نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ملک میں بالخصوص تحفظ ختم نبوت کے معاملے میں ہمارا جذباتی پن اس عظیم مقصد کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم آخری نبی ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیء علیما۔
ترجمہ۔محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ کے بعد کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ بدقسمتی سے اس کے بعد کچھ لوگوں کے مختلف خیالات ہیں اور جو بدبخت ایسے ہیں اس حوالے پاکستان کے آئین میں واضح چیزیں درج ہیں۔ ختم نبوت کے معاملے میں پاکستان کا آئین واضح ہے اور اس پر ہر وقت عملدرآمد ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے کوئی بھی بات ہو بھلے انفرادی طور پر یا پھر اجتماعی طور پر تو صرف اور صرف آئین و قانون کے تابع رہنا چاہیے۔ ملک میں اس معاملے کسی بھی قسم کی تقسیم سے بچنے کا واحد حل ہی قرآن کریم کے احکامات اور سیرت نبوی صلی اللہ علیہ والہ وسلّم سے ثابت ہے اور اسی بنیاد پر ختم نبوت کے معاملے کو آئین پاکستان کا حصہ بنایا ہے۔ آج ہمیں ملک میں جس شدت پسندی کا سامنا ہے ان حالات میں مذہبی شدت پسندی اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔ ختم نبوت کے معاملے میں کسی کو رعایت نہیں ہونی چاہیے لیکن ریاست کے کاموں میں کسی کو مداخلت بھی نہیں کرنی چاہیے۔ اس معاملے میں بھی ریاست اور مذہبی قیادت اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس معاملے میں بھی ہمیں تاجدار انبیاء خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی سیرت سے سبق حاصل کرنا ہے اور رہنمائی لینی ہے۔
حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شامل ایک مہاجر صحابی تھے۔ ایک موقعہ پر آپ نے قریش کو ایک خط لکھ دیا کہ رسول اللہ ؐجنگ کی تیاریاں کر رہے ہیں، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہو جاؤ۔ اس خط کو انھوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ نبی کریم ؐکو خبر ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ’’روضہ خاخ’’ میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ یہ تینوں اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تیز رفتار گھوڑوں پر سوار ہوکر ’’روضہ خاخ’’ میں پہنچے اور عورت کو پا لیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!رسول اللہ ؐ کبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے۔ عورت نے وہ خط نکال کر دے دیا ۔ جب حضرت علی اور حضرت مقداد رضی اللہ تعالیٰ عنہ بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ ؐ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور فرمایا کہ اے حاطب!یہ تم نے کیا کیا؟ انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہؐ نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں۔ پھر حاطب بن ابی بلتعہ نبی کریم ؐ کے سامنے خط لکھنے کی وجوہات بیان کیں اور کہا یا رسول اللہؐ میرا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور ان کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا۔ حضور ؐنے حاطب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عذر کو قبول فرما لیا۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آ گئے کہ آپے سے باہر ہو گئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ؐ مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں۔ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم ؐ کی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر ! کیا تمھیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھیں نم ہو گئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہو گئے کہ’’ اللہ اور اس کے رسول ؐ کو ہم سب سے زیادہ علم ہے)۔ بہرحال حضور ؐ نے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاف فرما دیا۔
اب ہمارے لیے لازم ہے کہ حساس ترین اور نازک ترین معاملات سیرت نبوی ؐسے ہی رہنمائی لینی چاہیے، یہی ہدایت ہے۔ قرآن و سنت سے ہی حقیقی رہنمائی ملتی ہے۔ یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ چند روز قبل ایک شخص نے چیف جسٹس آف پاکستان کے سر کی قیمت مقرر کر دی اس معاملے میں تحریک لبیک پاکستان کے نائب امیر ظہیرالحسن شاہ کو اوکاڑہ سے گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو قتل کی دھمکی دینے پر تحریک لبیک کے نائب امیر پیر ظہیرالحسن شاہ پر مقدمہ درج کیا گیا اور اس مقدمے میں ٹی ایل پی کے پندرہ سو کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں انسداد دہشت گردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے اور عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مذہبی قیادت نے ریاست کے امور میں مداخلت کی مذمت کرتے ہوئے آئینی و قانونی معاملات میں مناسب فورم سے رجوع کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔ اگر پاکستان کے آئین میں درج چیزوں کے مطابق معاملات کو چلایا جا سکتا ہے تو پھر کسی شخص کی ایسی سوچ یا عمل کی حوصلہ افزائی لاقانونیت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ مذہبی قیادت کو اس معاملے میں بہت واضح موقف کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے، ساتھ ہی ساتھ عوامی سطح پر آگاہی مہم بھی ہونی چاہیے۔
چیئرمین اسلامی نظر یاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں کسی فرد کو واجب القتل قرار دینا غیر شرعی غیر قانونی ہے، اس طرح کے جذباتی اقدامات سے عقیدہ ختم نبوت کی کاز کو نقصان پہنچا ہے۔ پاکستان آئینی و اسلامی ریاست ہے، قانونی نظم میں ہر نوعیت کے جرائم کی مستقل سزائیں موجود ہیں جو طے شدہ طریقہ کار کے مطابق بذریعہ عدالت دی جاتی ہیں کسی فرد ، گروہ یا جتھے کو نا شرعا ًاور نہ ہی قانوناً اجازت ہے کہ خود عدالت لگاتے ہوئے کسی کے قتل کا فتویٰ اور حکم جاری کرے۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے متعدد دفعہ اس اہم امر پر زور دیا ہے کہ اشتعال انگیزی ، تکفیر کے فتویٰ اور کسی حکومتی ، ریاستی یا کسی عام فرد کو قتل کرنے کی دھمکی دینا قرآن و سنت کی واضح تعلیمات سے متصادم ہے۔ اس معاملے میں نہایت دھیان اور احتیاط کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کہتے ہیں شرعا اور نہ ہی قانونا اجازت ہے کہ کسی کے قتل کا فتویٰ اور حکم جاری کرے۔ اشتعال انگیزی، تکفیر کے فتویٰ اور قتل کی دھمکی دینا قرآن وسنت سے متصادم ہے، عالم دین کا منصبی فریضہ ہے کہ صحیح اور غلط نظریات کا درست شرعی حل بتائے۔ کسی کے بارے میں فیصلہ صادر کرنا ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے۔ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلہ سے اختلاف پر علمی گفتگو کی جا سکتی ہے، اسلامی نظریاتی کونسل اس حوالے سے اپنی اختلافی رائے ظاہر کر چکی ہے۔ اس معاملے میں نہایت احتیاط کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ختم نبوت کے عظیم مقصد کے ساتھ جڑے رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔