بلال ٹاﺅن کی آواز کون سُنے گا؟

لاہور۔۔پاکستا ن کے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت ہے جو آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔ اس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔ اضلاع کی تعداد 35ہے۔ جتنا بڑا صوبہ ہے، مسائل بھی ا±سی قدر زیادہ ہیں۔ اس کا شمار پاکستان کے گنجان آباد شہروں میں ہوتا ہے۔اسے پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی، تاریخی اور باغوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے۔ 
کراچی کے بعد یہ ملک کا دوسرا بڑا شہر ہے جو دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کو دنیا کے قدیم اور اہم ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ شہر زندہ دلوں کا شہر بھی کہلاتا ہے۔ زندہ دلانِ لاہور کے روایتی جوش و جذبے کے باعث اسے بجا طور پر بڑی اہمیت حاصل ہے۔ مغل بادشاہ جہانگیر کی اہلیہ ملکہ نور جہاں نے لاہور کے متعلق کہا تھا ”اس جیسا شہر شاید ہی دنیا میں کہیں ہو۔ یہ خوبصورت ترین شہروں میں سے ایک ہے۔ جس کی تاریخی اور جغرافیائی حیثیت ہے۔“
لاہور 550کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کی انتہائی قدیم تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ بعض تاریخی شواہد کے مطابق رام کے بیٹے راجا لوہ نے اس کی بنیاد رکھی۔ یہاں ایک قلعہ بنوایا۔ دوسری صدی تک یہ شہر ہندو راجاﺅں کے زیر تسلط رہا۔ گیارہویں صدی میں مسلمان حکمران محمود غزنوی نے پنجاب فتح کر کے ایاز کو لاہور کا گورنر مقرر کیا اور اس شہر کو دین اسلام سے روشناس کرایا۔ 1451ءمیں یہ شہر لودھی خاندان کے زیر تسلط آ گیا۔ 1526ءمیں ظہیر الدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دی جسکے نتیجے میں مغلیہ سلطنت وجو د میں آئی۔ مغلوں نے اپنے دور میں لاہور میں عظیم الشان عمارتیں تعمیر کرائیں اور بہت سے باغات لگوائے۔ اکبر اعظم نے شاہی قلعہ کو از سرِ نو تعمیر کرایا۔ شہزادی جہاں آراءنے دریائے راوی کے کنارے پر چوبرجی باغ تعمیر کرایا جس کا بیرونی دروازہ آج بھی موجود ہے۔
قدیم لاہور شاہی قلعہ کے ساتھ واقع ہے۔ جسے اندرونِ لاہور بھی کہا جاتا ہے۔ لاہور کے گرد ایک فصیل بھی تھی جس میں تیرہ دروازے تھے جو سکھوں کے دور تک غروب آفتاب کے ساتھ بند کر دئیے جاتے تھے۔ اس میں کچھ دروازے اب بھی موجود ہیں۔
بیسویں صدی میں قدیم لاہور کے مضافات میں بہت سی جدید بستیوں کا اضافہ ہوا جو، اب بھی جاری ہے۔ اردو کے نامور مزاح نگار پطرس بخاری نے اپنے مضمون ”لاہور کا جغرافیہ“ میں اس کا حدود اربعہ یوں بیان کیا ہے ”کہتے ہیںکسی زمانے میں لاہور کا حدود اربعہ بھی ہوا کرتا تھا لیکن طلباءکی سہولت کے لیے میونسپلٹی نے اسے منسوخ کر دیا۔ اب لاہور کے چاروں طرف بھی لاہور ہی واقع ہے۔ اور روز بروز واقع تر ہو رہا ہے۔ 
ملتان روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ سے تھوڑا آگے چلے جائیں تو آپ کو بہت سی جدید سوسائٹیوں کا جال پھیلا ہوا نظر آئے گا جن میں ہر طرح کی ضروری بنیادی سہولتیں موجود اور میسر ہیں۔ انہی آبادیوں میں ایک ”بلال ٹاﺅن“ بھی ہے جس کی آبادی کم و بیش تین ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہاں جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا ”بلال ٹاﺅن“ ناصرف زندگی کی کئی بنیادی سہولتوں سے محروم ہے بلکہ جا بجا بجلی کے تار بھی کھمبوں اور گھروں کی دیواروں کے آگے لٹکے ہوئے ہیں۔ جس سے خطروں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہاں کے ایم این اے ملک سیف الملوک کھوکھر اور ایم پی اے ملک افضل کھوکھر ہیں۔دونوں سگے بھائی ہیں۔ ن لیگ سے تعلق رکھتے ہیں۔ٹاو¿ن کے لوگ انکی توجہ کے منتظر ہیں۔بارش ہو تو پورا علاقہ جوہڑ بن جاتا ہے۔ دلدل زدہ گلیاں اور راستے لوگوں کا منہ چڑاتے ہیں کہ کس دور میں رہتے ہو؟ ہاں، واقعی یہاں کے حالات بدترین ہیں۔ لوگوں کو کیچر میں جوتے اتار کر چلنا پڑتا ہے۔ ”منزل دور است“ کے مصداق راستہ کٹنے میں نہیں آتا، تعفن، مکھی، مچھر وں کی بھرمار ہے جس سے بیماریاں پھیل رہی ہیں، لوگ بیمار ہو رہے ہیں۔یہ بھی واضح رہے کہ ”بلال ٹاﺅن“ کے بالکل نزدیک ایل ڈی اے ایونیو اور شیر شاہ کالونی بھی ہیں۔ جہاں ہر طرح کی سہولتیں اور صفائی ستھرائی کا بہترین انتظام ہے۔ لیکن نجانے کیوں اربابِ اختیار کی نظر بلال ٹاﺅن پر نہیں پڑتی۔ یہ سہولتوں سے کیوں محروم ہے؟ اہالیان علاقہ سے مزید معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ یہاں ڈاک کی ترسیل کا بھی کوئی معقول بندوبست نہیں۔ بجلی کے بل بھی گھر گھر دینے کی بجائے ایک دودھ والے کی دکان پر رکھ دئیے جاتے ہیں۔ جہاں سے لوگ بڑی مشکلوں سے بل وصول کرتے ہیں۔ بجلی کا نیا کنکشن یا نیا میٹر لگوانا ہو تو بجلی کے دفتر میں سرعام رشوت لی جاتی ہے۔ رشوت لیتے ہوئے کوئی شرم، جھجھک محسوس نہیں کی جاتی۔
ان حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ”بلال ٹاﺅن“ پاکستان کا حصہ نہیں، علاقہ غیر میں واقع ہے۔ جہاں من مرضی سے سب کچھ ہوتا ہے۔ اہلیان علاقہ اس کالم کی وساطت سے اربابِ اختیار کی توجہ اپنے مسائل اور بنیادی سہولتوں سے محرومی کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں کہ وہ بھی محب وطن پاکستانی ہیں۔ ریاست کو ا±ن کا بھی ہر طرح سے خیال رکھنا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن