وقت کے طاقتور آمر کے مقابل ثابت قدم راہنما

 ایم یوسف عزیز
azizmyousuf@yahoo.com
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا آج 131واں یوم ولادت( سالگرہ ) ہے۔ وہ 31 جولائی 1893ء کو کراچی میں پیدا ہو ئیں۔ ان کی حیات مستعار کم و بیش پون صدی (75 برس ) پر محیط ہے۔ ان کا بچپن، ابتدائی تعلیم، پیشہ ورانہ تربیت، عملی زندگی کا آغاز، قائد اعظم کے کے زیر سایہ ہوا۔ قائد کی رحلت کے بعد زندگی کے کچھ سال مسز ثریاء خورشید کے ہمراہ گزرے جو کہ , کے۔ایچ۔خورشید کی بیگم تھیں، جو قیام پاکستان کے اہم ترین اور فیصلہ کن دنوں میں قائد اعظم کے ذاتی معاون رہے۔اس عرصے کی روداد مسز ثریاء  خورشید نے " محترمہ فاطمہ جناح کے شب و روز" نامی کتاب اپنی یادواشتوں میں پوری جزئیات کے ساتھ محفوظ کی ہیں۔ جسے سرکاری مصروفیات میں منہمک ناظم تحقیقات ڈاکٹر ضوبیہ سلطانہ ہم تک پہنچانے کیلئے خراج تحسین کی مستحق ہیں۔محترمہ فاطمہ جناح کو قیام پاکستان کے بعد  خاتون پاکستان کے لقب سے نوازا گیا۔ بعد ازاں 26 مارچ 1957 کواس وقت کے مشرقی پاکستان کے گورنر ابوا لقاسم فضل حق کے خط جو انہوں نے اپنے ملٹری سیکرٹری کے ذریعے بھیجا تھا، اس میں انہوں نے مادر ملت کا لقب عطا کرتے ہوئے کہا " عزت مآب مادر ملت صاحبہ، مجھے ایسا کہنے کی اجازت دیں۔ آپ ہماری اسی طرح مادر ملت ہیں جس طرح ہمارے عظیم رہنما جناب جناح صاحب پاکستان کی مملکت کے بانی تھے۔ امید ہے آپ مجھے ایسا کہنے اور لکھنے کی اجازت دیں گی جس طرح میں نے کہا اور لکھا ہے۔" اس کے بعد سرکاری سطح پر انہیں مادر ملت کہا اور لکھا جانے لگا۔ 
 مادر ملت اپنے آٹھ بہن بھائیوں میں ساتویں نمبر پر تھیں۔جب ان کے والد کا 1901ء  میں انتقال ہوا تو ان کی پرورش کی زیادہ تر ذمہ ڈاری باقی بہن بھائیوں کے ساتھ قائد اعظم محمد علی جناح کے کندھوں پر ہی رہی۔ ان کی ابتدائی تعلیم کا آغاز 1906میں سینٹ پیٹرک ہائی اسکول خان ڈالہ بمبئی سے ہوا۔ انہوں نے 1910 میں میٹرک کا اورسینیئر کیمبرج کا امتحان 1913میں بطور۔ پرایویٹ بمبئی یونیورسٹی سے پاس کیا۔ 1919 میں ڈاکٹر احمد ڈینٹل کالج یونیورسٹی کولکتہ میں داخلہ لیا جہاں سے 1922 میں شعبہ امراض دندان سازی میں ڈپلومہ حاصل کیا۔ عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے ابتدا میں عبد الرحمٰن سٹریٹ بمبئی میں اپنا ذاتی ڈینٹل کلینک کھولا۔ اور ساتھ ساتھ میونسپل کلینک بمبئی میں چند سال غریبوں کیلئے  مفت خدمات انجام دیتی رہیں۔
 1929 میں حالات نے عجب پلٹا کھایا جب قائد اعظم محمد علی جناح کی رفیق حیات محترمہ رتی جناح کا انتقال ہوگیا۔ مادرِملت اپنے بھائی کی طرح انتہائی راست باز تھیں۔قائداعظم کے بعد مادرِملت کی شخصیت میں بابائے قوم کی شخصیت کا عکس نمایا ں طورپر نظر آتاہے۔ جب پوری قوم اپنے قائد کی ناگہانی موت پر صدمے سے نڈھال تھی اس وقت انہوںنے قوم کو حوصلہ دیا اور حوصلہ مندی کا حیات افروز پیغام دیا۔قائداعظم نے فرمایا''جب میں دن رات کی مصروفیات سے فارغ ہوکر گھر لوٹتاہوں تو میری بہن میری دیکھ بھال کرتی تھیں ان کا مجھ پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے دیکھ بھال کے علاوہ ہر تحریک میں میرا ساتھ دیا اور خواتین کی رہنمائی میں میری پوری مددکی۔1940ء میں قرار داد پاکستان کی منظوری کے بعد انہوںنے متحدہ ہندوستان کے ہر مقام کا دورہ کیااوروہ قائداعظم کے ساتھ ساتھ رہیں۔
 تشکیل پاکستان کے بعد بھی محترمہ نے بانی پاکستان کی ہر قدم پر معاونت کی اور انہیں ملک وقوم کا فکری سیاسی کام یکسوئی سے کرنے کیلئے گھر یلواور ذہنی سکون مہیّا کیا۔وہ آخری وقت تک قائداعظم کی صحت یابی کیلئے سرگرداں رہی تھیںلیکن ہر ذی روح نے موت کا مزہ چکھنا ہے۔11ستمبر کو قائداعظم اس جہان فانی سے کوچ کرگئے اس وقت محترمہ کی جو حالت تھی وہ بیان نہیں کی جاسکتی گویا وہ اسوقت بالکل تنہا تھیں ۔ 11ستمبر 1948ء کے بعد ان کی زندگی کا اہم دور شروع ہوگیا۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا معرکہ اپنے وقت کے طاقتور ترین آمر اور پاکستان کی قومی سیاست میں فوجی عمل دخل بڑھانے والے متحدہ پاکستان کے صدر محمد ایوب خان سے تھا، جو 2 جنوری 1965 کو برپا ہوا۔ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں تمام حزب مخالف کی جماعتیں یکجا تھیں۔مگر حالات کے جبر اور وقت کے حاکموں نے ہر طرح کے ناجائز حربے استعمال کر کے قوم کی اس عظیم بیٹی اور ماں کو ملک و ملت کی خدمت سے دور رکھا۔
اپنوں نے بھی بے وفائی کی مگرانہوںنے مشکل سے مشکل وقت میں صبر کا دامن تھامے رکھا۔انہوںنے کسی دور میں بھی خود کو سیاست سے الگ نہیںکیا۔محترمہ نے بحالی جمہوریت کیلئے نعرہ حق بلند کیا اور بڑھاپے کے باوجود میدان عمل میں پورا کردار اداکیا۔محترمہ فاطمہ جناح ایک عظیم اور باہمت خاتون تھیں۔آپ  اپنی تمام تر ذاتی دلچسپیوں اور مصروفیات پر اپنے عظیم بھائی کی خدمت کو اولین ترجیح دی۔ اس زمانے کی تمام تفصیل انہوں نے 1987 ء  میں۔ چھپنے والی قائد اعظم کے بارے اپنی کتاب " میرا بھائی میں شامل کر دی ہیں۔ ابتدا میں ہم نے محترمہ فاطمہ جناح کو "جمہوری شمع فروزاں" کے لقب سے یاد کیا ہے۔ اور بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ سیاسی مشکلات سے دو چار موجودہ دور کی خواتین ان کے کردار کو اپنے لیے مشعل راہ بنا کر ہی انہیں  عملاًخراج عقیدت پیش کر سکتی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن