شریف فاروق
محترمہ فاطمہ جناح دیس پر دیس ہر مرحلے ہر مقام پر اپنے بھائی کی جد جہد میں شریک رہیں۔آپ 1930ء میں قائداعظم کی لندن میں ہونے والی گول میز کانفرنس میں شرکت کیلئے بھی ان کے ساتھ گئیں۔ قائداعظم کی واحد صاحبزادی دینا جناح بھی ان کے ساتھ تھیں۔ کانفرنس کے انعقاد کے بعد1931ء سے1934ء تک انہوں نے خود اختیار کردہ لیکن باوقار جلاوطنی کا زمانہ لندن میں گزارا اور پریوی کونسل میں بطور وکیل پریکٹس کا آغاز کیا۔ دراصل قائداعظم ہندو مسلم اتحاد کی کوششوں کو ناکامی سے بددل ہو چکے تھے۔ اس لئے انہوں نے سوچا کہ جب تک ہندوستان میں حالات بہتر رخ اختیار نہیں کر لیتے وہ لندن میں مقیم رہیں گے۔ ان کی اکلوتی صاحبزادی دینا جناح سکول میں داخل ہو چکی تھیں،جبکہ فاطمہ جناح گھریلو ذمہ داریاں نبھا رہی تھیں۔ قیام لندن کے دوران جناح فیملی نے کئی یورپی ممالک کی سیاحت کی۔1933ء میں لیاقت علی خان انگلستان آئے۔ ان کے ہمراہ ان کی بیگم رعنا بھی تھیں۔ لیاقت علی خان نے قائداعظم سے درخواست کی کہ وہ ہندوستان واپس چلیں۔ انہوں نے ان کے بے حد اصرار پر کہا کہ جب وہ ہندوستان واپس جائیں تو وہاں کے سیاسی حالات کا ازسر نو جائزہ لیں اور اگر وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ ان کی واپسی ناگزیر ہے تو وہ واپس لوٹنے کا سوچ سکتے ہیں۔ قیام لندن کے سالوں میں ہندوستان سے دیگر سیاسی لیڈر اور احباب بھی قائداعظم کو ہندوستان واپس آنے کے لئے کہہ رہے تھے۔ مفکر پاکستان علامہ اقبال بھی اس خیال کے حامی تھے کہ قائداعظم واپس آ کر مسلمانان برصغیر کی رہنمائی کریں ان کا پختہ خیال تھا کہ وہی مسلمانان ہند کی نیا کو منجدھار سے نکال سکتے ہیں۔ انہوں نے اپنے خطوط میں انہیں مسلمانان ہند کی قیادت کے لئے واپس آنے پر زور دیا چنانچہ قائداعظم 1933ء میں ہندوستان آئے اور مسلم لیگ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے بعد دوبارہ لندن چلے گئے مگر ان کے پیچھے ان کی عدم موجودگی میں بمبئی کے مسلمانوں نے ان پر اپنے بے پایاں اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے 11 فروری1934ء کو ان کے کاغذات نامزدگی داخل کر دیئے تاکہ وہ مسلمانوں کی نمائندگی کریں۔ انتخاب ہوا اور انہیں مرکزی اسمبلی کا رکن منتخب کر لیا گیا۔ آخر کار یکم اپریل1935ء کو قائداعظم محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ہندوستان واپس آئے تو مسلم لیگ نے انہیں اپنا صدر منتخب کر لیا۔
اب قائداعظم کی زندگی زیادہ مصروف ہو چکی تھی۔ وہ زیادہ محنت اور دل سوزی سے مسلمانوں کی قیادت کرنے لگے تھے ۔مگر ان کی صحت بھی گرنا شروع ہوگئی تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنی مصروفیات کو کم نہ کرتے تھے۔ محترمہ فاطمہ جناح ان کو ہمیشہ کہتیں کہ وہ رات بھر جلسے کرنے اور ورکنگ کمیٹی کی نشستوں کی بجائے دو دن یا تین دن میں اپنا پروگرام مکمل کر لیا کریں۔ مگر قائداعظم کے لئے اس ’’نصیحت‘‘ پر عمل کرنا مشکل ہوتا۔ وہ ان کی بات سے اتفاق بھی کرتے مگر ساتھ ہی ان کو منع کرتے کہ جب ورکنگ کمیٹی کا یا کوئی اور اجلاس ہو رہا ہو تو وہ انہیں وقت کی یاد دہانی نہ کرائیں۔
قائداعظم طبعاً خاموشی پسند اور اخفا پسند تھے۔ کسی کو راز میں شریک کرنا سخت ناپسند کرتے تھے حتیٰ کہ ان کی قریب ترین ساتھی یعنی چھوٹی بہن بھی ان سے کسی راز کے بارے میں استفسار کرنے کے اول تو جرأت ہی نہیں کرتی تھیں۔ اگر کبھی پوچھ لیتیں تو قائداعظم ضروری سمجھتے تو بتاتے وگرنہ انکار کر دیتے۔ دنیا کا ہر بڑا سیاستدان کسی نہ کسی کو ضرور اپنا رازدان بناتا ہے اور دل کی بات کہہ ڈالتا ہے۔ قائداعظم بھی بہن سے مختلف معاملات پر گفتگو کرتے تھے ان کی آرا لیتے تھے۔ سیاست کے اتار چڑھائو پر بحث بھی کرتے تھے تاہم خفیہ اجلاسوں کی کارروائی انہیں کبھی نہیں بتاتے تھے۔ نہ ہی ایسے اجلاسوں میں محترمہ کو اپنے ساتھ لے جاتے تھے۔ البتہ کھلے عام اجلاسوں اور دوروں میں انہیں ہمیشہ ساتھ رکھتے تھے۔ ایک مرتبہ ورکنگ کمیٹی کے اجلاس کی کارروائی کے متعلق انہوں نے قائداعظم سے پوچھا مگر انہوں نے بتانے سے انکار کر دیا اور ساتھ ہی کہا کہ اس کے متعلق بیگم مولانا محمد علی سے پوچھو۔ محترمہ کہنے لگیں وہ تو کچھ نہیں بتا رہیں۔ اس پر قائداعظم بے حد خوش ہوئے اور کہا مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ وہ نہیں بتاتیں۔ محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم کے لئے کیا تھیں ان کے الفاظ تھے۔
’’میں جب بھی دن بھر کی مصروفیات سے فارغ ہو کر گھر لوٹتا اور بہن کے پاس پہنچتا تو فاطمہ جناح میرے لئے روشنی کی کرن ثابت ہوتی تھیں۔ فاطمہ کا مجھ پر بڑا احسان ہے۔ اس نے میری دیکھ بھال کے علاوہ ہر تحریک میں میرا پوری ثابت قدمی اور وفاداری سے ساتھ دیا۔ انہوں نے مسلمان خواتین کی رہنمائی میں میری پوری مدد کی۔‘‘
محترمہ فاطمہ جناح اپنے بھائی کے شانہ بشانہ مسائل و معاملات پر بڑی گہری نظر رکھتی تھیں اور ان کا مشورہ خود داری اور غیرت مندی پر مبنی ہوتا تھا۔ خوشامد کو سخت ناپسند کرتی تھیں۔ سچ بات برملا کہہ ڈالتی تھیں۔ وہ زبردست قوت ارادی کی مالک تھیں۔ انہوں نے قائداعظم کی رہنمائی میں اور ان کی تحریک پر مسلمان خواتین کے سیاسی، سماجی، تعلیمی شعور کی بیداری کے لئے مہم شروع کی۔ اس زمانے میں مسلمان خواتین مردوں سے ہر شعبہ میں پیچھے تھیں۔ قائداعظم جانتے تھے کہ مسلمان خواتین کی رہنمائی ان کی بہن بخوبی کر سکتی ہیں چنانچہ انہوں نے ان کو بھرپور جدوجہد کا آغاز کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے قائداعظم کے ساتھ 15سے 18اکتوبر1937ء کو آل انڈیا مسلم لیگ سیشن منعقدہ لکھنو میں شرکت کی۔ اس اجلاس کی صدارت قائداعظم نے کی۔ انہوں نے اعلان کیا کہ وہ مسلمانوں کی معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی پسماندگی دور کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف رکھیں گے۔ یہی وہ اجلاس تھا جس میں انہوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں مسلم لیگ میں شریک ہوں۔ اپنی صفوں میں مکمل اتحاد قائم کریں، باہمی اخوت کا ثبوت دیں۔17 اکتوبر کو انہوں نے اعلان کیا کہ’’مسلم لیگ کا مقصد ہندوستان میں ایک کامل آزاد وفاق کا قیام ہے جس میں آزاد جمہوری ریاستیں ہوں گی جن میں آئین کے مطابق مسلمانوں سمیت اقلیتوں کے حقوق اور مفادات کا موثر تحفظ ہوگا‘‘
محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کی معیت اور ہدایات کے مطابق خواتین سے روابط قائم کر کے انہیں ان کے حقوق کے حصول اور مسائل کے حل کے لئے جدوجہد کرنے کی طرف توجہ مبذول کرائی۔ اس تاریخی اجلاس کے موقع پر محترمہ فاطمہ جناح نے مسلمان عورتوں کے بے شمار اجتماعات سے خطاب اور انہیں سیاسی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنے کے لئے کہا۔ انہوں نے تحریک پاکستان کے آغاز ہی میں انہیں بتایا کہ قیام پاکستان کے لئے مسلمان خواتین کے کردار کی کس قدر اہمیت و وقعت ہے۔ انہیں اس بات پر ابھارا کہ وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہوں تاکہ مردوں کے شانہ بشانہ پاکستان کے حصول کے لئے کام کر سکیں۔ ان کا تمام تر زور مسلمان عورتوں کو متحرک و فعال کرنے پر ہوتا۔ اسی تسلسل میں انہوں نے 1938ء میں اپنے بھائی کے ہمراہ پٹنہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سیشن میں شرکت کی جہاں ان کو مسلم خواتین کو بیدار کرنے اور مسلم لیگ کے پیغام کو خواتین میں عام کرنے کے لئے خواتین ونگ کا کنونیئر مقرر کر دیا گیا تاکہ وہ ہندوستان کے طول و عرض میں خواتین کو منظم کر سکیں۔
محترمہ فاطمہ جناح جب میدان عمل میں اتریں تو مسلمان خواتین کو ان کی شرکت سے خود اعتمادی کی بے پناہ دولت نصیب ہوئی۔ وہ 1938ء میں بمبئی صوبائی مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کی رکن منتخب ہوئیں۔ انہی دنوں دہلی میں خواتین کا ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں پردہ دار خواتین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ اس کے بعد ہندوستان کے ہر صوبہ میں زمانہ مسلم لیگ قائم ہوگئی۔ اس اجلاس میں جو قرار داد پیش کی گئی اس میں کہا گیا کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی زنانہ سب کمیٹی کے اغراض و مقاصد میں صوبائی و ضلعی مسلم لیگیوں کے تحت صوبائی و ضلعی سب کمیٹیوں کو منظم کرنا، ہندوستان بھر میں مسلم خواتین میں وسیع پروپیگنڈہ کرنا تاکہ ان میں سیاسی شعور بیدار ہو سکے، خواتین کو بھاری تعداد میں مسلم لیگ کا رکن بنانا اور مسلم معاشرہ کی ترقی کے لئے ضروری جملہ معاملات میں مشورہ دینا اور رہنمائی کرنا شامل ہوگا۔ زنانہ مسلم لیگیں پہلے صوبائی، پھر ضلعی اور پھر تحصیل اور دیہی سطح پر قائم کی گئیں۔1937ء میں صوبائی خود مختاری کے حصول کے بعد ہندو اکثریتی صوبوں میں کانگریسی وزارتوں نے مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے اس سے بھی مسلمانوں میں اپنی علیحدہ قومیت کے تشخص کا احساس بڑھا جو پوری مسلمان قوم میں حلول کر گیا چنانچہ1937ء، 1938ء اور1939ء کے دوران میں خواتین کے متعدد جلسوں اور اجتماعات میں مسلمان عورتوں نے مردوں کے ساتھ مل کر علیحدہ اسلامی مملکت کے لئے شبانہ روز کام کرنا شروع کیا۔ جب 1940ء میں لاہور میں قرار داد پاکستان پیش ہوئی تو وہ پوری طرح سرگرم عمل تھیں۔ لاہور میں ان کا قیام 21 مارچ سے لے کر26 مارچ تک رہا اور26 مارچ کو اس تاریخ ساز اجتماع میں شرکت کے بعد دہلی روزانہ ہوئیں۔ لاہور میں ان کے روابط برصغیر کی صف اول کی مسلم رہنما خواتین سے بہت مضبوط ہوگئے۔
قائداعظم کی نگاہ میں مسلم خواتین کا مرتبہ بہت بلند تھا۔ انہوں نے اپنی بہن کی بھی بہترین تربیت کی تھی۔ فاطمہ جناح نہ صرف اپنے بھائی کے دوش بدوش قومی تحریک میں حصہ لیتی رہیں بلکہ انہوں نے اپنے لباس میں بھی مشرقی وضع قطع اختیار کی۔ وہ خواتین کی اجتماعی گفتار، نفاست پسندی اور تمکنت و وقار کا ایک نمونہ بنی رہیں۔ محترمہ فاطمہ جناح مسلم لیگ خواتین کمیٹی کی تنظیم، خواتین کی فلاح و بہبود، انڈسٹریل ہومز اور لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی جدوجہد میں مصروف رہیں اور قیام پاکستان کے بعد بھی وہ ان مسائل سے غافل نہیں رہیں۔
قیام پاکستان کے بعد ایک ایک لمحہ فلاح و بہبود کے کاموں پر صرف ہوگیا۔ پاکستان کے قیام کے وقت قوم کو جن ہوش ربا اور سنگین حالات کا سامنا کرنا پڑا وہ عالمی تاریخ کا حصہ ہیں۔ پاکستان مشکلات میں گھر گیا، لاکھوں لٹے پٹے مہاجرین کی آمد اور ان کی لامتناہی اور پریشان کن مسائل اس پر نئی مملکت کے لئے وسائل کی کمی۔ ان انتہائی کٹھن اور پریشان کن حالات میں مادر ملت نے بے مثال صبر ہمت، استقلال سے کام لیا۔ مہاجرین کی آباد کاری میں ان کی دلچسپی مثالی تھی۔11 ستمبر کو قائداعظم کی وفات کے بعد تو انہوں نے قوم کی رہنمائی کے لئے شب و روز ایک کر دیئے۔ غرباء کی امداد کے لئے مختلف اداروں کا قیام، تعلیم کو عام کرنے کے لئے جدوجہد ان کی معمولات کا حصہ تھا۔ پاکستان کے طول و عرض سے خواتین رہنمائی اور اعانت کے لئے ان سے رابطے قائم کرتیں۔ جہاں سے جائز مطالبہ کیا جاتا وہاں کسی توقف سے کام نہ لیتیں۔ کراچی میں وہ ہمہ وقت تعلیمی، اصلاحی اور فلاحی اداروں کے قیام کے لئے سرگرم عمل رہتیں چنانچہ انہوں نے خاتون پاکستان کالج کراچی اور فاطمہ جناح سکول لارنس روڈ اور دست کاری کے مراکز وغیرہ قائم کئے اور ان کی سرپرستی کی۔