آج ارادہ تو محترم دانشور اور عدلیہ بحالی تحریک کے فعال کردار جسٹس اطہر من اللہ کے نیویارک بار ایسوسی ایشن سے خطاب دلپذیر کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی ویڈیو پر ہی قلم اٹھانے کا تھا کیونکہ انکے اس خطاب میں بذات خود کئی سوالات انہی سے جواب طلبی کا تقاضا کرتے نظر آرہے ہیں جبکہ میرے اپنے دل میں بھی کھلی اور بند عدالتوں کے حوالے سے کئی سوالات کلبلارہے ہیں۔ اس موضوع پر لکھنے کا ارادہ باندھا تو گورنمنٹ کالج ساہیوال کے پرنسپل اور ہماری جی سی ایس ایلومنائی ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ ڈاکٹر ممتاز احمد وٹو صاحب کی ٹیلی فون کال موصول ہو گئی جنہوں نے کالج سے متعلق بعض گھمبیر مسائل کا تذکرہ کیا تو ضروری سمجھا کہ آج جی سی ساہیوال کے معاملہ کو بھی زیربحث لا کر ارباب بست و کشاد کے گوش گزار کیا جائے۔ اسی طرح ہماری دانشور‘ شاعر‘ انسان دوست شخصیت ڈاکٹر صغریٰ صدف کے کالم میں ان کی ہڈ بیتی پڑھ کر دل رنج اور غصے سے بھر گیا۔ اس لئے آج ان تینوں موضوعات کو کالم میں زیربحث لانے کی کوشش کروں گا۔
سپریم کورٹ کے مسٹر جسٹس اطہر من اللہ کی آئندہ کسی مارشل لاءکے خطرے کے وقت عدالتیں کھلی ہونے کی خواہش پر میرے دل میں کھلبلی مچی ہوئی تھی کہ ماضی کے کسی بھی مارشل لاءکے وقت عدالتیں بند تو نہیں تھیں بلکہ پوری فعالیت کے ساتھ کھلی ہوئی تھیں اور فاضل جج صاحبان کھلی عدالتوں میں بیٹھ کر کھلی آنکھوں کے ساتھ مارشل لاﺅں کے آغاز و عروج کے سارے مناظر دیکھ رہے تھے جو ان ماورائے آئین اقدامات کا نہ صرف استقبال کر رہے تھے بلکہ انہیں جسٹیفائی بھی کر رہے تھے۔ اس تناظر میں میرے ذہن میں تو وہ مقولے اور مثالیں بھی راسخ ہو چکی ہیں جو عدالت اور منصف کا تشخص و تاثر اجاگر کرتی ہیں۔ یہ مثال تو اکثر دی جاتی ہے کہ جج دن‘رات‘ جاگتے‘ سوتے اور اپنے نجی ضروری معاملات نمٹاتے ہوئے بھی ہمہ وقت جج ہوتا ہے۔ اسکے اختیارات اور ذمہ داریوں میں کبھی کوئی وقفہ نہیں آتا۔ پھر عدالتیں بند ہونے کا تصور کہاں سے عود کر آیا۔ جب ایوب خان کے مارشل لاءمیں ذوالفقار علی بھٹو کو حراست میں لیا گیا تو اس وقت جسٹس مولوی مشتاق نے اپنے گھر میں فریاد لے کر آئے ہوئے انکے وکیل کی ہتھیلی پر لکھ کر انکی ضمانت پر رہائی کے احکام صادر کر دیئے تھے۔ اور کسی بھی وقت عدالتیں کھلی ہونے کی مثالیں ماضی قریب میں بھی یہ کہتے ہوئے سامنے لائی جاتی رہی ہیں کہ ہمیں آئین نے دستک دی ہے اس لئے آئین کی پاسداری کرانا ہماری ذمہ داری ہے۔ ماورائے آئین حکمرانیوں کے دوران عدالتیں بند ہوتیں تو ایک جرنیلی آمر کے ہاتھوں معطل ہونیوالے چیف جسٹس سپریم کورٹ کی انکے منصب پر بحالی کیسے ممکن ہوتی۔ چاہے اس میں سول سوسائٹی کی عدلیہ بحالی تحریک کا دباﺅ ہی شامل حال تھا مگر عدالتیں کھلی تھیں تو جرنیلی آمر کی موجودگی میں یہ معجزہ رونما ہوا ورنہ تو کھلی عدالتوں میں کھلی آنکھوں کے ساتھ جرنیلی آمروں کے مسلط کئے گئے پی سی او کو بسر و چشم قبول کرکے آئین کے منافی ان کے اقدامات پر مہر تصدیق بھی ثبت کی جاتی رہی ہے۔
اس بحث میں پڑتے ہوئے مجھے ایسے ہی اعلیٰ عدلیہ کے فاضل ججوں کا کوڈ آف کنڈکٹ بھی یاد آگیا جو فاضل عدالت عظمیٰ کا اپنا وضع کردہ ہے اور اس میں فاضل ججوں کو باور کرایا گیا ہے کہ اس منصب پر فائز رہنے تک انکی کوئی نجی زندگی نہیں۔ وہ نجی تقریبات میں شریک ہو سکتے ہیں نہ اپنے عزیز و اقرباءکو کسی قسم کی رعایت دے سکتے ہیں۔ انہیں کوڈ آف کنڈکٹ کے تحت اخبارات‘ ریڈیو‘ ٹی وی سے بھی گریز کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ اور پھر یہ مقولہ تو ضرب المثل ہے کہ جج نہیں‘ اس کا فیصلہ بولتا ہے۔ خدا لگتی کہئیے کہ اس کوڈ آف کنڈکٹ کی کسی ایک شق پر بھی اسکے نفاذ سے اب تک عمل ہوا ہے؟
محترم جسٹس اطہرمن اللہ کے بطور جج سپریم کورٹ نیویارک بار میں دبنگ انداز میں کئے گئے خطاب کے آج ڈنکے بج رہے ہیں جس سے یقیناً وہ خود بھی محظوظ ہو رہے ہونگے۔ اسی طرح سیاسی نوعیت کے مقدمات میں فاضل بنچ کی جانب سے جو ڈائیلاگ اور ریمارکس پوری باڈی لینگوئج کے ساتھ مقدمے کے فیصلے سے پہلے سننے کو ملتے ہیں‘ کیا وہ عدالتوں کے بند ہونے کا نقارہ ہوتے ہیں۔ جناب ہماری عدالتیں تو ایسی کھلی ہوئی ہیں کہ آئین و قانون بھی ان کیلئے موم کی ناک بن جاتا ہے۔ مگر انہی کھلی عدالتوں کے سامنے حکمرانوں کی آشیرباد سے آئی پی پیز کی جانب سے قومی خزانے کی لوٹ مار جاری ہے اور اس لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے حکمرانوں نے بجلی‘ گیس کے بلوں میں الابلا قسم کے ٹیکس لاگو کرکے عام آدمی کا عرصہ حیات تنگ کر دیا ہے مگر مجال ہے کہ کسی کھلی عدالت کی جانب سے اس کا نوٹس تک لیا گیا ہو۔
میں اس بحث سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گورنمنٹ کالج ساہیوال کی کسمپرسی اور ڈاکٹر صغریٰ صدف کو گالی گلوچ والے پراگندہ کلچر کی زد میں لانے کا معاملہ بھی کھلی عدالت میں ہی پیش کررہا ہوں۔ گورنمنٹ کالج ساہیوال پنجاب کی قدیمی اور رقبے اور معیارِ تعلیم کے حوالے سے پنجاب کی سب سے بڑی درسگاہ ہے۔ اس میں تو کسی قسم کا انتظامی اور مالی مسئلہ پیدا ہونے کی نوبت ہی نہیں آنی چاہیے مگر لگتا ہے کہ اس کالج کے مسائل کی جانب ہمارے حکمرانوں اور متعلقہ اداروں کی کبھی توجہ ہی نہیں گئی یا انہوں نے ادھر کی جانب دانستاً اپنی آنکھیں مِیچ رکھی ہیں۔ ڈاکٹر ممتاز احمد صاحب بے بسی کا اظہار کر رہے تھے کہ انہوں نے بلڈنگ ڈیپارٹمنٹ کے مقامی آفس کو بھی مراسلات کے ذریعے آگاہ کیا ہوا ہے کہ کالج میں واٹر ہیڈریزوائر بمع ٹربائن ایک عرصہ سے خراب پڑا ہے اور پانی کی سپلائی لائن تک بند ہے جس کی مرمت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح کالج کے نئے بی ایس بلاک کیلئے 62 کمروں بمع ٹائلٹس کی تعمیر درکار ہے جبکہ کالج کے ٹیچنگ اور نان ٹیچنگ سٹاف کی رہائش گاہوں کی تعمیر کا منصوبہ بھی تشنہءتکمیل پڑا ہے۔ اور پھر کالج کے اندر اڑھائی کلو میٹر تک کی سڑکیں عملاً کھنڈرات بن چکی ہیں جو طلبہ‘ اساتذہ اور وزیٹرز خواتین و حضرات کیلئے سوہان روح بنی ہوئی ہیں۔ مگر ہماری باربار کی یاددہانیوں کے باوجود کالج کے ان تعمیراتی منصوبوں کیلئے فنڈز مختص نہیں کئے گئے۔ پرنسپل صاحب نے اس معاملہ میں محترم مجیب الرحمان شامی اور میرے ساتھ یہ توقعات وابستہ کرلی ہیں کہ ہم متعلقہ حکام بالا تک انکی آواز پہنچائیں۔ حکام بالا کی تو نہ جانے کیا مصلحتیں ہوتی ہیں‘ مگر انہیں سرکاری سرپرستی میں معماران قوم کی تعلیم و تربیت کرنے والی کسی مادر علمی کے ساتھ تو اغماض نہیں برتنا چاہیے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز صاحبہ تو فروغ تعلیم کے ڈنکے بجا رہی ہیں‘ کیا گورنمنٹ کالج ساہیوال کے مسائل انکی نظر سے نہیں گزرے۔ پھر میں کھلی عدالت سے ہی گزارش کروں گا کہ اسکی فعالیت کی کوئی ہلکی سی جھلک گورنمنٹ کالج ساہیوال کے سٹاف اور طلبہ و طالبات کو بھی نظر آجائے۔
حلیم الطبع نفیس خاتون ڈاکٹر صغریٰ صدف کو کون نہیں جانتا۔ وہ انسانیت کی بھلائی کے راستے نکالتی رہتی ہیں۔ شاعر ہونے کے ناتے وہ حساس طبیعت کی مالک ہیں اور دوسروں کے دکھ کو سانجھا دکھ سمجھتی ہیں۔ مجھے ایک موقر اخبار میں ان کا گزشتہ روز کالم پڑھ کر ادب و آداب سے عاری آج کے کلچر کے اسیر نوجوانوں کے ہاتھوں سماجی اقتدار ملیامیٹ ہوتی نظر آئیں۔ اس کلچر کے ہاتھوں گھر کے گھر برباد ہو رہے ہیں اور ناخلف اولاد کے ہاتھوں والدین کی عزتیں بھی اچھلتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ اس کلچر کے اسیر ایک بدبخت نے ڈاکٹر صغریٰ صدف کو زبردستی اپنے وٹس ایپ گروپ میں شامل کیا اور خواتین کی عزتیں اچھالنے والے اپنے مذموم و مکروہ فعل کے ساتھ انہیں سانجھ جوڑنے پر مجبور کیا۔ ڈاکٹر صاحبہ نے اس پر گروپ چھوڑ دیا تو اس بدبخت نے انکے فون نمبر پر رابطہ کرکے انہیں غلیظ گالیاں اور دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ یہ صورتحال اہل فکر و دانش کیلئے یقیناً بڑی سوچ و بچار اور ایسے بدطینت عناصر کی سائبر کرائم سے متعلق قانون کے تحت سرکوبی کی متقاضی ہے۔ ڈاکٹر صغریٰ صدف نے اس کیلئے آواز اٹھائی ہے تو یہ معاملہ قانون کے پاسداروں اور کھلی عدالتوں سے بھی غور و فکر اور ٹھوس عملی اقدامات کا متقاضی ہے۔ ”دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پر گہر ہونے تک“۔