اسلام آباد (بی بی سی ڈاٹ کام) بی بی سی نے کہا ہے کہ فوج کے پس منظر میں جانے کے بعد مزاحمت کاروں نے نسبتاً آسان ہدف پولیس کو چُن لیا ہے۔ اس کی دوسری وجہ ملک کے سکیورٹی نظام کی بنیاد کو کمزور بنانے کی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ مزاحمت کاروں نے 9/11کے بعد قبائلی علاقوں میں آپریشن کا غصہ نکالنے کیلئے کمزور‘ غیرتربیت یافتہ اور مناسب اسلحہ سے محروم پولیس کو ابتداء میں ٹانک اور وزیرستان میں نشانہ بنانا شروع کیا پھر اسی بہتی گنگا میں پنجاب کی فرقہ واریت میں ملوث تنظیموں نے بھی ہاتھ دھونا شروع کر دئیے۔ حتیٰ کہ پولیس اہلکاروں کے جنازوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ اب گذشتہ ایک برس سے مزاحمت کاروں نے پولیس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ سوات اور قبائلی علاقوں میں امن کی قدرے بحالی کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ مزاحمت کاروں نے ملک گیر سطح پر فرسٹ ڈیفنس لائن کو کھوکھلا کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں۔ جس میں انہیں کامیابی بھی مل رہی ہے۔ گذشتہ روز مناواں ٹریننگ سنٹر پر سب سے پہلے پہنچنے والے کسی بھی پولیس اہلکار کے پاس بلٹ پروف جیکٹ تھی نہ ہی ہیلمٹ۔ یعنی اہلکاروں کی سکیورٹی بہتر تربیت اور جدید ہتھیاروں کی فراہمی پر بھی حکومت کو فوری توجہ دینا ہو گی ورنہ سوات والی صورتحال پورے ملک میں پھیلنے میں دیر نہیں لگے گی جہاں پولیس اہلکاروں نے اپنی فورس سے علیحدگی کیلئے اشتہار تک شائع کراتے رہے ہیں۔
آسان ہدف پولیس