی ۔ہر چند اس نے جنرل اسمبلی میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارت سے لڑے گا، اس کے سامنے سرنڈر نہیں کرے گا مگر عمران خان نے بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے سے روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیا، الٹا اس نے کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہوئے بھارت کو کرتارپور کی راہداری کی سہولت سے نوازا ۔ستم ظریفی یہ ہے کہ عمران خان ملک کے اندر اور باہر پاکستان کی عوام کے لیے حقیقی آزادی کے دلکش نعرے لگاتا رہا لیکن بھارت کے سفاک بھیڑیوں کو کشمیریوں کی خون آشامی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور ان کی غلامی پر اس نے مگر مچھ کے آنسو تک نہ بہائے ۔
بھارت کی تاریخ سیاہیوں سے لتھڑی پڑی ہے۔ لیکن پانچ اگست دوہزار انیس کے یوم سیاہ کی تاریکیوں نے اس کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔بھارت ایک فاشسٹ حکومت کے زیرتسلّط ہے، جس کے تمام نظریات وہی ہیں جو آر ایس ایس جیسی دہشت گرد تنظیم کے ہیںاور آر ایس ایس کے بانیوں کے سامنے ہٹلراور مسولینی ہیروکی حیثیت رکھتے ہیں،جن کے جبر واستبدادکی مثالوں سے تار یخ کے صفحات بھرے ہوئے ہیں۔بھارت کی بی جے پی کا وزیراعظم نریندرمودی ایک ”خون پینے والی بلا“کے طورپر مشہور ہے، اسے گجرات کے قصائی کانام بھی دیا گیاجہاں اس نے ہزاروں مسلمانوں کو ایک ٹرین میں زندہ جلادیاتھا۔نریندرمودی کے فاشزم نظریئے میں آئین کی بھی کوئی حیثیت وقدروقیمت نہیں، اس نے 5اگست 2019کو دن کے اجالے میں بھارت کے آئین کو توڑتے ہوئے کشمیر پر غاصبانہ طورپرقبضہ جمالیاتھا، اور اس کیلئے نہرواورگاندھی جیسے بھارت کے اپنے تاریخی مسلّمہ بانیوں کے تشکیل کردہ آئین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے آئین کے آرٹیکل 370اور 35A کوروند ڈالااور کشمیر کی وہ خصوصی حیثیت ختم کردی جس کو انگریزسرکار بھی ختم نہیں کرسکی تھی۔اور اس نے کشمیر کو اندرونی خودمختاری دیئے رکھی۔مگر نریندرمودی نے ایک غیرآئینی وار کیا اور کشمیر کو ہڑپ کرنے کیلئے ایک ایسی چال چلی جس سے بھارت کے اندر دیگر خصوصی حیثیت کی حامل ریاستوں پر لرزہ طاری ہوگیااور وہ کانپ اٹھیں کہ آج کشمیرکی باری، توکل ان پر بھی غیرآئینی کلہاڑاچلادیاجائیگا۔بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرتے ہوئے نہ صرف اپنے آئین کو پامال کیا، بلکہ سلامتی کونسل کی نصف درجن قراردادوں کو بھی ردّی کی ٹوکری کی نذرکردیا،جن میں کشمیر کو متنازع قرار دیاگیا تھااور اس تنازع کے حل کیلئے ایک آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ استصواب کی تجویز دی گئی تھی تاکہ یو این او کی نگرانی میں کرائے جانے والے ایک ریفرنڈم میں کشمیری عوام یہ فیصلہ کرسکیںکہ وہ بھارت کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتے ہیں یا پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیتے ہیں۔ بھارت اپنے تئیں یہ سمجھتا ہے کہ اس نے سلامتی کونسل کی استصواب کی قراردادوں کا باب بند کردیا ہے۔
پانچ اگست کے یوم سیاہ پر بھار ت نے کشمیر کو ایک عقوبت خانے میں تبدیل کردیا۔عالمی میڈیا کشمیر کو ایک وسیع جیل خانے کا نام دیتا ہے۔ جہاں لاک ڈاﺅن کرکے 90لاکھ کشمیری مسلمانوں کو گھروں میں بندکردیا گیاہے۔بھارت کا یہ ظالمانہ اقدام اقوام متحدہ کے بنیادی حقوق کے عالمی چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ جس میں ہرشہری کو نقل وحرکت کی آزادی دی گئی، اظہارِ رائے کی آزادی دی گئی ہے، اجتماع کی آزادی دی گئی ہے، مذہبی عبادات کو بجالانے کی آزادی دی گئی ہے اور بیرونی دنیا سے رابطہ برقرار رکھنے کی آزادی دی گئی ہے۔ بھارت نے 5اگست کے ایک اوچھے وار سے ان تمام شہری حقوق کاقتل عام کرڈالا،اس نے لینڈلائن،موبائل فون اور وائی فائی کی انٹرنیٹ سروسز معطل کررکھی ہیں،جس کی وجہ سے مظلوم کشمیری اپنی ابتلاءسے کسی کو آگاہ بھی نہیں کرسکتے۔یہ نکتہ بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کشمیری عوام کسی سے رابطہ ہی نہیں کرسکتے،تو پھر انہیں کرونا کیسے لاحق ہواتھا۔۔۔ستم بالائے ستم! اگر کسی کشمیری کو کرونا وائرس نے اپنی گرفت میں لے بھی لیا تو اسے ہسپتال جانے اور کہیں سے علاج معالجہ کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ کشمیر کے ہسپتالوں پر،کشمیرکی مساجد پر، کشمیرکے اسکولوں، کالجوں، بازاروں اورکھیت کھلیانوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ ہر گلی میں ایک بھارتی پہرے دار جدیدترین اسلحہ لہرائے کھڑاہے۔کوئی آٹھ سال کا بچہ بھی گھر سے باہر قدم رکھے یا 80سالہ بوڑھا کہیں سے کھانے پینے کی چیزیں تلاش کرنے باہر نکلے تو انہیں گولیوں سے بھون کر رکھ دیا جاتا ہے۔ انکی میتّیں اٹھانے اور انکی تجہیز و تکفین کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔بھارتی فوج اب تک 30 ہزار سے زائد کشمیری نوجوانوں کوسرچ اپریشن کے بہانے گھروں سے اٹھاکر لاپتہ کرچکی ہے۔کسی کو معلوم نہیں کہ انکی تقدیر کا فیصلہ کیا ہوا۔۔۔ کیا انہیں شہید کردیا گیا یا وہ کسی سیف ہاﺅس میں ٹارچر کا نشانہ بن رہے ہیں یا وہ بھارتی جیلوں میں گلنے سڑنے کیلئے چھوڑدیئے گئے ہیں....!!
بھارت ریاست جموں وکشمیر کو تین ٹکڑوں میں تقسیم کرچکاہے،لیکن اس بندربانٹ کے باوجود کشمیر ی عوام بھارت کے جابرانہ اور فاشسٹ تسلط کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ہرروز سری نگر اور نواحی قصبوں میں نوجوان کشمیریوں کی دو تین لاشیں گرتی ہیں، یہ نوجوان گھس بیٹھئے یا درانداز نہیں ہوتے۔ انہیں پاکستان یا کسی اور بیرونی ریاست کی پشت پناہی بھی حاصل نہیں ہوتی۔ یہ نوجوان برہان وانی کے جہادی جذبوں سے سرشار ہیں اور برہان مظفروانی وہ نوجوان ہے جو کشمیر کا حقیقی فرزند ہے اور جس نے حریت کا درس سید علی گیلانی،سید شبیر شاہ اور یاسین ملک جیسے جانبازوں اورآزادی کے پروانوں سے حاصل کیا تھا۔ شہید وانی کے جسم سے ٹپکنے والے خون کے ہرقطرے سے یہی صدا بلند ہوئی کہ کشمیر بنے گا پاکستان!! کشمیر کے چناروں سے ایک ہی نعرہ سنائی دیتا ہے ”کشمیر بنے گا پاکستان“ بھارت نے کشمیر پر آل پارٹیز کانفرنس کا ڈھونگ رچاکر دیکھ لیامگر اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔ اس لئے کہ بھارت کے چیلے چانٹے کشمیری لیڈر بھی نئی دہلی کے پ±ر فریب جال میں پھنسنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔بھارت کا ارادہ تو یہ تھا کہ وہ اس کانفرنس کی آڑ میں وادی کشمیر میں الیکشن کاڈھونگ رچالے، لیکن اس کے یہ ارادے بھی خاک میں مل چکے ہیں۔ محبوبہ مفتی جیسی بھارت نواز خاتون لیڈر نے مودی کو یہ مشورہ دیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے پاکستان سے رابطہ کرے۔بھار ت تو پاکستان کا نام بھی سننا نہیں چاہتا تھا، اسلئے وہ محبوبہ مفتی کی بات پر کیسے کان دھرے گا۔ پانچ اگست کے سیاہ ترین اقدام سے بھارت کشمیر کی بند گلی میں بری طرح پھنس چکا ہے۔ پانچ اگست کا یوم سیاہ بلاشبہ اس کا یوم حساب بن کر رہے گا۔