اسلام آباد‘ راولپنڈی (نوائے وقت رپورٹ+ جنرل رپورٹر+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) حکومت نے جماعت اسلامی کی مذاکراتی کمیٹی سے رابطہ کیا ہے تاہم جماعت اسلامی نے مطالبات پورے ہونے تک دھرنا ختم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی اور حکومت کے مابین چارٹر آف ڈیمانڈ پر مذاکرات کے معاملے پر وفاق کی جانب سے جماعت اسلامی کی مذاکراتی ٹیم سے رابطہ کیا گیا۔ حکومت کی جانب سے دو رکنی ٹیکنیکل کمیٹی سے ملاقات کا اصرار کیا گیا جس پر جماعت اسلامی کی قیادت نے جواب دیا کہ ٹیکنیکل کمیٹی سے ہمیں مذاکرات کی ضرورت نہیں۔ جماعت اسلامی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومتی کمیٹی کو جواب دیا گیا ہے کہ اگر مذاکرات میں سنجیدگی نہ دکھائی تو مظاہرین ڈی چوک ہی نہیں بلکہ پارلیمنٹ کے باہر بھی دھرنا دے سکتے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور حکومتی مذاکراتی کمیٹی نے جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ سے رابطہ کیا ہے۔ حکومت اور جماعت اسلامی کے مذاکرات کے دوسرے دور سے متعلق گفتگو ہوئی۔ لیاقت بلوچ نے بتایا کہ حکومت اور جماعت اسلامی کے مذاکرات آج تین بجے ہوں گے۔ امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے پریس کانفرنس اور دھرنے کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ فیز میں اہم شاہراہوں پر بیٹھیں گے، کل سے گورنر ہاؤس سندھ کے سامنے احتجاجی دھرنے کا آغاز ہو رہا ہے، حکمرانوں کی نااہلی کا عذاب پوری قوم بھگت رہی ہے، آئی پی پیز حکومت کی مجبوری نہیں بلکہ نالائقی، نااہلی اور کرپشن ہے، حکمران کہتے ہیں کہ معاہدے قوم کے سامنے نہیں لاسکتے، یہ عوام کا خون نچوڑ سکتے ہیں، بل بڑھا سکتے ہیں، اب ظلم نہیں چلے گا، آئی پی پیز کا فرانزک آڈٹ کرایا جائے۔ انہوں نے بانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا دھرنے کی تعریف پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا تحریک تحفظ آئین نئے الیکشن کی بات کرکے اپنے فارم 45 والے موقف سے دستبردار ہورہی ہے، امیر جماعت نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اعلان کریں کوئی وزیر اور سرکاری آفیسر 1300 سی سی سے زائد گاڑی استعمال نہیں کریں گے، بڑی گاڑیوں کی بندش سے 350 ارب روپے کا فائدہ ہوگا، اس پر وزیراعظم کام کیوں نہیں کر سکتے، حکمران قوم کو فائدہ پہنچانے کے لیے تیار نہیں ہے، عوام بلز اور ٹیکسوں کی صورت میں ان کی عیاشیوں کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ظالم حکمرانوں نے بنیادی اشیائے خوردونوش پر 18 فیصد تک ٹیکس لگادیا، بچوں کے دودھ پر ٹیکس لگادیا، عوام بل دیں، یا راشن خریدیں۔ غریب، متوسط طبقات کے علاوہ اب تو صنعتکار تک متاثر ہے، صنعتیں بند ہورہی ہیں۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے آئی پی پیز پیپلزپارٹی کے دور حکومت سے شروع ہوئے، پہلے 35 کمپنیوں سے معاہدے ہوئے اور پھر مشرف دور میں 45 کمپنیوں اور پھر نوازشریف کے زمانے میں تقریبا 120 کمپنیوں سے بات ہوئی، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں بھی تقریباً 30 سے 35 کمپنیوں سے بات ہوئی، اور اس وقت بھی 100 سے 124 آئی پی پیز کی فہرست آتی ہے، حقائق قوم کے سامنے نہیں لائے جاتے۔ راولپنڈی جماعت اسلامی کا احتجاج پانچویں روز میں داخل ہو گیا، کارکنوں نے رات سڑک اور ارد گرد عمارتوں کے شیڈز کے نیچے اور میٹرو بس ٹریک کے نیچے گزاری۔ شدید حبس اور وقفے وقفے سے ہونے والی بارش میں نہاتے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہے، کارکن وقفے وقفے سے نعرے لگاتے اور مطالبات منظور کرنے کیلئے نعرتے لگاتے، صبح ہوتے ہی جماعت اسلامی کے کارکنان کی جانب سے پنڈال میں صفائی کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔ صفائی کے بعد ناشتہ کرتے ہیں، جس کا با قاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے۔ دریں اثناء سابق امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے مطالبہ کیا ہے کہ عوام کو مفت نہیں سستی بجلی فراہم کی جائے اور فی یونٹ پر اصل لاگت وصول کی جائے۔ جس طرح کشمیریوں کی بجلی سستی ہوئی اسی طرح ملک میں عوام کو سہولت دی جائے۔ راولپنڈی میں دھرنے کے چوتھے روز شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ اگر قرض میں کرپشن اور غیر ترقیاتی اخراجات ختم کر دیئے جائیں تو عوام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔