یہ سنتے ہو ارے لوگو زبانِ خامشی سے کیا
جو کہتا ہے تمھیں ہر سال دن سولہ دسمبر کا
جو ماضی کو بھلا ڈالے سبق نا کوئی اس سے لے
تو کھو دیتی ہے ایسی قوم حق دنیا میں جینے کا
مگر تاریخ سے تم کو ہے کیا لینا غرض ہے کیا
کہ آبا نے تمھارے تم کو اس سے بے خبر رکھا
سنو جو تم تو بتلائیں کہ دن سولہ دسمبر کا
جو ملک و قوم کے سر پر مصیبت ایک لایا تھا
ستم توڑے تھے غیروں نے جفا اپنوں نے کی تھی جب
وطن کے ٹکڑے کر ڈالے کیا دھرتی کا بٹوارہ
ملے سالاروں سے رہبر بہت کوتاہ بیں بن کر
تھا استبدادِ ایّوبی حقیقت میں سبب اس کا
جو وحدت کی علامت تھی وہ مادر تھی جو ملت کی
وطن کی ماں کو جابر نے جہاں بھر میں کیا رسوا
وہ پیمانِ وفا رب سے بھلا کر قوم نے مظہر
ہے عصیان و بغاوت کو شعار اپنا بنا ڈالا
ڈاکٹر ضیاالمظہری